ڈاکٹر سنبل نگار کی تصنیف ”اُردو نثر کا تنقیدی مطالعہ‘‘ – اقصٰی عباس

ڈاکٹر سنبل نگار نے اپنی اس کتاب ”اُردو نثر کا تنقیدی مطالعہ‘‘ میں اُردو نثر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ کتاب میں انہوں نے اُردو نثر کے آغاز وارتقاء پر نہ صرف بحث کی ہے بلکہ ہر صنف کا تاریخی اور ہیتی نقطہ نظر سے جائزہ بھی لیا ہے اور اس کے فن کو موضوع خاص رکھا ہے. اس سے عام قاری ہر صنف کے فن سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کے متعلق پروفیسر مسعود حسین لکھتے ہیں کہ:
”ان کا اسلوب تحریر ایک مخصوص قسم کی دلکشی کے ساتھ سادہ و رواں ہے۔ وہ ایک ایسی سہل نگار ہیں جن سے نہ صرف بساطِ ادب کے نووارد بلکہ وہ استاد بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو انگریزی کی بے محل اصطلا حوں کے بغیر اُردو میں لقمہ نہیں توڑ سکتے.‘‘
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سنبل نگار نے اپنی اس کتاب میں دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ ان کا اسلوب اتنا سادہ ہے کہ عام قاری بآسانی اُردو نثر کی تاریخ کو سمجھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر سنبل نگار نے پہلے حصے میں ”ادارے اور تحریکیں‘‘ کو موضوع بنایا ہے جس میں سنبل نگار نے فورٹ ولیم ادارے سے لے کر جدیدیت کی تحریک تک بات کی ہے۔ کلکتے میں فورٹ ولیم کالج اس غرض سے قائم کیا گیا تھا کہ انگریز افسروں کو دیسی زبانوں سے روشناس کرایا جائے کیوں کہ اس وقت سرکاری زبان کا درجہ تو ”فارسی‘‘ کو حاصل تھا لیکن عام بول چال کے لیے اُردو زبان استعمال کی جاتی تھی۔ انگریز افسر تو تجارت کی غرض سے آئے تھے، وہ چاہتے تھے کہ انہیں کام چلانے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو۔
1757ء میں فورٹ ولیم کی تعمیر ہوئی جو کہ 1773ء میں مکمل ہوئی اور 10 جولائی 1800ء میں لارڈ ولزلی نے کالج کا افتتاح کیا۔ فورٹ ولیم کالج کا مقصد ہی یہی تھا کہ انگریز افسروں کو ہندوستان کی تہذیب اور زبان سے واقف کرایا جائے اور اس وقت اُردو ہندوستانی زبان تھی اس کے لیے ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے، جو کہ ہندوستانی شعبے کے سربراہ تھے اور اس کے علاوہ مصنف بھی، انہوں نے ہندوستانی لغت اور ہندوستانی گریمر لکھی۔ اس کے علاوہ ”میر امن‘‘ جو کہ فورٹ ولیم کالج کے سب سے مشہور صاحب قلم تھے، انہوں نے ”باغ و بہار‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ”میر حیدر بخش‘‘ نے امیر خسرو کی مثنویوں کو نثر میں پیش کیا۔ ”میر شیر علی افسوس‘‘ نے شیخ سعدی کی گلستاں کا ترجمہ ”باغِ اردو‘‘ کے نام سے کیا۔ اس طرح بہت سے مصنفین نے فورٹ ولیم کالج کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا لیکن جب لارڈ ولزلی انگلستان گئے تو کالج کا زوال شروع ہو گیا اور کورٹ آف ڈائرکٹرس نے 21 جولائی 1806ء میں کالج پر حملہ کیا۔ اس سلسلے کے بعد سب سے اہم قدم علی گڑھ تحریک تھی جس کے بانی سر سید احمد خان ہیں۔ ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہیں کہ:
اس تحریک نے ایک شکست خوردہ قوم کو تباہی کے گڑھے سے نکالا اور اس کا کھویا ہوا وقار بڑی حد تک بحال کیا ۔ یہ تحریک اپنے وقت کا تقاضا اور اس زمانے کی اہم ضرورت کا جواب تھی۔
علی گڑھ تحریک کے پانچ پہلو تھے: تعلیم، سیاست، مذہب، ادب اور معاشرت۔ سر سید جدید مغربی تعلیم کو ہی مفید اور کارآمد سمجھتے تھے اس لیے علی گڑھ کالج قائم کیا اور اس کے ساتھ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس جیسے ادارے کا بھی قیام عمل میں‌لایا گیا. ساتھ ہی سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ سوسائٹی انگریزی اور دیگر زبانوں کی علمی کتابوں کے ترجمہ کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اُردو ادب میں بے شمار خامیاں تھیں جنہیں سر سید احمد خان نے دور کیا۔ ”تہذیب الاخلاق‘‘ رسالہ جاری کیا اور اس کے بعد ”ٹیٹلر‘‘ اور ”سپیکٹیر‘‘ دو رسالے جاری کیے۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشے کو منور کیا اور اُردو شعر وادب میں جان ڈال دی ۔ جس طرح اُردو ادب میں علی گڑھ تحریک نے گراں قدر احسان کیے اسی طرح علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک نے اہل علم کو خوابِ غفلت سے جگایا۔
اس تحریک کو سنبل نگار نے تاریخ عالم کے پس منطر میں دیکھا اور سمجھا نے کی کوشش کی ہے جس میں انہوں نے کارل مارکس اور لینن کے نظریات بھی بیان کیے ہیں۔ کارل مارکس ہی پہلے جرمن مفکر تھے جنہوں نے سرمایہ و محنت مسائل پر غور کیا۔ انہوں نے سرمایہ دار کو ظالم اور مزدور کو مظلوم قرار دیا اور لینن نے محنت کشوں کی رہنمائی کی اور ان کا حق ادا کیا۔ لینن، کارل مارکس سے بہت متاثر تھے اور اس کے افکار کو روس میں لانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے 1917ء میں حکومت کی باگ دوڑ خود سنبھال لی اور روس میں انقلاب برپا کر دیا. اس زمانے میں کچھ ہندوستانی لندن میں زیر تعلیم تھے، جیسے سجاد ظہیر، جیوتی گھش، ملک راج آنند وغیرہ، انہوں نے ادب کے حوالے سے اپنا فرض پورا کیا۔ اس کے لیے انہوں نے لندن میں ایک انجمن قائم کی جس کا نام انجمن ترقی پسند رکھا اور یہ ٰاعلان ہندوستان بھی بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں لکھنو میں کل ہند کانفرنس ہوئی اور پریم چند نے خطبہ صدارت پیش کیا۔ سجاد ظہیر انجمن کے سیکٹری مقرر ہوئے۔ کرشن چندر، منٹو، عصمت، حیات اللہ انصاری، بلونت سنگھ، اوپندر ناتھ نے تحریک کے زیر اثر افسانے لکھے۔ فیض، اختر الایمان، سردار جعفری، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی، وغیرہ نے شاعری کی اور میرا جی اور ن۔م راشد نے اس تحریک میں حصہ لیا لیکن بعد میں الگ ہو گئے۔ سجاد ظہیر، اختر حسین رائے پوری، ممتاز حسین، احتشام حسین، آل احمد سرور، جیسے نقادوں نے تنقیدی مضامین لکھے۔
ترقی پسند تحریک کی بدولت اُردو خواب و خیال سے نکل کر حقیقت میں جینا سکھایا لیکن کچھ عرصہ تک ترقی پسند تحریک کا دائرہ محدود ہو گیا اور ترقی پسند تحریک محض نعروں تک گئی اور پھر ترقی پسند تحریک کو اپنے کاندھوں سے اتارا اور جدیدیت کی تحریک کو جنم دیا۔ ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہیں کہ:
”جب ترقی پسندی نے محدود دائرے سے نکل کر اس نے کھلی فضا میں سانس لینا چاہا تو یہ جدیدیت کہلائی‘‘
سنبل نگار نے کتاب کے دوسرے حصے میں داستان کے فن پر بات کی ہے ۔ قصہ کہنا اور سننا انسان کا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن آج کے اس دور میں اس کی مہلت نہیں۔ ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہیں کہ:
شاعری سے داستان کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ دونوں درد انسانی کا مدوا ہیں، مقصد حظ اندوزی، تفنن اور وقت گزاری ہے۔ دونوں کی بنیاد جھوٹ پر
ہے۔ تخیل کی کارفرمائی ہے۔ تخیل اور جھوٹ کے اسی امتزاج نے فوق فطری عناصر کو جنم لیا۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بے شمار داستانیں لکھی گئی۔ سترھویں صدی کی اُردو نثر کا شاہ کار ملا وجہی کی ”سب رس۔ ہے۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی کی داستان ”نو طرز مرصع۔ ہے۔ مزید بہت سی داستانیں امیر حمزہ، الف لیلہ، آرائش محفل ، باغ و بہار ،بوستان خیال، وغیرہ لکھی گئیں۔
کتاب کے تیسرے حصے میں ناول کے فن کو بیان کیا گیا ہے۔ ناول نے انسانی زندگی کو خوابوں اور خیالوں کی بھول بھلیوں سے باہر نکالا۔ ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہیں کہ:
اُردو ناول داستان کی ایک ارتقائیی شکل ہے اور اسی کی کوکھ سے اس نے جنم لیا مگر ہمارے ادب پر مغرب کا بھی احسان ہے کہ ہمارے بزرگ ادیبوں کی نگاہیں ادھر اٹھیں اور انہوں نے مغربی ادب سے کسبِ فیض حاصل کیا۔
اُردو ادب کے پہلے ناول نگار مولوی نذیر احمد نے 1869ء میں پہلا ناول ”مراۃالعروس‘‘ لکھا۔ چوں کہ لوگوں کو حقیقی زندگی سے متعارف کروانا تھا اور ان کی اصلاح کرنی تھی، اس لیے مولوی نذیر احمد نے زیادہ تر اصلاحی ناول لکھے۔ نذیر احمد کے بعد رتن ناتھ سرشار نے اس صنف کو آگے بڑھایا اور ”فسانہ آزاد‘‘ ناول لکھا۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے ملک العزیز ورجینا، ”فردوس بریں‘‘ جیسے شاہ کار ناول لکھے۔ مرزا رسوا، پریم چند، عصمت چغتائی، سجاد ظہیر، قرۃالعین حیدر، کرشن چندر اور عزیز احمد جیسے قابل ذکر ناول نگار ابھر کر سامنے آئے۔ ہر ناول نگار نے اپنے اپنے طریقے سے ناول لکھا اور زندگی کے ہر پہلو کو موضوع بنایا۔ جیسے عزیز احمد نے کرداروں کی ذہنی کشمکش بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کیا اور ”ایسی بلندی ایسی پستی‘‘، ”گریز‘‘، ”ہوس‘‘ جیسے کامیاب ناول لکھے۔ عصمت چغتائی نے تحلیل نفسی کا طری اپنایا اور ”ٹیڑھی لکیر‘‘ جیسا ناول لکھا۔ قراۃالعین نے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا. انہوں نے اُردو ناول کو ایک نئی تکنیک ”شعور کی رو‘‘ سے روشناس کرایا۔ اس کتاب کے چوتھے حصے میں سنبل نگار نے افسانے کے فن پر بات کی ہے۔ اس کے متعلق وہ لکھتی ہیں کہ:
دنیا کی ہر شے کی طرح ادب بھی حالات اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ فکشن نے بھی کئی روپ بدلے، داستان اس کے بعد ناول اور اس کے بعد افسانہ ، فکشن کے سفر کے تین پڑاؤ ہیں۔
مختصر افسانہ مغرب کی پیداوار ہے۔ وہاں پنپنے کے بعد ہی یہ ہمارے ملک میں درآمد کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے ”سکیچ بک‘‘ لکھ کر اس صنف کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد مینتھل یاتھارن کے ہاتھوں اس نے فروغ پایا۔ بیسویں صدی سے پہلے ہمارے ادب میں مختصر افسانے کا وجود نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے شروع میں ”قصص مشرق‘‘ کے نام سے ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے ایک کتاب تیار کی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے قصوں کو عوام میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی۔ اُردو ادب کے پہلے افسانہ نگار منشی پریم چند ہیں جنہوں نے حقیت نگاری کی روایت قائم کی اور سیدھی سادہ زبان کو وسیلہ اظہار بنایا۔ اس زمانے میں افسانہ لکھنے اور پڑھنے کا شوق عام ہوا جس میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، حسن عسکری، غلام عباس جیسے افسانہ نگاروں نے معرکہ آرا افسانے لکھے۔
پھر اس کے بعد قرۃالعین حیدر، خدیجہ مستور، انتظر حسین، ہاجرہ مسرور جیسے افسانہ نگار ابھر کر سامنے آئے۔ پریم چند نے دیہات کی زندگی اور دیہات کے مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ کرشن چندر نے ترقی پسندی اور اشتراکیت کو فروغ دیا۔ بیدی نے چھوٹے چھوٹے موضوعات پر نفسیاتی افسانے لکھے۔ منٹو اور عصمت نے بے رحم حقیقت نگاری سے کام لیا اور جنسی موضوعات پر قیامت بپا کرنے والے افسانے لکھے۔ ممتاز مفتی فرائڈ سے متاثر رہے۔ احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس نے زندگی اور سماجی موضوعات کو اپنے افسانے میں جگہ دی۔
اس کتاب کے پانچویں حصے میں ڈاکٹر سنبل نگار نے سوانح نگاری کے فن پر بات کی ہے۔ ان کے مطابق ”سوانح نگاری کا فن بڑا نازک اور بہت دشوار فن ہے۔ کسی شخصیت کے سوانح مرتب کرنا اور پوری طرح اس سے عہدہ برآ ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی تلوار کی دھار پر چل کر بہ سلامت پار اتر جائے‘‘
سوانح نگاری کا آغاز دکن میں ہوا۔ سوانح نگاری میں اولیت کا تاج مولانا حالی کے سر پر ہے۔ انہوں نے تین سوانحی کتابیں لکھی۔ پہلی سوانحی کتاب ”حیاتِ سعدی‘‘ جو 1881ء میں مکمل ہوئی۔ دوسری سوانحی کتاب ”یادگارِغالب‘‘، جو 1896ء میں مکمل ہوئی اور تیسری سوانحی کتاب ”حیاتِ جاوید‘‘ جو 1896ء سے شروع ہو کر 1901ء میں مکمل ہوئی۔ لیکن علامہ شبلی ان سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ شبلی کی سوانح عمری کو ان سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی کیوں کہ انہوں نے بے حد برگزیدہ ہستیوں کا انتخاب کیا۔ سرور کائناتﷺ ، حضرت عمر فاروقؓ، امام ابو حنیفہؒ، امام غزالیؒ اور مولانا رومؒ وغیرہ۔ پہلی سوانح عمری ”المامون‘‘ 1889ء میں مکمل ہوئی۔ دوسری سوانح عمری ”سیرۃالنعمان‘‘ 1891ء میں مکمل ہوئی جو کہ امام ابو حنیفہؒ کی سوانح عمری ہے ۔ اس کے بعد الغزالیؒ اور روم ؒ کی سوانح عمری 1902ء میں مکمل ہوئی اور 1910ء میں سیرۃالنبیﷺ کی سوانح عمری تحریر کی۔
مزید سنبل نگار نے کتاب کے چھٹے حصے میں مکتوب نگاری پر بات کی ہے۔ مکتوب ایک نثری صف ہے. خط کی طرزِ تحریر کا دارومدار اس پر ہے کہ مکتوب ایک خاص صفت ہے۔ مکتوب نگار مکتوب الیہ سے سرگوشیاں کرتا ہے۔ علامہ شبلی، سر سید، مولوی نذیر احمد اور سب سے بڑھ کر غالب کے خطوط اس کی مثال ہے۔ اُردو نثر کی بنیادوں کو استوار کرنے میں خطوط غالب کا کردار بہت نمایاں ہے. اگر غالب کے خطوط نہ ہوتے تو سر سید کے مضامین بھی نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں مثلا ”نقشِ آزاد‘‘، ”تبرکاتِ آزاد‘‘، ”کاروانِ خیال‘‘ اور ”غبارِ خاطر‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
کتاب ”اُردو نثر کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کے ساتویں حصے میں سنبل نگار نے اُردو میں طنزومزاح پر بات کی ہے۔ ہنسنا، ہنسانا انسان کی فطرت ہے لیکن ادب کے ذریعے ہنسانے کا فن ظرافت کہلایا ۔ 1877ء میں منشی سجاد حسین نے لکھنو سے ”اودھ پنج‘‘ اخبار جاری کیا تو طنزومزاح کے ایک شاندار عہد کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ ”اودھ پنج‘‘ نے اُردو میں طنزومزاح کا ذوق عام کیا اور متعدد اہم ظرافت نگار پیدا کیے۔ فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، رشید احمد صدیقی، کرشن چندر، اور شفیق الرحمٰن نے طنزومزاح میں بہت شہرت پائی۔
ڈاکٹر سنبل نگار کی کتاب کا سب سے اہم حصہ تنقید نگاری کا ہے. اکثر تنقید پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل درپیش ہوتی ہے لیکن سنبل نگار نے آسان اور سادہ الفاظ میں تنقید کی اہمیت اور مفہوم کو واضح کیا ہے کہ قاری اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
”اچھے اور برے میں فرق کرنے کا نام تنقید ہے. ہر اسان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے خواہ کم ہو یا زیادہ۔ یہ تنقیدی صلاحیت ہی تو تھی جس نے انسان کو ترقی کا راستہ دکھایا اور وہ لمبا سفر طے کر کے اس منزل تک پہنچ گیا جس پر وہ آج نظر آتا ہے.‘‘
”جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں تنقید کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ادب کی تنقید ضروری ہے۔ ادیب جب ادب تخلیق کرتا ہے تو لامحالا اس کی مدد لیتا ہے ۔ مثلاََ آپ افسانہ نگار ہیں تو قلم اٹھانے سے پہلے سوچیں گے کہ کِس موضوع پر لکھیں، کِس پر نہ لکھیں۔ جو افسانہ لکھ رہے اس کا پلاٹ کس طرح بنائیں۔ کس قسم کے کردار یہاں موزوں رہیں گے۔ زبان کیسی ہونی چاہئے۔ یہ سارے فیصلے تنقیدی شعور کے بغیر نہیں کیے جا سکتے۔‘‘
شعروادب کو پرکھنے کے لیے مختلف کسوٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور مختلف فن کار اپنی اپنی دلچسپی اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کا استعمال کرتے ہیں۔ ادب کی پرکھ میں جمالیات، نظریات، اور نفسیات کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جمالیاتی تنقید کی بات کریں تو سنبل نگار کے مطابق ”روز اول سے ہماری تنقید نے جمالیاتی قدروں کو نظر انداز نہیں کیا‘‘ جمالیاتی تنقید ادب کو حسن و فن کی کسوٹی پر اس طرح پرکھتی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ اسے ہم تاثراتی تنقید کا نام نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ تاثراتی تنقید ایک رخ سے دیکھتی ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا لیکن جمالیاتی تنقید باقاعدہ اصول و ضوابط کے مطابق ادب کو پرکھتی ہے۔ اس کے برعکس مارکسی تنقید کا دبستان ساری دنیا کے ادب پر اس شدت سے اثر انداز ہوا کہ اس معاملے میں کوئی اور دبستان اس کی ہمسر نہیں کو سکتا۔ یہ وہ دبستان تنقید ہے جو کارل مارکس کے نطریات کی روشنی میں ادب کو پرکھتا ہے۔ کارل مارکس انیسویں صدی کے ایک جرمن مفکر تھے۔ ان کی ایک تصنیف نے دنیا میں ایک زبردست انقلاب کی بنیاد بن گئی۔ اس کتاب کا نام ”سرمایہ‘‘ ہے۔ مارکس کہتے ہیں کہ دنیا کے لوگ غریبوں کی غریبی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی محنت کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ ”لینن‘‘ نے معاشی نظام بدل کر رکھ دیا جس سے مزدوروں کا حوصلہ بلند ہوا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس نے بہت سے افسانہ نگار، ناول نگار اور بہت سے ترقی پسند ناقدین پیدا کیے۔ اردو میں تنقید کا باقاعدہ آغاز مولانا حالی کی ”مقدمہ شعرو شاعری‘‘ سے ہوا جو1893ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے شاعری کے اصول وضع کیے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ شاعری سے زندگی کا سنوارنے اور بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور شاعر کی اصل ذمہ داری اخلاقی تعلیم ہے۔ اس کے برعکس علامہ شبلی نعمانی شاعری میں حسن کاری کا خاص اہمیت دیتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا شاعری سے اصل مطالبہ یہ ہے کہ قاری انبساط کی دولت عطا کر دے اور بس۔ اور اس کے لیے شعر میں حسن کاری ضروری ہے۔ اس لے علاوہ اختر حسین رائے پوری، احتشام حسین، سجاد ظہیر، ممتاز حسین، مجنوں گورکھ پوری، سردار جعفری، کلیم الدین احمد اور پروفیسر آل احمد سرور وغیرہ نے تنقید پر بات کی ہے۔
اس کتاب کے آخری حصے میں دیگر اصناف پر بات کی ہے۔ اس حصے میں سنبل نگار نے الگ سے نثر نگاروں پر مکل تحزیہ پیش کیا ہے جس میں محمد حسین آزاد کی ”آبِ حیات‘‘ جو 1880ء میں شائع ہونے والا شعرائے اُردو کا تذکرہ اور اردو شاعروں کے منہ بولتے مرقعوں کا البم ہے، اس کے علاوہ سر سید کے اُردو ادب کے ساتھ تعلق کو بیان کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کی مرقع نگاری کو بھی واضح کیا اور ڈراما انار کلی کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا اور یہ پہلی بار 1931ء میں شائع ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں