سیاح کی مناجات

”چلتے ہو تو چین کو چلئے‘‘، ”آوارہ گرد کی ڈائری‘‘، ”دنیا گول ہے‘‘، اور اب یہ ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ آخر اتنی کتابیں کون پڑھے گا. اتنے قصے کون سنے گا. اس پر ہمیں سیاح کی مناجات یاد آتی ہے جو پچھلے دنوں آرٹ نجوالڈ نے اپنے کالم میں لکھی تھی۔ نمونہ کلام:
”اے خداوند! اس بندہ عاجز یعنی اس سیاحِ غریب کو اپنی نظرِ کرم کی بھیک دے، جس کے مقدر میں دیس بدیس پھرنا، خوار ہونا، فوٹو لینا، تصویری پوسٹ کارڈ پوسٹ کرنا، تحفے خریدنا اور واش ویئر نائیلون کے کپڑوں میں زندگی بسر کرنا لکھا ہے۔‘‘
”خداوندا! ہم پر مہربان رہ، ہمارا ہوائی جہاز اغوا نہ ہو، ہمارا سامان گم نہ ہو، اور ہمارے پاس اجازت سے زیادہ بوجھ ہو تو کوئی گرفت نہ کرے، کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔‘‘
”ہمیں محفوظ رکھ بارِ الہٰا، تند خو اور درشت مزاج ٹیکسی ڈرائیوروں سے، حریص قلیوں سے، غلط بل بنانے والے بیروں سے، تنگ دل ہوٹل والوں سے‘‘
”ہمیں ایسے ہوٹل عطا کر جن کے کرائے کم ہوں اور ناشتہ پیٹ بھر ملتا ہو‘‘
”یا مالک، ہمیں سمجھ عطا کر ان سِکوں میں صحیح مقدار میں بخشیش دینے کی، جن کو ہم نہیں‌سمجھتے، اگر ہم کسی قلی یا بیرے کو غلطی سے تھوڑی بخشیش دیں تو اس کے دل میں رحم اور عفو کا مادہ پیدا کر، جس دیار میں ہم ہوں، وہاں کے لوگوں میں ہمارے لیے سچی اور بے لوث محبت کی جوت جگا اور وہاں کے دکانداروں کے دل لالچ اور نفع اندوزی کی لعنتوں سے پاک رکھ‘‘
”ہمیں توفیق عطا کر کہ وہ سارے میوزیم، گرجا، محل اور قعلے دیکھنے کی، جن کا دیکھنا ہماری گائیڈ بک میں لازمی لکھا ہے۔ ہم دوپہرکو قیلولہ کرنے کی وجہ سے کوئی تاریخی مقام دیکھنا بھول جائیں تو ہمیں معاف فرما، ہم آخر انسان ہیں… ضعیف البنیان ہیں‘‘
یہ تو خیر ہر سیاح کی واردات ہے، ہماری آمین کے لائق اس دعا کا آخری حصہ ہے:
”خداوندا… جب ہمارا سفر ختم ہو اور ہم اپنے عزیزوں (یا قارئین) میں واپس جائیں تو پیدا کر اپنی قدرت کاملہ سے ایسے لوگ جو ہماری کھینچی ہوئی تصویریں اور فلمیں تمام و کمال دیکھنے کی تاب لا سکیں اور ہمارے سفر کی داستانیں سن سکیں (اور پڑھ سکیں) تا کہ ہماری زندگیاں بطور سیاح کے اکارت نہ جائیں، آمین، ثم آمین‘‘

4 اپریل، 1974ء، ابنِ انشا

(ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، صفحہ: 9 – 8)

اپنا تبصرہ بھیجیں