الوداع ڈاکٹر راحتؔ اندوری…

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والا تھا

اُردو کے نامور بھارتی شاعر ڈاکٹر راحتؔ اندوری 70 برس کی عمر میں کورونا کے باعث وفات پاگئے۔ ہر دل عزیز شاعر راحتؔ اندوری، اندور کے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے. طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں 11 اگست کو ہی انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں رکھا گیا تھا، جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔
معروف شاعر راحتؔ اندوری یکم جنوری 1925ء کو بھارتی ریاست مدیھہ پردیش کے شہر اندور میں پیدا ہوئے۔ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے راحتؔ اندوری پیشے کے اعتبار سے اُردو ادب کے پروفیسر تھے جنہوں نے شاعری میں بھی خوب نام کمایا اور نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج بھی حصہ لیا۔
ڈاکٹر راحتؔ اندوری کی شاعری، غزلیں، ان کے لب ولہجے اور انداز کی وجہ سےنہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہوئی۔
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں
یہاں صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔

مدحتِ رسول ﷺ میں کہے گئے ڈاکٹر راحتؔ اندوری کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
زم زم و کوثر تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا

اس جیسے بے شمار اشعار نے بھی پرستاروں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ شہرہ آفاق شاعر کورونا کے مرض میں مبتلا تھے اور حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 11اگست 2020ء کو اس جہاں سے کوچ کرگئے۔
راحتؔ اندوری کی تدفین ان کے آبائی شہر اندور کے معروف قبرستان چھوٹی کھجرانی میں کی گئی اور وہیں ہی ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں ان کے بیٹوں اور خاندان کے دیگر قریبی افراد سمیت انتہائی اہم اور قریبی شخصیات نے شرکت کی اور نماز میں لوگوں کی تعداد کم سے کم رکھی گئی۔

یاد رہے کہ 3 جنوری 2016ء کو ”کتاب نامہ‘‘ کی ہفتہ وار اشاعت میں نامور ادیب، محقق، سفرنامہ نویس اور دانشور حسنین نازش کے قلم سے راحتؔ اندوری صاحب کی شاعری پر تفصیلی تبصرہ بھی شائع کیا گیا تھا.