استنبول سے چارٹرڈ فلائٹ پیرس کے لیے سستی تھی، اس لیے جہاز میں زیادہ تر بیک پیکرز سیاح تھے۔ فلائٹ جب آدھی رات کو (پیرس کے) چارلس ڈیگال (Charles de Gaulle) ایئرپورٹ اتری تو میری دوست کیتھرین سیباگ مجھے ایئرپورٹ لینے آئی تھی۔ کیتھرین اُن دنوں مختلف اوقات میں پاکستان میں ہمارے گھر ہی مہمان رہی تھی۔ وہ پاکستان میں بسنت کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری بنانے آئی تھی۔ اب اُسے مجھے اپنا مہمان بنانے کا اشتیاق تھا۔ جیسے میں نے اسے لاہور دکھایا، مادھو لعل حسین، میاں میر، پیر مکی، داتا صاحب سمیت مختلف مزارات، موچی گیٹ کے پتنگ فروش، بادشاہی مسجد کے گرد پتنگ بازی کے لیے دھاگوں کو مانجھا لگانے والے، شاہ عالمی کے اندرونی محلے پری محل کے پتنگ باز نوجوانوں کے گھروں سے لے کر جناب ملک معراج خالد مرحوم، منو بھائی اور دیگر دوستوں کی محفلوں کا لطف اٹھانے تک۔
ایئرپورٹ سے باہر آیا تو کیتھرین نے پوچھا کہ پیرس میں پہلی رات کیسے گزارنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا، Paris by Night۔ اور یوں نصف شب سے صبح صادق ہونے تک کیتھرین نے دریائے سین (River Seine) سے لے کر باستیل (Bastille) جیل کے آثار (انقلابِ فرانس کے دوران جہاں قیدیوں نے بغاوت کی) تک دکھلا دی۔ میری دوست کیتھرین کی سرخ رنگ کی بوسیدہ رینالٹ کار پر میں نے جو پیرس دیکھا، وہ مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔
صبح ہوتے ہی کیتھرین نے مجھ سے کہا کہ آج تمہارا پیرس میں پہلا دن ہے، اُن جگہوں کے ناموں کی ترجیحی فہرست بناؤ جہاں جہاں جانا ہے۔ میں نے بغیر توقف جواب دیا، ”کیفے دی فلورا‘‘ (Café de Flore)۔ اس نے کہا، اچھا تو تم سب سے پہلے اس کیفے جانا چاہتے ہو جہاں ژاں پال ساتغ (Jean Paul Sartre) (پاکستان کے ادیب اس کو ژاں پال سارتر لکھتے ہیں، جو غلط ہے.) کافی کے شاٹس لیتا تھا۔ اور یوں اس نے مجھے اس میز پر بٹھایا جو ژاں پال ساتغ کے نام سے منسوب ہے جہاں اس کی شامیں گزرتی تھیں۔
فرانسیسی صدر ڈیگال (Charles de Gaulle) نے ژاں پال سارتغ کو فرانس قرار دیا تھا۔ ساتغ کا شمار پچھلی صدی کے سرفہرست دانشوروں میں ہوتا ہے۔ وہ کمروں میں دبک کر اور کافی ہاؤسز کی میزوں پر اپنی لفاظی سے انقلاب برپا نہیں کرتا تھا۔ فلسفہ، ڈرامہ نگاری، ناول نگاری، سوانح نگاری اور ادبی تنقید کے علاوہ وہ سیاسی تحریکوں کا متحرک کارکن تھا۔ مارکسزم کے حوالے سے پچھلی صدی ژاں پال سارتغ سے عبارت ہے۔ فلسفے میں Humanism اور Existentialism اس کے علم کی پہچان ہے۔ اس نے 1964ء میں نوبل ایوارڈ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ’’ایک ادیب کسی مخصوص ادارے سے نتھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نے الجزائر کی آزادی کو فرانس کی طرف سے کلونیلائز کرنے کے حوالے سے کہا کہ ’’ہر فرانسیسی، الجزائر میں اجتماعی طور پر جنگی جرائم میں ملوث ہے۔‘‘
سوشلزم اور آزادی کے علمبردارساتغ نے لوگوں کی باقاعدہ سیاسی تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ وہ اس نظریے کا سخت مخالف تھا کہ ادب اور ادیب کا سیاسی نظریہ نہیں ہوتا۔ الجزائر کی آزادی کی تحریک کا باقاعدہ سپورٹر، اسی لیے اس پر تنگ نظر فرانسیسی قوم پرستوں نے دو مرتبہ بم حملہ کرکے اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ ویت نام میں امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ کا باقاعدہ مخالف اور اسی لیے وہ اس ٹریبیونل میں شامل ہوا جو دنیا بھر کے متحرک دانشوروں نے ویتنام میں جنگی جرائم کے حوالے سے تشکیل دیا، جس میں برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell) بھی شامل تھا۔ کیوبا کے انقلابی رہنما چی گویرا (Che Guevara) سے ملنے کے بعد اس نے کہا کہ ’’وہ (چی گویرا) اس زمانے کا عظیم دانشور ہی نہیں بلکہ شاندار انسان بھی ہے۔‘‘
کیفے ڈی فلورا (Café de Flore) میں اس کی میز تک رسائی میری زندگی کا ایک خواب تھا، اس میں کافی کے ذائقے سے زیادہ اس ماحول، زمانے اور ان لوگوں کی یاد کا احساس تھا جو اس کیفے میں آتے رہے جن میں سرفہرست ژاں پال سارتغ ہے۔ کیفے ڈی فلورا 1887ء سے آج تک اپنے ان حوالوں سے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
استنبول کے کئی حوالے ہیں، جدید ترکی سے لے کر عثمانی ترکی تک۔ قبل از اسلام بازنطینی، یونانی اور فنیقی ادوار کے حوالے۔ دیکھنے کے سینکڑوں مقامات ہیں اور اس بستی سے لامتناہی واقعات وابستہ ہیں۔ جب میں پہلی مرتبہ استنبول گیا تو مجھے کئی تاریخی اور موجودہ مقامات و عمارات کے علاوہ Pierre Loti Cafe (پیغ لوتی کیفے) بھی جانا تھا اور کئی مرتبہ گیا۔ کیا وہاں کی کافی اس قدر خوش ذائقہ ہے، نہیں وہاں کا حوالہ اس قدر بڑا ہے۔ ایک فرانسیسی ادیب کا حوالہ اور شہر کی چوٹی پر یہ کیفے اسی تاریخی حوالے سے جانا جاتا ہے۔ وگرنہ شہر بھر میں کئی کافی ہاؤسز ہیں۔ پیغ لوتی ایک فرانسیسی بحری افسر تھا۔ لوتی نے دورانِ ملازمت قلم آزمائی شروع کردی اور اس کی رومانوی تحریروں نے ادبی حلقوں میں ارتعاش پیدا کردیا۔ افریقہ، انڈیا اور یورپ کے سفر نے اس کے وژن کو چار چاند لگا دئیے مگر جب اسے استنبول کے ایک سفر میں پہلی مرتبہ شہر کو دیکھنے کا موقع ملا تو ورطۂ حیرت میں رہ گیا۔
یورپ میں صدیوں سے Constantinople (قسطنطنیہ) کا ایک سحر تھا۔ اس سحر کا اس نے حقیقت کے روپ میں خود تجربہ کیا تو اس کے قلم نے اسے فرانسیسی ادب میں ڈھال کر دنیا بھر میں پھیلا دیا۔ یورپ والے قسطنطنیہ کے حرم کی داستانیں سنتے تھے۔ پھر وہ خود ان داستانوں کا حصہ بن گیا۔ پہلی مرتبہ وہ 1976ء میں استنبول گیا۔ اس سلطنت کے باسیوں کو یورپ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس کے مشاہدات اور تجربات نے اسے ترکوں کا مداح اور قلم کے حوالے سے مدح خواں بنا دیا۔
ایک ترک خاتون سے عشق پر اس نے اپنا شہرت یافتہ ناول Aziyade (آزیادے) تحریر کیا۔ استنبول کے لگاتار سفر نے اسے اورینٹل علوم کا ماہر بنا دیا۔ اس کو ترکوں کا فکری وسیاسی دفاع کرنے کے حوالے سے ترک اشرافیہ اور عوام میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی اور اپنے اجداد کے ملک میں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اس کی ایک کتاب La Turquie Agonisante اس کی ترک دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کتاب میں اس نے مغرب کی ترک دشمنی کو بڑے زوردار انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے ترکوں سے عشق اور دفاع پر سلطان رشاد نے دربار میں اس کی باقاعدہ سرکاری اہتمام سے عزت افزائی کی۔
بلقان جنگوں میں وہ یورپ میں ترکوں کا بڑا حمایتی بن کر اورینٹ کی آواز کو مغرب تک پہنچاتا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک نے اتحاد کرکے بکھرتی سلطنت عثمانیہ کو ختم کرکے بچی کھچی ترک قوم کو جسمانی طور پر مٹانا چاہا تو پیغ لوتی، اناطولیہ کے کسانوں کی طرف سے جنگ آزادی کا بڑا حمایتی بن کر سامنے آیا۔ اُس کی ترکوں کی جنگ آزادی کی حمایت پر آزادی کی جنگ لڑنے والی قیادت نے اس کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ اس کو اعزازی شہریت دینے کا بھی اعلان کیا۔
پیغ لوتی، استنبول میں ایوپ (Eyüp) کے علاقے میں پہاڑی کی چوٹی پر موجود کیفے میں اپنا زیادہ وقت گزارتا جہاں سے وہ اس شہر کے سحر کو بلندی سے دیکھتا، باسفورس اور شاخِ زریں کے ملاپ کے ساتھ۔ اس پہاڑی کو پیغ لوتی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے اور اس پر موجود کیفے کو بھی۔ معروف ترک اشتراکی شاعر ناظم حکمت اس کی علمی اور ترک دوستی کا اس قدر مداح تھا کہ اس نے اپنی ایک نظم پیغ لوتی کے نام سے منسوب کی۔
پیغ لوتی کیفے پر جاکر تاریخ، گزرے لمحات اور واقعات کو محسوس کرنے کا جو لطف ہے، وہ اُس کافی سے کہیں زیادہ انمول ہے جو یہاں پیش کی جاتی ہے۔ پیغ لوتی کیفے میں اس کی کتابیں اور مختلف اشیا اس فرانسیسی ادیب کی یاد کو تروتازہ کیے ہوئے ہیں۔ آج بھی اس کیفے میں کوئلوں پر روایتی ترک قہوہ تیار کیا جاتا ہے جو کہ درحقیقت عرب کافی ہوتی ہے۔ پیغ لوتی کیفے، استنبول کی ادبی و سیاسی تاریخ کا گواہ ہے، وہاں بیٹھ کر ترک قہوے کی چسکیاں اور نیچے حدنگاہ تک نظارے آپ کو اسی دور میں لے جاتے ہیں جس کو اسی جگہ بیٹھ کر پیغ لوتی نے دریافت کیا۔