راحتؔ اندوری کی شاعری، ایک شبنمی احساس – حسنین نازشؔ

قدیم عربی شاعری میں جب قصیدہ ہی میں شاعری کی جاتی تھی تو قصیدے کا ایک اہم ترین جزو تشبیب تھا جس میں جوانی کی سرمستیوں اور رنگینیوں یا پھر مصائب و مشکلات اور غم و الم کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ تشبیب کا ایک اور نام غزل پڑ گیا۔ ظہورِ اسلام سے قبل تشبیب کو بہت پسند کیا جانے لگا مگر شروع شروع میں مسلم شعراء کرام نے کبھی اس صنف کو پسند نہیں کیا کیوں کہ اس کے مضامین سنجیدہ، حکیمانہ اور شریفانہ نہ تھے بلکہ معاملات عشق، مے کشی اور عارضِ نسواں کی تصویر کشی وغیرہ پر مبنی تھے۔ چند صدیوں بعد اہلِ فارس نے تشبیب کو قصیدے سے الگ کر کے ایک جداگانہ صنف ادب کا درجہ دے دیا اور فارسی گو شعراء بلا جھجک اس صنف ادب میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ اس زمانے میں شعراء صرف معاملات عشق و عاشقی کے بیان کی غرض سے ہی اسے استعمال کرتے رہے لیکن بعد میں سعدی اور حافظ کے دور میں غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا ہو گئی۔ متصوفانہ خیالا ت، تخیل، وحدۃ الوجود، الٰہیات منظر کشی، سیر باغ اور حکیمانہ خیالات و نظریات وغیرہ کوغزل نے اپنے دامن میں سمو دیا۔ یہی وہ دور تھا کہ جب فارسی غزل اپنے بام عروج پر پہنچ گئی اور اسے قصیدے اور مثنوی سے زیادہ پسند کیا جانے لگا۔ اسی دوران ہندوستان کی عام بول چال کی زبان اُردو، ادب کے ایوانوں میں داخل ہونے کی تیاری کر رہی تھی اورشعرائے وقت نے غزل کو ہی مختصر خیالات و جذبات اور ہلکے پھلکے موضوعات کے اظہار کا ذریعہ بنایا کیوں کہ اُردو زبان ابھی اپنی ابتدائی ارتقائی منازل سے گزر رہی تھی جو قصیدہ کے سے عالمانہ اور حکیمانہ تصورات کو بیان کرنے سے چنداںعاجز تھی۔
اہلِ ہند نے غزل گوئی کوآسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا۔ میرؔ و سوداؔ کے دور کو اُردو غزل گوئی کا سنہرہ دور کہا جاتا ہے۔ اسی دور میں غزل کی از سرِنو تعریف و توصیف کی گئی اور غزل کو ایسے اشعار کا نمونہ قرار دیا گیا جن کا قافیہ تو قصیدے کی طرح ایک ہی ہو لیکن ہر شعر الگ اور مکمل ہو جس میں شاعر اپنے حقیقی یا مجازی عشق کی واردات یا معاملات کو بیان کر سکے۔
غزل گوئی میں جذبات و خیالات کو محض صاف صاف اور بین بین بیان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اشاروں اور کنایوں کی ایسی دلکش اور مؤثر زبان استعمال کی جاتی ہے جو پڑھنے والوں کے دل میں اتر جائے. غزل میں رفتہ رفتہ حسن و عشق کے علاوہ اخلاق، تاریخ، مذہب، فلسفہ، سیاست، معاشرت اور معیشت وغیرہ کے مسائل بھی زیر بحث لائے جانے لگے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اُردو شعر گوئی کا ہر ہر دور غزل کا ہی دور رہا ہے۔ آج بھی اگر آسمانِ شعر پر اگر کوئی جگمگاتا ستارہ ہے تو وہ غزل گو شاعر ہی ہے۔
راحتؔ اندوری کا نام موجودہ ادبی منظرنامے پرنیا نہیں تھا۔ راحتؔ ایک مجلسی شاعر تھے۔ سرزمین کراچی کی ہو یا دہلی کی، ہردو صورتوں میں راحتؔ کا کلام مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ اپنے ہم عصروں میں انہیں یہ ممتاز مقام حاصل تھا کہ ان کے دامن کو بے پناہ داد و تحسین اور عزت وتکریم سے نوازا گیا۔ اسی لیے ان کے بارے میں کہا گیا:
’’کراچی میں ہونے والے عالمی مشاعروں اور اس کے ذیلی مشاعروں میں راحتؔ اندوری شریک ہوتے ہیں تو مشاعر ے لوٹ لیتے ہیں۔ وہ دونوں ممالک میں مشاعرہ پیٹ شاعر مانے جاتے ہیں.‘‘

کسی بھی شاعر کے لیے سب سے مقدم اور ممتاز خاصیت جو اُسے اپنے ہم عصر و ںامور دیگر وقتوں کے شعراء سے ممتاز رکھتی ہے وہ اسی کی قوت متخیلہ ہے۔ جس شاعر میں یہ خاصیت اعلیٰ درجے کی ہوگی اُسی قدر اس شاعر کا کلام پر تاثیر اور اعلی درجے کا ہوگا۔ راحت کا قوتِ تخیل بھی خاصا وسیع ہے، یہ شعر ملا حظہ ہو:
بلندیوں کی طلب ہے تو پستیوں میں چلو
سمندروں نے چھپایا ہے پربتوں کا راز
اسی طرح اپنے زورِ تخیل کے ہی بل بوتے پر راحتؔ کو کہکشائیں بھی اپنے قریب تر نظر آتی ہیں جو اس بات کاعندیہ ہے کہ کائنات کے راز جوحضرتِ انسان پر وا ہو رہے ہیں اسے اس کائنات میں اپنی قدرومنزلت کا ادراک خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ستارے جن سے مرا فاصلہ ہے صدیوں کا
کبھی کبھی تو بہت ہی قریب لگتے ہیں

ایک اور غزل کا شعر ملاحظہ ہو:
تتلیوں میں سما گیا منظر
مٹھیوں میں سمٹ گئی دنیا
مذکورہ بالا اشعار اور اس کے علاوہ ان کے کلام میں جا بجا اشارے ملتے ہیں کہ راحتؔ اندوری کائنات کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ شاعری کے لیے قوتِ تخیل کے ساتھ ساتھ کائنات کا مطالعہ بھی ازحد ضروری ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شاعری میں درجہ کمال حاصل کر نے کے لیے قوتِ تخیلہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ’’نسخہء فطرتِ انسانی‘‘ کا نہایت عمیق مطالعہ کیا جائے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ دنیا بھر میں جتنے بھی بڑے اور نامور شعرا ہو گزرے ہیں وہ کائنات اور فطرت انسانی کے مطالعے میں مستغراق رہے ہیں۔ اسی فکر کا استغراق ہی شاعر پر طرح طرح کے عقدے وا کرتا ہے۔ جب اس کے قلم کے نور سے اشعار سیاہی سے نچڑ کر پھوٹتے ہیں تووہ کچھ ایسا روپ دھار لیتے ہیں:
زندگی کو ز خم کی لذت سے مت محروم کر
راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر
ٹوٹ کر بکھری ہوئی تلوار کے ٹکڑے سمیٹ
اور اپنے ہار جانے کا سبب معلوم کر
جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو غزل کا نام دے
رات بھر کی کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر

راحتؔ اندوری کی شاعری پڑھ کر جسم و جاں پر ایک سرمستی سی چھانے لگتی ہے۔ ایک شبنمی احساس، ایک لطیف مہک اور ایک خوش گوار تاثر ذہین و قلب کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے۔ ان کے کلام میں برجستگی، وارفتگی اور ان کے خیال میں نکتہ آفرینی کے پہلوان کے مجموعے ’’ کلام‘‘ میں جا بجا ملتا ہے۔
تیری پلکوں کے گھنے سائے کا موسم خوب ہے
دھوپ میں نکلا تو سر پر شامیانے لگ گئے
بند کمروں کی اُمس اپنا مقدر بن گئی
چھت پہ جب پہنچے تو بادل سر اٹھانے لگ گئے
راحتؔ کو شعر کہنے کا ہنر خوب آتا تھا ان کے ہاں موضوعات کا تنوع شدومد سے پایا جاتا ہے جس کے ساتھ تو زبان کی چاشنی اورشعر گوئی کی ہنرکاری سے جب شعر پھوٹتے ہیں تو پڑھنے سننے والے کو اپنے جادوئی سحر کے حصار میں گھیر لیتے ہیں۔ سہل ممتنع ان کے کلام کی ایک ایسی خصوصیات ہے جس نے راحتؔ کے شعر کو نثرکے قریب تر لا کرکھڑا کر دیا ہے۔ یوں ان کا سادہ اسلوب ناقدین و قارئین کو مسحور کر دیتا ہے۔ سادہ شعر کہنا بعض اوقات آسان ہوتا ہے لیکن اس کوشش میں شاعرانہ تقاضے ہاتھ سے جاتے رہتے ہیں مگر راحتؔ چونکہ سہل پسندی کے جملہ امور سے خوب واقف تھے اس لیے اس ہنر کو وہ جابجا بڑی بے ساختگی سے برتتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتا دیتے تھے
خاک مٹھی میں اٹھاتے تھے اڑا دیتے تھے

ایک دوسری غزل میں کہتے ہیں:
خاک سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوتی
چھوٹی موٹی بات پہ ہجرت نہیں ہوتی
پہلے دیپ جلیں تو چرچے ہوتے تھے
اور اب شہر جلیں تو حیرت نہیں ہوتی
راحتؔ کی شاعری ایک عہد سے دوسرے عہد میں جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انسانی رویوں، زندگی کی تلخ و ترش حقیقتوں، افلاس میں گوندھی ہوئی تیسری دنیا کی قبیح صورتیں راحت ؔکی شاعری کے مرکزی کردار تھے۔ ان کے ہاں جبر کی ہر ہر صورت کی نہ صرف نفی نظر آتی ہے بلکہ نا انصافی اور بدامنی کے طوفانوں کے مقابلے میں راحت بادبان کستے نظر آتے ہیں۔ جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ راحتؔ بھی اپنے دیگر ہم عصروں اور ماضی کے شعراء سے مختلف نہیں جو ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستہ رہے یا متاثر ہوئے۔ غربت افلاس اور جبرسے کچلے ہوئے عوام کے جذبات و احساسات اور مسائل کے ترجمان بن کر راحت بھی ویسے ہی کھڑے تھے۔ نہ صرف اجتماعی جبر بلکہ نام نہاد مذہبی آقاؤں کوبھی انہوں نے اپنی شاعری میں بڑھ چڑھ کر آڑے ہاتھوں لیا جیسا کہ ترقی پسند کھڑے رہے۔ ’’کلام‘‘ میں فرماتے ہیں:
سب کورْسوا باری باری کیا کرو
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو
روز قصیدے لکھو گونگے، بہروں کے
فرصت ہو تو یہ بے گاری کیا کرو

یہ شعر دیکھیے:
جانے یہ تصویر میں کس کا لشکر ہے
ہاتھوں میں شمشریں ہیں سرغائب
دھوکے باز مجاورحاکم بن بیٹھے
درگاہوں سے مست قلندر غائب
ڈاکٹر راحتؔ اندوری کے متعلق خصوصیت سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اُردو غزل گوئی کی روایت سے خوب واقف تھے انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری کے لیے جذبہ و فکر کا ایک اپنا ہی ماحول بنایا بلکہ اسی ماحول میں لفظ کے حوالے سے دریافت اور ا ظہار کی منازل تک بھی بطورِ احسن پہنچ پائے۔ ان کے کلام میں دورِ جدید کے اسلوب کی تازگی، ندرت ِاظہار عہد قدیم و جدید کے مسائل اور ان کے بطور احسن بیان جیسا راحت کے اشعار میں ملتا ہے ایسا ان کے ہمسفر شعرا میں کم ہی ملتا ہے۔ ان کے کلام کی سادگی اور بے ساختگی نے انہیں اپنے معاصرین میں ممیزکر رکھا ہے۔ علیل ہوئے تو کہا:
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
اب ایسا نابغہ روزگار شاعر ہم میں نہیں اور اپنی موت پر لکھتے ہیں:
جنازے پر مرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ ایک عمدہ اور قبول عام شاعر وہ بھی ہوتا ہے جو اپنے الفاظ کو مناظراور اسلوب کا ایسا درد عطا کر دے کہ اس کے ترتیب دیے ہوئے مناظر اور ماحول کی دل کشی میں قاری کھوجائے۔ ایسا کمال راحتؔ اندوری کی غزل میں جا بجا ملتا ہے جہاں نہ صرف قاری بلکہ ناقدین بھی شعری رومانویت، حسن و عشق کی باتوں اور مسائل رفتہ کے بیان میں محض جذباتی سیلاب میں بہہ نہیں جاتے بلکہ شاعرانہ علامات اور تخیلاتی فن کا حصہ بن جاتے ہیں۔