مقبرہ اور اس کی یاد – ذیشان رشید

شام ابھی پوری طرح جوان نہ ہوئی تھی۔ یہ موسم سرما کے ابتدائی دن تھے۔ میں اپنی پسندیدہ جگہ پہ بیٹھا اپنی تنہائی کی راس بانٹ رہا تھا۔ سورج دن بھر کی مشقت اور طبع آزمائی کے بعد کسی اور جہاں کی طرف سفر اختیار کر چکا تھا کہ کچھ پل دنیا کے اس گوشے میں رہنے والوں سے پردہ کر لے. خنک ہوا ہولے ہولے عمارت میں موجود سوراخوں سے اندر آ رہی تھی۔
میں نے نظر اٹھا کے سامنے دیکھا تو پلک جھپکتے میں ماضی کا دریچہ وا ہوا اور ایک رعنائی سے بھرپور منظر میں وہ اپنا آنچل لہراتے ہوئے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ میں ٹھٹھک گیا۔۔۔ نہیں میں اس کو یاد نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ میرے زخم ہرے ہو جائیں گے۔۔۔
کچھ دیر اسی ادھیڑ بن میں رہنے کے بعد اس کی یاد جیت گئی اور میں ہار گیا۔۔۔
اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں اس کے ساتھ بلندیوں کے سفر پہ روانہ ہو گیا۔
یہ خزاں کی ایک خوبصورت صبح تھی جب اس نے مجھے پہاڑ پر ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ پہلا قدم پہاڑ پر رکھتے ہی وہ پکار اٹھی کہ سفر بہت طویل ہے، راستہ کٹھن اور دشوار ہے، جب کہ زاد راہ نہ ہونے کے برابر۔
میں نے بڑے پیار سے اسے پہلو میں بٹھایا اور سمجھایا کہ دیکھ بھلیے لوکے، اب جب اس سفر میں اکٹھے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر پیچھے مڑ کے دیکھنے کا سوچنا بھی مناسب نہیں۔ رک رک کر چلیں گے، دم لے کر چلیں گے اور اگر کہیں تمھیں لگا کہ کسی مقام سے تنہا گزرنا مشکل ہے تو میں ہوں ناں تمھارا ہاتھ تھامنے کے لیے۔
ہاتھ تھامنے کی بات سن کے اس کی آنکھوں میں ایک عجب سی چمک آ گئی۔ ہوں لگتا تھا جیسے اس نے اپنے حوصلوں کو مجتمع کر لیا ہو اور اب وہ سفر کی صعوبتوں کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھنے کا عزم کر چکی ہو۔
ہم قدم بہ قدم آگے بڑھنے لگے۔ برسوں کا سفر لمحوں میں کٹ گیا اور ہم اپنی منزل کے قریب ہونے لگے۔
موسم مہربان ہونے لگا۔
خزاں کی بارش میں ایک پراسرار سی لذت ہوتی ہے جو اداسی اور خوشی کے ملے جلے جذبات اپنے اندر سموئے ہوتی ہے۔ بارش باہر برستی ہے اور ہم اندر سے بھیگ جاتے ہیں۔ ایسی آگ سینے میں پھر جل پڑتی ہے جو بجھائے نہیں بجھتی۔ ایسے میں بڑی شدت سے اس بات کی خواہش جاگتی ہے کہ کوئی کاش دل پہ ذرا ہاتھ رکھ دے اور ٹوٹے ہوئے دل کے ٹکڑوں کو آج ساتھ رکھ دے۔
میں یہ سب خوابوں خیالوں کی باتیں ہیں۔
بھلا ٹوٹ کر کوئی چیز دوبارہ جڑتی ہے؟
راستہ دھیرے دھیرے مشکل ہونے لگا۔ اس کا سنہری بدن پسینے میں شرابور ہو گیا۔ سانس پھول کر دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ ٹھیک اس لمحے مَیں نے اپنا وعدہ نبھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اسے تھام لیا۔
میرا لمس پاتے ہی جیسے اس نے ہر غم سے آزاد ہو کر خود کو میرے سپرد کر دیا۔
میں نے اپنی پانی کی بوتل سے اسے کچھ پانی پلایا اور اس نے آلو کے پراٹھے والی پوٹلی کھول لی۔
سامنے قوس قزح آسمان پہ کمان کی صورت پھیل گئی اور یہاں ہم ایک چھوٹی سی جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ کے اپنی پکنک منانے لگے۔
وہ نوالہ بناتی اور میرے منہ میں ڈالتی۔۔۔
میں نوالہ بناتا اور اس کے منہ میں ڈال دیتا۔۔۔
اس محبت کے تبادلے میں یکایک میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔
مجھے یاد آ گیا کہ وہ جس موذی مرض میں مبتلا ہے، ہمیں شاید زیادہ مہلت نہ مل سکے۔
اپنا دکھ چھپاتے ہوئے میں نے آنسوؤں کو پیا اور آنکھوں پہ چشمہ لگا کے تصویر بنوانے کا بہانہ کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
چند تصاویر بنائیں اور بنوائیں اور پھر سفر شروع ہوا۔
ہم بلند ہوتے چلے گئے۔۔۔ حتیٰ کہ منزل سامنے آ گئی۔
منزل پر پہنچ جانے کے بعد ہمیں تیز بارش کا سامنا کرنا پڑا۔ چھپنے کو کوئی جگہ نہ تھی سو ایک دوسرے کی بانہوں کو چھتری بنائے ہم اس بارش میں بھیگتے رہے۔ یہ احساس بہت دلکش و دلربا تھا کہ یہ لمحے امر ہو رہے ہیں۔ معمول کی بھاگ دوڑ میں تو کبھی اتنی تفصیل کے ساتھ اک دوجے سنگ وقت بتانے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ اب یوں لگ رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو اور یہ قرب دائمی ہو گیا ہو۔
صدیاں بیت گئیں۔۔۔
بارش تب رکی جب ہم واپسی کا سفر شروع کر چکے تھے۔
واپسی کا سفر کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
یہ احساس دل و دماغ پر حاوی رہتا ہے کہ سفر ختم ہوتے ہی جدائی مقدر ہو گی۔
سفر ختم ہوا۔۔۔
حکم جدائی آن پہنچا۔۔۔
وہ رات کے تیسرے پہر اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔۔۔
میری رگوں میں منجمد ہوتا لہو چیخنا چاہتا تھا، پکارنا چاہتا تھا، اسے روکنا چاہتا تھا۔۔۔
مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔۔۔
ایک بھاری بھرکم ہاتھ میرے کندھے پہ آ کر رکا تو مجھے احساس ہوا کہ شام رات کی دہلیز پار کر چکی تھی اور میرا یہاں یوں بہت دیر تک بیٹھنا شاید دیکھنے والوں کو پریشان کر رہا تھا۔
میں نے خود کو سمیٹا اور نگاہوں سے اس مقدس مقام کو بوسہ دے کر باہر نکل آیا۔۔۔
ایک ادھوری پکار میرے حلق میں اٹک گئی اور شاید یہ ادھورا پن اب تا حیات ساتھ ہی رہے گا۔
(مسافرِ شوق)