یہاں ہم عمارت (توپ کاپی) میں داخلے کے بعد سب سے پہلے سلطان احمد سوئم کی 1718ء کی تعمیر شدہ لائبریری میں گئے. سلطان احمد سوئم خود ایک خطاط اور کتاب دوست بادشاہ تھا. لائبریری کا دستور بنایا گیا تھا کہ اس سے کوئی کتاب باہر نہیں جائے گی لیکن سلطنت کے ساتھ یہ قانون بھی ختم ہوگیا اور یہاں کے تمام مخطوطات توپ کاپی کی مرکزی لائبریری میں منتقل کر دیے گئے. لائبریری کا ماحول بہت پرسکون اور روشن ہے.
دو قطاروں میں خوب بڑے بڑے بتیس (32) دریچے بنائے گئے ہیں جن سے آنے والی کرنیں لائبریری کے ماحول کو خوب روشن رکھتی ہیں اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں بیٹھ کر مطالعہ کتنا آسان ہوتا ہوگا. اِدھر اُدھع میزیں اور حوامل مصحف رکھے ہیں. قلم دوات بھی ہیں. ایک مجسمے کو یہاں شیلف سے کتاب نکالتے اور دوسرے کو پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جو ایسے سکون سے محوِ مطالعہ تھا گویا وہ حافظ شیرازی کے قول ”فراغتی و کتابی و گوشہ چمنی‘‘ کی تصویر ہو. عجائب گھر کا ہر گوشہ بلکہ بقول غالب کے ”ہر گوشہ بساط‘‘ جا اینجاست کا مصداق تھا.
(دیارِ شمس ترکی نامہ، صفحہ: 137 – 136)
ڈاکٹر زاہد منیرعامر صاحب کی ترکی سے دلچسپی جو بچپن میں ٹکٹ جمع کرنے کے شغف کے مرحلے سے شروع ہوئی تھی عمر گزرتے گزرتے مطالعات میں اضافے کے ساتھ ایک باشعور محبت میں منتقل ہوگئی اور یہ محبت انھیں ترکی بھی کھینچ لائی ۔یعنی ڈاکٹر صاحب کا علم الیقین ترکی تشریف آوری کے بعد عین الیقین کے مرحلے تک پہنچ گیا اور جس طرح سے ان کی اس تصنیف سے علم ہوتا ہے ترکی کی زیارت نے ان کی ترکی سے محبت اور تُرک دوستی میں مثبت اضافہ کیا ہے۔اِس امر کے ڈاکٹر صاحب خود بھی معترف ہیں کہ وہ لکھتے ہیں:’’یورپ کا پہلا سفر 2011ء میں کیا گیا تھا۔ جرمنی، فرانس، اٹلی ، سوئٹزرلینڈ اور سپین کے اس سفر کی روداد ہنوز نامکمل ہے۔ دوسرا سفر یورپ یونان، اٹلی اور نیدرلینڈز کا تھا، اس کی روداد سفر بھی ہنوز قلمبند نہیں ہوئی ہے لیکن ترکی ایسا زور آور نکلا کہ تمام اسفار کو پیچھے چھوڑکر سب سے پہلے اپنا سفرنامہ لکھوانے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ یعنی ترکی نے زورِبازو سے نہیں بلکہ زورِ محبت سے یورپ کے معروف و مشہور ملکوں کو پیچھے دھکیل کر اپنا سفرنامہ قلمبند کرایا اور بہت ہی خوب کیا ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب کا یہ سفرنامہ اردو زبان میں لکھے گئے سفرناموں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے…ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس کاوش میں قارئین کرام کو ترکی کے دو بڑے اور اہم شہروں استنبول اور قونیہ سے بخوبی متعارف کروایا ہے جس کا علم کتاب کی فہرست پر نظر دوڑاتے ہی ہوجاتا ہے…ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب کامیں پھر سے اپنے شہر ’’استنبول‘‘ سے پر کشش انداز میں نئے سرے سے متعارف کرانے کی وجہ سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار
(ستارۂ امتیاز)
استنبول یونیورسٹی، شعبۂ اردو، استنبول،ترکی
یوں تو ادب کی تمام اصناف ہی قاری کو جہانِ دیگر میں لے جاتی ہیں لیکن سفرنامہ ایک ایسی صنف ہے جو اپنے پڑھنے والے کو کسی افسانوی دنیا کی نہیں بلکہ حقیقی مناظر کی سیر کرواتا ہے۔ ایک اچھے سفرنامے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ مصنف (سیاح) نت نئی زمینوں کے دَر کچھ اس طرح کھولے کہ قارئین اس کے ساتھ اس سفر میں شریک ہو جائیں۔ ایک ایسا ہی سفرنامہ اس وقت میرے ہاتھ میں ہے جس میں مصنف نے ترکی کی سیاحت کے دوران اپنے تجربات اور احساسات کو بخوبی قلم بند کیا ہے۔ میری مراد ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے سیاحت نامے ’’دیارِ شمس‘‘ سے ہے۔ ترکی کے دو صوفیانہ شہروں میں گھومتے ہوئے زاہد منیر عامر نے انتہائی باریک بینی اور اشتیاق سے ترک ثقافت اور تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعے کو رقم کرتے ہوئے جو جذبہ شدت سے کار فرما نظر آتا ہے وہ ترکی سے محبت ہے۔ محبت کے بغیر یہ کام ہو بھی نہیں سکتا۔ سفرنامے کا انتساب ڈاکٹر صاحب نے ہمارے عظیم ترک رہنما کمال اتاترک کے نام کیا ہے جو پاک ترک دوستی کا خوب صورت استعارہ ہے۔آپ کا بہت شکریہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر …بہت شکریہ!
پروفیسر ڈاکٹرآسمان بیلن اوزجان
صدرشعبہ اردو،انقرہ یونیورسٹی، ترکی