حکیم محمد سعیدؒ شہید کی برسی کے موقع پر خصوصی کہانی
اسمبلی کے فوراََ بعد تمام بچے اپنے کمرہ جماعت میں آ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں استاد محترم بھی تشریف لے آئے۔ تمام بچوں نے کھڑے ہو کر استاد صاحب کو سلام کیا۔
وعلیکم السلام پیارے بچو! بیٹھ جائیں سب۔ یہ کہہ کر استاد محترم بھی اپنی نشست پر تشریف لے گئے۔ تمام بچوں کی حاضری لگائی گئی۔ استاد محترم کو ایک بچے نے احمد کی چھٹیوں کی درخواست دی۔
استاد محترم نے اُس بچے کو مخاطب کر کے پوچھا: ’’بھئی کامران خیریت ہے؟ احمد کیوں چھٹیوں پر ہے؟‘‘
کامران نے جواب دیا:’’جناب احمد اپنے پھوپھوذاد بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی گیا ہے۔‘‘
استاد محترم نے حاضری کا رجسٹر ایک طرف رکھتے ہوئے کلاس سے پوچھا: ’’بچو کیا آپ کراچی کی کسی ایک اہم علمی و ادبی شخصیت کے بارے میں بتا سکتے ہیں کہ جو 1993ء سے 1994ء تک صوبہ سندھ کے گورنر بھی رہے؟‘‘
فہیم نے ہاتھ کھڑا کیا۔
جی فہیم بیٹا آپ بتائیں وہ کون سی قومی شخصیت ہیں؟ استاد صاحب نے فہیم سے پوچھا۔
فہیم: استاد محترم آپ حکیم محمد سعیدؒ شہید کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں نا؟
استاد محترم: شاباش بیٹا آپ نے بالکل صحیح پہچانا۔ یہ ہمارے اور آپ کے محسن، شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعیدؒ شہید ہی ہیں جنہوں نے پاکستان میں علم و ادب اور طب کی سربلندی کے لیے دن رات کام کیا اور 17 اکتوبر 1998ء کو کراچی میں جامِ شہادت نوش کیا۔
پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں کہ حکیم محمد سعیدؒ شہید بچوں سے بے حد شفقت کا اظہار کرتے تھے اور بچوں کے ادب سے بہت زیادہ شغف رکھتے تھے۔ اس کا واضح ثبوت بچوں اور نوجوانوں کے لیے لکھی گئی حکیم محمد سعیدؒ شہید کی وہ بے شمار کتب ہیں جو انہوں نے اپنی تمام زندگی میں تحریر کیں۔ یہ کتب آج بھی بچوں اور نوجوانوں میں بے پناہ مقبول ہیں اوران کی اشاعت کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔
حکیم محمد سعیدؒ شہید نے اپنے ملک کی جڑی بوٹیوں سے دوا سازی کو باقاعدہ ایک فن اور صنعت بنا دیا اور نہ صرف اس صنعت کو باقاعدہ ایک مقام عطا کیا بلکہ اس کی آمدنی کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے قومی کاموں پر خرچ کیا۔ ساتھ ہی حکیم صاحبؒ نے اپنی پوری توانائی علم کو پھیلانے میں صرف کی اور طب کے شعبہ کو ترقی دیتے ہوئے بے شمار کتب اور رسالے شائع کیے۔ ساتھ ساتھ آپؒ نے کئی مفید ادارے قائم کیے جن میں سکولوں سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے ادارے شامل ہیں۔
کامران: استادِ محترم ہمیں حکیم محمد سعیدؒ شہید کے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔
استادِ محترم: بچوں کے دوست اور ہمدرد حکیم محمد سعیدؒ شہید 9 جنوری 1920ء کی صبح دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد حکیم حافظ محمد عبد المجید کو ’’حافظِ دہلی‘‘کہا جاتا تھا کیوں کہ وہ جب شبینے میں قرآن پاک پڑھنے کھڑے ہوتے تو دو رکعتوں میں دس پارے پڑھ دیتے تھے اور ایک لفظ بھی نہیں بھولتے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے حکیم سعیدؒ صاحب کے والد نباتات کے ماہر تھے اور دہلی شہر میں صحیح اور خالص نباتات کا مرکز ’’ہمدرد‘‘ کے نام سے چلا رہے تھے۔ آپ حکیم محمد سعیدؒ سے بہت محبت کرتے اور کہا کرتے تھے کہ ’’میرا سعید بڑا حکیم بنے گا اور اس کا دنیا میں نام ہو گا۔‘‘ ابھی حکیم سعیدؒ کی عمر دو سال تھی کہ 1922ء میں آپؒ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد حکیم صاحبؒ کی والدہ نے بہت محنت اور جرأت مندانہ زندگی گزاری۔ آپؒ کی والدہ آپؒ سے اکثر کہا کرتی تھیں: ’’سعید! خوب محنت کرو،خوب پڑھو، تمہارے ابا جان تمہیں بڑا انسان بنانا چاہتے تھے، تم اسے نہ بھولنا۔‘‘ حکیم سعیدؒ کو اپنی والدہ کی ان باتوں کا بہت اثر ہوا اور آپؒ نے دل لگا کر خوب محنت کی۔
بلال: استاد محترم یہ بتائیے کہ حکیم محمد سعیدؒ نے کس سکول میں تعلیم حاصل کی؟
استاد صاحب: پیارے بچو! آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں کہ حکیم سعیدؒ جیسے نامور عالم، دانشور، ماہرِ تعلیم اورطبیب نے کبھی روایتی سکول کا رخ نہ کیا۔ حکیم صاحب نے ایک مذہبی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ آپؒ کی والدہ کا یہ فیصلہ تھا کہ سب سے پہلے تعلیم قرآنِ حکیم کی ہو گی۔ اول ناظرہ اور پھر حفظ، اس کے بعد دوسری تعلیم۔ تین سال کی عمر میں ہی حکیم سعیدؒ کو آپ کی چچی جان کے گھر قرآن پاک کی تعلیم کے لیے بھیج دیا گیا۔ یوں آپؒ نے ابھی عمر کے پانچ سال بھی پورے نہیں کیے تھے کہ قرآنِ حکیم ناظرہ ختم کر لیا۔ پھیر والدہ کے حکم کے مطابق حفظِ قرآن کا آغاز ہوا اور 9 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی حکیم صاحبؒ نے پورا قرآن حفظ کر لیا۔ حفظِ قرآن کے دوران ہی آپؒ نے 1927ء میں اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کی۔
حفظِ قرآن کے دوران آپؒ کے چچا نے آپؒ کو اُردو کی کتابیں لا کر دینی شروع کر دیں۔ حفظِ قرآن کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ حکیم صاحب کو اب تعلیم کسی سکول میں نہیں بلکہ گھر میں ہی دی جائے گی۔ چنانچہ گھر میں ہی آپ کے لیے انگریزی، حساب اور دینی کتب کی تعلیم کے لیے استاد کا بندوبست کیا گیا۔ یوں حکیم صاحبؒ نے تین سال میں میٹرک سے زیادہ معیار کی تعلیم حاصل کر لی۔ بعد کے مزید دو سالوں حکیم سعیدؒ کو عربی اور فارسی کی تعلیم دی گئی۔ آپؒ کی عمر پندرہ سال کی تھی کی آپؒ نے اُردو پر تو خوب، انگریزی پر اچھی طرح اور بڑی حد تک فارسی اور عربی پر بھی قدرت حاصل کر لی۔ پھر طبیہ کالج میں آپؒ کا داخلہ ہو گیا۔
پیارے بچو آپ کو حکیم سعیدؒ کے بارے میں ایک دلچسپ بات بتائوں کہ آپؒ کو اُردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا اور آپ نے صرف 12 سے 15 سال کی عمر تک ہندوستان کے بڑے بڑے ادیبوں کی بکثرت کتابیں پڑھیں۔
ندیم: استادِ محترم ہمیں یہ بتائیے کہ کیا حکیم سعیدؒ کوئی کھیل بھی کھیلتے تھے؟
استادِ محترم: بہت اچھا سوال کیا ندیم بیٹا آپ نے۔ جی بالکل حکیم سعیدؒ کو فٹ بال کا کھیل بہت پسند تھا۔ اس کے علاوہ آپؒ بیڈمنٹن بھی کھیلتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ کے پسندیدہ کھیلوں میں اکھاڑوں میں ورزش، شطرنج، پتنگ بازی، پہاڑوں پر چڑھنا (ہائیکنگ)، گھڑ سواری اور ٹیبل ٹینس بھی شامل تھی۔
پیارے بچو! حکیم صاحبؒ ہمارے زمانے کی ان چند شخصیتوں میں سے تھے جنہوں نے صرف اپنے علم و عمل کی بنا پر عزت و احترام کا مقام حاصل کیا اور پاکستان آکر اس قوم سے محبت کا بے پناہ اظہار کیا۔
اسماعیل: استادِ محترم ہمیں حکیم صاحب کی دہلی سے کراچی ہجرت کے بارے میں بھی کچھ بتائیے۔
استادِ محترم: پیارے بچو! میں بھی اسی طرف آنے والا تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو حکیم صاحبؒ نے مسلمانوں کے اس سب سے بڑے ملک میں آکرطبِ مشرق کی ترقی اور علم کے فروغ کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپؒ 28 سال کی عمر میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کراچی پہنچے۔ یہ 9 جنوری 1948ء کا دن تھا۔ اس نئے ملک میں ہر چیز کی کمی تھی لیکن حکیم صاحبؒ کی ہمت اور حوصلہ کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکی۔ آپؒ نے سخت مالی پریشانیوں کے باوجودبہت ہمت کے ساتھ ’’ہمدرد‘‘ کو ایک عظیم ادارہ بنا دیا۔ شہیدِ پاکستانؒ اپنا سب کچھ ہندوستان چھوڑ کر سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان آئے تھے اس لیے آپؒ نے اول تا آخر پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود اور بھلائی کے لیے جدوجہد کی۔ آپؒ نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک شہرِ علم و حکمت ’’مدینہ الحکمۃ‘‘ تعمیر کرنے پر صرف کر دیا۔ پیارے بچو! جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تعلیم کے علاوہ صحت کے میدان میں بھی حکیم سعیدؒ کی گراں قدر خدمات ہیں۔ انہوں نے ہمدرد مطب کا جال پورے ملک میں پھیلایا۔ اللہ کے فضل اور حکیم صاحبؒ کے دستِ شفا سے لاکھوں لوگوں نے صحت پائی۔ ایک معالج بے مثل ہونے کے باوجود حکیم صاحبؒ نے کبھی بھی فیس کے نام پر ایک پیسہ کسی مریض سے وصول نہیں کیا۔ آپؒ نے قوم کی ذہنی اور فکری آبیاری کے لیے شامِ ہمدرد کی محفلیں سجائیں اور ’’شوریٰ ہمدرد‘‘ کے ذریعے ملک کو ایک بہترین ’’بزمِ دانش‘‘ عطا کی۔ ایک صحافی کی حیثیت سے حکیم سعیدؒ نے صحافت کے میدان میں قلم کے کمال جوہر دکھائے۔ آپؒ اُردو، انگریزی کے کئی جریدوں کے مدیر تھے اور آپ نے سیکڑوں مضامین، کتابیں اور سفرنامے تحریر کیے۔
طب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں 1966ء میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1979ء میں آپؒ صدرِ پاکستان کے مشیرِ طب و صحت رہے۔ 1993ء میں آپؒ نے گورنر سندھ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ وطن سے محبت کے حوالے سے حکیم صاحبؒ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) نے مجھے محبت دی اور صوبہ پنجاب نے مجھے عزت دی۔ صوبہ سندھ نے خلوص و انس کے ساتھ اپنی آغوش میں مجھے لیا اور صوبہ بلوچستان نے میرا دل تھاما ہے۔ محبت سے سرشار میں پاکستانی ہوں۔ جہاں جاتا ہوں اپنے لیے راہ پاتا ہوں۔ایک پاکستانی کی حیثیت سے دنیا میں پہچانا جاتا ہوں۔‘‘
ریاض: استادِ محترم ہمیں حکیم صاحبؒ کی شہادت کے بارے میں بھی کچھ بتائیں نا۔
استادِ محترم: پیارے بچو! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حکیم صاحبؒ ایک انقلابی انسان تھے۔ وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے پاکستان اور اسلام کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف سر گرمِ عمل رہتے تھے۔ ملک کے مختلف اخبارات میں آپؒ کے مضامین تواتر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ یہ 17 اکتوبر 1998ء کی صبح تھی۔ حکیم سعیدؒ روزے کی نیت کر کے نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد اپنی گاڑی میں مطب کی جانب روانہ ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی مطب میں مریضوں کا بے پناہ ہجوم تھا جو اپنے مسیحا کی آمد کے منتظر تھے۔ حکیم صاحبؒ کی گاڑی مطب کے پاس رکی۔ آپؒ گاڑی سے اترے اور اپنی ٹوپی ہمدرد کے کارکن کے حوالے کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے ابھی ایک قدم ہی اٹھایا تھا کہ تین جانب سے ان پر فائرنگ ہوئی، آپؒ اپنے معاونین کے ہمراہ زمین پر گر پڑے۔ آپؒ کی صاف شفاف، سفید شیروانی خون میں نہا گئی۔ اسی وقت حکیم محمد سعیدؒ کی روح جہانِ فانی سے پروازکر گئی۔ حکیم صاحبؒ کے چاہنے والوں کے لیے یہ منظر انتہائی دکھ اور صدمہ کا باعث بنا اور آپؒ کی شہادت نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ آج یہ کوئی معمولی موت نہ تھی بلکہ ایک عہد کی موت تھی۔ حکیم محمد سعیدؒ کی موت، جنہوں نے تشکیلِ پاکستان میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا. آج ہر آنکھ اشک بار تھی۔
تمہیں خبر ہی نہیں کیا گنوا دیا لوگو
کہ اپنے گھر کا د یا خود بجھا دیا لوگو
تمہارے بچوں میں جو بانٹتا تھا علم کا نور
اسی منارۂ دانش کو ڈھا دیا لوگو
کلمۂ شہادت کی بلند آواز میں جب حکیم محمد سعیدؒ کا جنازہ اٹھایا گیا تو ہر طرف غمزدہ چیخوں، آہوں اور سسکیوں کا ایسا شور بلند ہوا کہ سب کا دل ڈوبنے لگا۔ جی چاہتا تھا کہ وقت کو یہاں ہی روک لیا جائے اور حکیم صاحبؒ کوخود سے جدا نہ ہونے دیا جائے۔ نمازِجنازہ میں شریک ہر شخص غم کی تصویر بنا نظر آتا تھا۔ اسی شام کو انہیں ان کی متعین کردہ جگہ ’’مدینہ الحکمۃ‘‘ میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
یہ کہہ کر ماسٹر صاحب کی آواز خاموش ہو گئی۔ انہوں نے رومال سے اپنی نم آنکھیں پونچھیں اور نظر اٹھا کر جماعت کی طرف دیکھا۔ کمرہ ٔجماعت میں موجود تمام بچوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
حکیم محمد سعیدؒ شہید کے فرمودات یہاں پڑھے جا سکتے ہیں.