زندگی بھیس بدل کر جہاں فن بنتی ہے
میرؔ و غالبؔ کا وہ اندازِ بیاں ہے اُردو
کبھی کرتی ہے ستاروں سے بھی آگے منزل
چشم اقبال سے گویا نگراں ہے اُردو
ساتھ انشا کے کبھی ہنستی ہے دل کھول کے وہ
بہر فانی کبھی مصروفِ فغاں ہے اُردو
حاصلِ بزم ہے اور بزم کو تڑپاتی ہے
جانِ مے خانہ ہے میخانۂ جاں ہے اُردو
گاہِ پروانے کی میت پہ کھڑی ملتی ہے
صورتِ شمع جہاں گریہ کناں ہے اُردو
گاہِ خوشیوں کے چمن زار میں جا بستی ہے
موسمِ گل کی جہاں روحِ رواں ہے اُردو
محوِ گلگشت جہاں حورِ بہشتی مل جائے
قابلِ رشک وہ گلزار جناں ہے اُردو
ہر غزل کوچۂ جاناں سے زیادہ پیاری
ہر نظر شعر ہے، تصویر بتاں اُردو
ہر نئی نظم نئے موڑ پہ لے جاتی ہے
روحِ امروز ہے، فردا کا نشاں ہے اُردو
دھل گئی کوثر و تسنیم کے پانی سے مگر
جنتِ ارض کی مظلوم زباں ہے اُردو
باغباں مجھ کو اجازت ہو تو اک بات کہوں
نغمہ بلبل کا ہے، پھولوں کی زباں ہے اُردو
ملتے ہیں اس سے ہزاروں ہمیں تہذیب کے درس
اس قدر ذہن پہ کیوں تیرے گراں ہے اُردو
اب بھی چھا جاتی ہے ہر روح پہ مستی بن کر
اس خرابی میں بھی افسونِ جواں ہے اُردو
پروفیسر انجمؔ اعظمی اُردو کے ممتاز شاعر اور نقاد تھے۔ آپ 2 جنوری، 1931ء کو فتح پور، اعظم گڑھ ضلع، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام مشتاق احمد عثمانی تھا۔ انہوں نے گورکھپور، الٰہ آباد اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد 1952ء میں کراچی میں سکونت اختیار کی. پروفیسر انجمؔ اعظمی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ”لب و رخسار‘‘، ”لہو کے چراغ‘‘، ”چہرہ‘‘ اور ”زیرِ آسماں‘‘ کے نام شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”ادب اور حقیقت‘‘ اور ”شاعری کی زبان‘‘ کے نام سے اشاعت پزیر ہو چکے ہیں۔ انجمؔ اعظمی کو ان کے مجموعہ کلام ”چہرہ‘‘ پر 1975ء میں آدم جی ادبی انعام بھی عطا ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب نے 31 جنوری، 1990ء کو کراچی میں وفات پائی.