اکتا گیا جی یہاں سے بھائی
پھر چلنے کی دل میں جھک سمائی
ایسی صد ہا پڑی ہیں افتاد
روکے سے کہیں رکے ہیں آزادؔ
گردش میں ہے ان دنوں جو اختر
پاؤں پر سوار ہے سنیچر
چھپر پہ دھرا ہے عیش و آرام
سیاحوں کو ایک جا پہ کیا کام
بس یہی ہے لطف زندگانی
دانہ ہو نیا، نیا ہو پانی
چشمہ نہ بہے تو اس میں بو آئے
خنجر نہ چلے تو مورچہ کھائے
لیتے ہیں خبر اِدھر اُدھر کی
اب بھرتے ہیں سدھیاں سفر کی
سیٹی بجی ریل کی مری جاں
لو جاتے ہیں اب، خدا نگہبان
درویش رواں رہے تو بہتر
آب دریا بہے تو بہتر
(رتن ناتھ سرشارؔ کشمیری – فسانہ آزاد)