یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا – حمیرا عالیہ

رواں سال جس کثرت سے اہل علم و ادب ہمارے درمیان سے رخصت ہوئے وہ نہ صرف بے حد تکلیف دہ ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے۔ ان مذہبی، علمی و ادبی شخصیات کی رحلت سے جو خلا آسمانِ ادب میں پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی ناممکن ہے۔ اسی فہرستِ دلگیر میں گذشتہ روز ایک ایسے شاعر کا نام شامل ہو گیا جس نے اپنی شاعری سے اُردو غزل کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے اور اپنی جدائی سے بے شمار دلوں کو افسردہ و ملول کر گیا۔
راحتؔ اندوری کی پیدائش یکم جنوری 1950ء کو اندور، مدھیہ پردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم نوتن سکول، اندور سے حاصل کی اور کریمیہ کالج سے گریجویشن مکمل کیا۔ بعد ازاں انہوں نے بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی سے اُردو ادب میں ایم اے کیا نیز مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے 1985ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
راحتؔ اندوری عصرِ حاضر کے مقبول ترین شاعروں میں شمار کیے جاتے رہے۔ وہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی حیات میں ہی شہرت اور مقبولیت کے آسمان چھو لیے تھے۔ اپنے منفرد انداز اورجرات مند لب و لہجے کے باعث وہ نوجوانوں میں بے حد پسند کیے جاتے تھے۔ ان کے لہجے کا جوش اور آواز کی گھن گرج سامعین میں ایک شعلہ سا بھڑکا دیتی تھی۔ وہ بے باکی سے اپنا موقف سامنے رکھتے تھے اور یہی وہ صفات تھیں جو ان کو دیگر شاعروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ ملک کے اقلیتی طبقے پر ہونے والے مظالم اور ناروا سلوک کے خلاف وہ دلیری سے صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔ اپنے اشعار میں وہ محض مسلم طبقے کی حب الوطنی ہی اجاگر نہیں کرتے تھے بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اس سرزمین پر اپنا حق جتاتے تھے۔ ہندوستان کی بات کرتے ہوئے ان کے لہجے میں خود بخود ایک استحقاق در آتا تھا۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
راحتؔ اندوری ان شیر صفت انسانوں میں سے ایک تھے جنہیں روباہی نہیں آتی۔ موجودہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف جب اہل علم و ادب نے مصلحت کا چولا پہن کر بزدلی نما خاموشی کو اپنا شعار بنا لیا، ایسے پر فتن دور میں راحتؔ اندوری نے صدائے حق بلند کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے مظلومیت کا رونا رونے کے بجائے اپنے اشعارسے جنگ کی اور فسطائی طاقتوں کو نشانۂ تنقید بنایا۔ اس ضمن میں وہ ملک کے وزیر اعظم پر بھی طنز کرنے سے نہیں چوکے اورکہہ گئے ؎
میں من کی بات بہت من لگا کے سنتا ہوں
یہ تو نہیں ہے تیرا اشتہار بولتا ہے
کچھ اور کام اسے جیسے آتا ہی نہیں
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اشعار پڑوسی ملک کے حالات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں اور وہاں بھی اسی طرح مقبول اور زبان زد عام ہیں۔
لیکن راحتؔ اندوری کو عوامی یا سٹیج کا شاعر کہہ کر ان کے اشعار کو سیاست اور مشاعرے کے دائرے میں قید کرنا ان کی شاعری کی توہین ہے اور اُردو دنیا میں یہ ناانصافی ہمیشہ سے روا رہی ہے کہ جہاں کوئی ادیب یا شاعر عوام میں مقبول ہوا، اس کے فن کو پاپولر کے زمرے میں ڈال کر ادب کے دائرے سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ادب کا اطلاق صرف چند اعلی دماغوں کی میز پر رکھی کتابوں پر ہوتا ہے یا اس فن پر جو انسانی زندگی کو آئینے کی طرح پیش کرتا ہے؟ راحتؔ اندوری کے اشعار میں عہد حاضر کے سلگتے مسائل، فرقہ پرستی کی بڑھتی ہوئی آگ، نااہل حکمرانوں کی ریشہ دوانیاں، زوال پذیر قدروں کا دکھ اور انسانی زندگی کی شکست و ر یخت کا احساس یہ تمام چیزیں مشترکہ طور پر موجود ہیں۔ گرچہ انہوں نے شاعری کا بیشتر حصہ مشاعروں میں پیش کیا لیکن اس عمل سے ان کے فن کو قطعی متاثر نہیں کیا نہ ہی ان کے اشعار کی ادبیت مجروح ہوئی۔ وہ ایک حقیقی فنکار تھے اور ان کا دائرہ نہایت وسیع تھا۔ ذیل کے متفرق اشعار کا تنوع ملاحظہ کیجیے:
زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اڑے
گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
اس طرح کے بے شمار اشعار ہیں جو راحتؔ کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں۔ کہیں طنزیہ لب و لہجہ، کہیں درد بھرا انداز، کہیں وجود کا احساس اور کہیں عزم و حوصلہ نظر آتا ہے۔ لیکن ان تمام رنگوں میں ایک رنگ ان کی شاعری میں یکسر ناپید ہے اور وہ ہے ناامیدی کا رنگ۔ وہ مایوس ہونا نہیں جانتے۔ گھٹ کر جینا ان کی فطرت میں نہیں۔ وہ ایک عزم مسلسل ہیں۔ غم کی تیرہ شبی میں وہ امید اور حوصلے کا چراغ روشن کرتے ہیں۔ وہ گھبرانے کے بجائے پلٹ وار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
راحتؔ اندوری بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے اور غزل کے وجود میں رومان کو خون کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شاعراپنی شاعری کو رومان کی خوشبو دیے بغیر مکمل نہیں کرسکتا۔ یوں تو رومان کا دائرہ نہایت وسیع ہے جس میں قدرت کے حسن سے وابستگی اور تخیل کی حسین پرواز سے لے کر عشق و محبت اور عجائبات و طلسمات سبھی شامل ہیں لیکن شاعری میں عموماً رومان سے مراد جذبات و احساسات کی فراوانی اور صنف مخالف کے تئیں مثبت جذبات کے اظہار سے لیا جاتا ہے۔ راحتؔ بھی خود کو غم جاناں سے محفوظ نہ رکھ سکے اور اپنے تجربے کی روشنی میں انہوں نے شاعری کے نئے امکانات روشن کیے۔ انہوں نے غزل کو اس کے روایتی انداز میں بھی اسی کامیابی سے برتا جس کامیابی سے وہ اپنے ”عوامی اشعار‘‘ برتتے تھے۔ انہوں نے عام فہم اور آسان لفظوں سے اپنی غزلیں سجائیں اور میٹھی سی کسک سے اپنے اشعار میں تاثیر پیدا کی۔
عشق ازل ہے، عشق ابد ہے
عشق کوئی تحریک نہیں ہے

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کرکے

اس کی یاد آئی ہے سانسوں ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کردیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی ہے

یہاں راحتؔ اندوری کی ایک بے حد خوبصورت غزل کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتی ہوں جو کہ احمد فراز کی ’’سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘‘ کی زمین پر لکھی گئی ہے۔ اس غزل کا ایک ایک شعر اپنے اندر بے پناہ معنویت رکھتا ہے۔ یہ غزل غم جاناں اور غم دوراں کا ایسا حسین امتزاج ہے جو ہمیں کلاسیکی شاعروں کے ہاں نظر آتا ہے۔ اس غزل پہ آکر راحتؔ کی شاعری فیضؔ، فرازؔ اور پروین شاکر کے مد مقابل آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہاں ہجر کا کرب، بے مائیگی کا احساس اور وطن کا غم آپس میں مل کر ایک ایسی تخلیق کو وجود میں لاتے ہیں جو اُردو ادب کے شعری روایت میں ایک قابل قدر اضافہ کہلائے جانے کی مستحق ہے۔
ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے
میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا ایک پتھر تھا
تم تو دریا تھے میری پیاس بجھاتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

راحتؔ اندوری کے شعری مجموعوں میں ”دھوپ دھوپ‘‘، ”دو قدم اور سہی‘‘، ”ناراض‘‘، ”موجود‘‘، ”چاند پاگل ہے‘‘، ”میرے بعد‘‘ ،”پانچواں درویش‘‘، ”کلام‘‘ اور ”رت بدل گئی‘‘ شامل ہیں۔ 2018ء میں کاروانِ اُردو قطر کی جانب سے ان کی شعری خدمات کے حوالے سے ’’جشن راحتؔ‘‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں انہیں ’’حاصل حیات ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
زندگی بھر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والا یہ جری شاعر آخر کار 11 اگست 2020ء کی شام موت سے ہم کنار ہو گیا۔ اسے موت سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا اور اس نے ہمیشہ کہا ؎
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روزمرنے والا تھا
جنازے پر میرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جارہا ہے

(مقالہ نگار لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں ریسرچ سکالر ہیں.)