شکیل عادل زادہ

کتابیں:

• کتاب کی قدروقیمت اس کی ضحامت سے نہیں، متن سے ہوتی ہے. متن خیال انگیز، فکر امروز ہو تبھی کتاب ختم کرنی چاہیے ورنہ ادھوری چھوڑ دینی چاہیے.

• زندگی اتنی بڑی نہیں‌کہ فضول کتابوں میں وقت گنوایا جائے. چُنے (انتخاب کے) بغیر ہر طرح کی کتاب پڑھنے سے دماغ منتشر ہو جاتا ہے. منتخب کتابوں ہی کو ترجیح دینی چاہیے.

• ثقہ (بھاری بھرکم) کتابوں میں جی نہ لگے تو افسانوی کتابیں پڑھیں، یہ وقت کا بہترین مصرف ہے. افسانوی کتابیں گداز (نرمی) پیدا کرتی ہیں اور خیال و خواب بیدار کرتی ہیں.

• کہانی کی کتاب ایک طرح کی سیاحت ہے. سیاحت میں جس طرح نِت نئے تجربے ہوتے ہیں، کہانیاں بھی زندگی کے نو بہ نو رنگ دکھاتی ہیں.

• کہانیاں دریچوں اور چلمنوں کی طرح ہوتی ہیں. لفظوں میں جھانک کر دیکھو تو عجب عجب مناظر سے واسطہ پڑتا ہے.

• کسی اچھی تحریر تک پہنچتے پہنچتے بڑی ناگوار تحریروں سے گزرنا پڑتا ہے. مشکل یہ ہے کہ ایک معیاری تحریر کے مطالعے کے بعد کم تر درجے کی تحریروں میں جی نہیں لگتا اور یوں آدمی کا دل مطالعے سے اُکتا بھی سکتا ہے.

• پرانی کتابوں کی نسبت نئی کتابوں پر توجہ کرنی چایے. (اکثر اوقات) پرانی کتابوں کی فکر بھی بوسیدہ ہو جاتی ہے. زمانے کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے. اشارے، ذوق، مزاج اور لہجے بدل جاتے ہیں. آدمی کو ہمیشہ اپنے عہد میں رہنا چاہیے اور آنے والے وقت کے لیے مستعد، پر جوش اور پیش قدم.

متفرق:

• اقتدار کا پہلا نکتہ برداشت ہے، زندگی کے اقتدار کا بھی یہی نکتہ ہے.

• زندگی ایک میدانِ کارزار ہے، خارجی اور داخلی عناصر کا توازن قائم رہے تو بقا ہے ورنہ فنا ہے.

• وقت کی گرد باد بہت سی شدتیں دھندلا دیتی ہے.

• آنے والے وقت سے زیادہ بے اعتبار کوئی چیز نہیں‌ہوتی، ہر موجود لمحہ غنیمت ہے.

• جاں سوختہ کے لیے چارہ گر کی آنکھوں کا مرہم بھی تیر بہدف ہوتا ہے.

• حسن وہی ہے جو ہر رنگ میں زیبا نظر آئے.

• زندگی میں جتنے کم خواب دیکھے جائیں، اتنا ہی زندگی کے لیے سود مند ہے.

• لمحوں کا یقین ایک فریب ہے اور آدمی اس فریب میں زندگی گزار دیتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں