حسن منظر کی کتاب ”اے فلکِ ناانصاف‘‘ – بلال حسن بھٹی

ہندوستان میں داستان گوئی کی روایت بہت قدیم ہے۔ نویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک پھیلی یہ روایت ہر خاص و عام کے لیے تفریح کا مقبول ذریعہ رہی ہے۔ بیسویں صدی میں سماجی ڈھانچے کی تبدیلی اور جدید طرز زندگی کو اپنانے والے اہلِ دانش نے داستان گوئی پر قدامت پسندی سے چمٹے رہنے کا الزام لگایا۔ گو چند لوگ اب بھی داستان گوئی کو زندہ کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ قدیم روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اُردو میں داستان گوئی کی روایت عربی اور فارسی زبان سے منتقل ہوئی۔ عہد قدیم میں قصے، حکایتوں اور داستانوں کے ذیلی و ضمنی واقعات پر مشتمل ہوتے تھے۔ بقول پروفیسر گیان چند جین، مصنف ”اُردو کی نثری داستانیں‘‘ پرانے قصوں کے چار اہم موضوعات تھے۔ جانوروں کی کہانیاں، سحر، جنس اور جنگ وجدال۔ اس کے علاوہ مذہب و اخلاق بھی داستان گوئی کے موضوعات رہے ہیں۔ داستان گوئی اور تاریخ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ان کا خمیر یکساں گندھا ہوا ہوتا ہے۔ زیادہ تر داستانیں اساطیر، روایت، تاریخ اور ثقافت کے حقیقی واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ حسن منظر کا حالیہ چھپنے والا ناول ”اے فلکِ نااِنصاف‘‘ داستان گوئی اور تاریخ کے لازم و ملزم ہونے کی عمدہ مثال ہے۔
صدیوں سے کئی جنگ جُو گروہ شمال مغرب کی پہاڑیوں سے ہندوستان پر حملہ کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ گروہ لوٹ مار کر کے یا ہندوستانیوں کی فصلیں برباد کر کے واپس چلے جاتے تھے جب کہ بعض جنگ جیتنے کے بعد یہیں رہ جاتے تھے۔ ہندوستانیوں کے دل اور یہاں کی ثقافت اپنے اندر وسعت رکھتی ہے۔ اس لیے وہ ان حملہ آوروں کو اجنبی سمجھ کر خود سے دور کرنے کی بجائے ان کی تہزیب و ثقافت کو بھی کسی حد اپنا لیتے تھے۔ ان باہر سے آنے والے چند لوگوں کے گروہوں نے ہمیشہ مقامیوں پر حکمرانی کی ہے۔ ان حکمرانوں کی کچھ نسلیں امن و سکون سے رہنے لگتی ہیں۔ وہ اس زمین اور یہاں کے رہنے والوں کو اپنا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دوران جب بادشاہ یعنی کہ ظلِ سبحانی علیل ہوتا ہے۔ اس کا آخری وقت قریب آتے ہی بادشاہ کے بھائی، بیٹے، پوتے اور نواسے اپنے خونی رشتے بھلا کر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ بادشاہ کی علالت سے کسی خونی رشتے کی کامیاب بغاوت تک کا دورانیہ قتل و غارت اور جنگ و جدل کا زمانہ ہوتا ہے۔ جب کوئی شہزادہ باقی تمام رشتے داروں کو قتل کر کے، ان کی آنکھیں نکلوا کر اور قید میں ڈال کر اپنے سر پر شہنشاہ ہند کا تاج سجا لیتا ہے تو حالات پھر معمول کی طرف لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ناول ”اے فلکِ نا انصاف‘‘ کی کہانی تخت کے لیے کی جانے والی اس طرح کی بغاوت، جنگ و جدل اور ایک بادشاہ سے حکومت چھین کر کسی طاقتور شہزادے کا بادشاہ بننے کے درمیانی عرصے کو بیان کرتی ہے۔ جس میں افراتفری، غربت، طوائف الملوکی، غیر یقینی صورتحال اور افواہوں کا بازار گرم رہتا ہے۔
داستان گوئی اور تاریخ کے بہترین امتزاج ”اے فلکِ نا اِنصاف‘‘ کی داستان نہ تو ”داستان امیر حمزہ‘‘ کی طرح چھیالیس ضخیم جلدوں میں لکھی گئی ہے اور نہ ہی کسی فارسی داستان کا چربہ ہے۔ یہ تو ایک سال اور چار ماہ تک پھیلا ایسا قصہ ہے جس میں دو شہزادوں کے طرز حکمرانی، سوچ، فکر اور عمل میں موجود باہم تضاد کو دکھایا گیا ہے۔ جس میں ایک سال کے چیتر سے لے کر اگلے سال کے آخیر بھادوں تک تخت کے لیے ہونے والی جنگوں اور سازشوں کو داستان کے ذریعے ہم تک پہنچایا گیا ہے۔ 1658ء میں شہنشاہ دوران بوخرم جب علیل ہوتا ہے تو اس کی جگہ شہنشاہ ہندوستان بننے کے لیے اس کے شہزادوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے۔ شہنشاہ دوراں، ظل سبحانی شہاب الدین محمد خرم اپنے بڑے بیٹے اور پنجاب کے حاکم شاہ بلند اقبال کو جب اپنے تخت کا وارث مقرر کرتا ہے تو تاریخ ایک بار پھر خود کو دہراتی ہے۔ تخت کے لیے جو روایت ترکوں میں نسلوں سے چلی آ رہی تھی وہ ایک دفعہ پھر دہرائی جاتی ہے۔ باپ کو اغوا کرنا، بھائیوں کو اندھا کروانا یا قلعے کی دیواروں سے پھینکوانا ان کی خاندانی ریت بن چکی تھی۔ دکن کے حاکم بو مطیع نے اپنے چھوٹے بھائی اور گجرات کے حاکم بومجاز سے مل کر نہ صرف تخت پر قبضہ کیا بلکہ بومجاز کو قتل کر کے دلی میں جا کر شہنشاہ ہند کا تاج اپنے سر پر سجایا۔
ناول کے پہلے حصے میں شہنشاہ شہاب الدین محمد خرم کی علالت کے بعد آگرہ میں پھیلی لاقانونیت، افراتفری، مہنگائی اور بے چینی کی داستان بیان کی گئی ہے تو دوسری طرف انہی لمحات میں دکن سے آگرہ کی طرف فتوحات کے جھنڈے گاڑ کر آنے والے شہزادے بومطیع کی انتظامی صلاحیتوں، جنگجو طبیعت، نیک پروری اور شہنشاہ ہندوستان کے تخت پر بیٹھنے کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ جب کے دوسرا حصہ شہزادہ شاہ بلند اقبال کی دہلی، لاہور اور ملتان کے گرفتاری کے بعد دہلی لائے جانے اور مفتی اعظم کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کی داستان ہے۔ ناول میں موجود جس شہنشاہ اور اس کی اولاد کی قسمت کا ذکر کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے لیے ہمیں اس روایت کو سمجھنا ہو گا۔ فتوی عالمگیری اور دیگر تاریخی کتب میں اس کا حوالہ موجود ہے جبکہ محسن حامد نے اپنے ناول ”موتھ سموک‘‘ کے ابتدائیہ میں یہی روایت لکھی ہے۔ بو مطیع فرماتے ہیں کہ
”ہمارے والد صاحب کے دربار میں موجود ہمارے ایک مخبر نے اطلاع دی کہ ایک ولی اللہ سے والد صاحب نے پوچھا کہ میرے بعد تخت و طاؤس پر کون بیٹھے گا۔ ولی نے شہنشاہ سے اس کے بیٹوں کے نام پوچھے۔
داراشکوہ سب سے بڑا ہے۔ شہنشاہ نے جواب دیا۔‘‘
”اس کی قسمت ویسی ہی ہے جیسی اس کے ہم نام یوس کی جس نے سکندر اعظم سے شکست کھائی.‘‘
شجاع دوسرا بیٹا ہے، شہنشاہ نے کہاـ
”اگرچہ اس کے نام کا مطلب نڈر ہے لیکن یہ ڈر کے بغیر نہیں.‘‘
مراد سب سے چھوٹا بیٹا ہے، شہنشاہ نے بتایا۔
”اگرچہ اس کا نام مراد ہے لیکن اس کی مراد پوری نہیں ہو گی.‘‘
اورنگزیب بھی ہے۔
”وہ اسم بامسمی ہے۔ وہی تخت کے لیے موزوں ہے۔ دانش اور مقدر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس کے پاس عقل نہیں اس کے مقدر بھی اچھے نہیں.‘‘
ناول کا ایک اہم موضوع حکمران طبقے اور رعایا کے باہمی تعلقات ہے۔ مغلوں کے آپسی تعلقات یا حکومت میں رہنے والے شاہ زادوں کے آپسی رشتوں اور ایک عام رعایا کے درمیان رشتوں کے تعلق میں بہت فرق موجود ہے۔ زیادہ دولت والے اور زیادہ طاقت والوں کے عام لوگوں سے ہمیشہ الگ ضابطے ہوتے ہیں۔ حکومت رشتے ناطے نہیں جانتی چاہے وہ خون کے ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی رشتہ داری بس تاج و تخت سے ہوتی ہے۔ لیکن مغلوں میں ان رشتوں کے دستور ہی نرالے ہیں۔ ملکہ شہزادے نہیں سنپولیے جنم دیتی ہے جو انڈوں سے نکلے نہیں اور ایک دوسرے کو کھانے لگ جاتے ہیں۔ بہن، بھائی، ماں باپ، اور بیٹا، بیٹی کے رشتے ان میں بھی قابل تعظیم ہیں لیکن اس وقت تک جب تک تخت کی راہ میں دیوار نہ بن جائیں۔ پھر رشتہ بس تخت سے رہ جاتا ہے باقی سب رشتے ہیچ ہیں۔ عام لوگوں کے ہاں ماں، باپ، ہمیشہ ماں، باپ ہوتے ہیں اور بہن، بھائی، بہن، بھائی ہوتے ہیں۔ خون کا عوضانہ دے دینے پر معافی مل جاتی ہے، جان چھوٹ جاتی ہے جب کہ ان کے یہاں معافی تلافی کچھ نہیں ہوتی۔ عام رعایا میں جب بیٹا باپ کے گھر آئے تو تمام تلخیاں بھلا کر گلے لگ جاتا ہے لیکن مغلوں میں کبھی تو باپ جہانگیر کے روپ میں پوتوں کو یرغمال بنا لیتا ہے اور بیٹوں کو مروا دیتا ہے تو کبھی عالمگیر جیسا بیٹا باپ کو زندان میں پھینکوا دیتا ہے۔ نیز خونی رشتوں کے درمیان تعلق کی تمام معروف روایات مغلوں میں الٹی نظر آتی ہیں۔
ناول کا پلاٹ داستان گوئی کی طرح بہت سادہ ہے۔ جس طرح داستانوں کے پلاٹ میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا اس طرح اس ناول کے پلاٹ میں بھی تنوع نہیں ہے اور قصے کہانیوں کی طرح اس میں بھی مقصدیت نظر آتی ہے۔ داستان میں ایک شخص سنا رہا ہوتا ہے اور باقی لوگ اس کے اردگرد سن رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس ناول میں آگرہ اور دلی میں ہر خاص و عام کی طرف سے سنائی جانے والی روز بروز کی خبروں پر مشتمل داستانوں کو اکٹھا کر کے سنایا جا رہا ہے۔ اس داستان کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کو سنانے والے کی اپنی آواز کہیں بھی شامل نہیں بلکہ تمام کہانی جیسے سنی گئی تھی ویسے ہی آگے ہم تک پہنچا دی گئی ہے۔ عام طور پر تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہوئے اکثر لکھاری کہانی کو بہت گنجلک، بورنگ اور تاریخی واقعات سے اس قدر لبریز کر دیتے ہیں کہ اس کی قرات سہل کام نہیں رہتا۔ لیکن یہ مصنف کی خوبی ہے کہ اس نے ”حبس‘‘ میں کہانی بیان کرنے کا جو انداز اپنایا تھا اسے اس ناول میں مزید نکھار کر سامنے لایا ہے۔
زبان کا خوبصورت استعمال اور منظر نگاری آپ کو سترھویں صدی کے دلی اور آگرہ کی سیر کرواتا ہے۔ ہندوی بولنے والوں کو کہانی سناتے وقت جب کوئی شخص فارسی اور عربی کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو اسے ساتھ میں اس کے معنی بھی بتانا پڑتے ہیں۔ لہذا ناول میں جو زبان ہمارے سامنے ابھر کر آتی ہے وہ فارسی، ہندی، ترکی اور مقامی زبانوں کے ملاپ سے تخلیق ہوتی ایک نئی زبان ہے جو بعد میں اردو کہلائی۔ ہاں لیکن مفتی اعظم کی عدالت میں لوگوں کی طرف سے ”بلے بلے‘‘ یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ کیا واقعی دربار میں ایسے نعرے لگا کرتے تھے؟ منظر نگاری بہت مہارت سے کی گئی ہے۔ بہت لمبے لمبے جملوں کے ذریعے ایک وسیع منظر تخلیق کرنے کی بجائے بہت سارے لوگوں کی چند باتوں کو لے کر بنائی گئی کہانی میں جمنا کنارے گھاس پر بیٹھے لوگوں، کسی درخت نیچے بیٹھے مزدوروں، بازار میں باہر سے کسی سوار یا اپنے دفتر میں بیٹھے کسی کلرک سے کہانی سنتے آپ آس پاس کے منظر کو اپنے تخیل کی مدد سے خود پینٹ کر سکتے ہیں۔
ناول کا مرکزی کردار شاہ بلند اقبال ہے۔ جو داراشکوہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دارشکوہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا اور چہیتا بیٹا تھا۔ اس کی زندگی کا محور اس کی کتابیں تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ اگر کتاب ہاتھ میں نہ ہو تو یوں سمجھو کہ وہ دارشکوہ ہے ہی نہیں کوئی بہروپیہ ہے جس نے اس کا روپ بدلا ہے۔ وہ علم کا شیدائی تھا۔ وہ تالمود، ویدانت اور اناجیل کے عہد نو کا ترجمہ کر چکا تھا۔ اس کے لیے تمام انسان برابر تھے۔ وہ تمام مذاہب کو اور ان کے ماننے والوں کو ایک بنانے کی اہلیت رکھتا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی ایک دوسرے سے نہیں لڑتا تھا۔ وہ اپنے اپنے مذاہب پر رہتے ہوئے سب کو محبت کی طرف بلاتا تھا۔ وہ دعوی خدائی نہیں دعوی بندگی کا قائل تھا۔اس جیسا پرجا کا غم خوار کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اولیا اللہ اور اہل علم اس کے دوست تھے۔ وہ علوم و فنون لطیفہ کا دلدادہ تھا۔ جنگ و جدل اس کے مزاج میں دخیل نہیں تھا۔ حکومت کو وہ مایا کہتا تھا۔ شہزادوں والی کوئی عادات و اطوار اس میں نہیں تھیں۔ مگر شاید یہی اس کے سب سے بڑے نقص تھے۔ اس دور میں جب انتہا پسندی ایک ضروری امر تھا وہ انتہا پسند نہ تھا۔ جب ذات پات بہت اہم تھی اس نے سب ایک ہیں کا نعرہ لگا کر ہندو برہمنوں کو اپنا مخالف کر لیا تھا۔ ایسے میں اپنے بھائی سے جنگ لڑنے کی بجائے وہ اس کی بھیجی ہوئی فوج سے بھاگتا رہا اور آخر کار جنید خان کے دھوکے کی وجہ سے پکڑا گیا۔ مفتی اعظم کی عدالت میں اس کی گفتگو اور اپنے موقف میں دیے گئے دلائل اس کی فکر کی بہترین عکاسی ہیں۔ ناول میں ایک جگہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ انگریز شاعر اور نظم ”گمشدہ جنت‘‘ کے مصنف جان ملٹن کے ساتھ بھی داراشکوہ کی خط و کتابت رہی ہے لیکن ایسا کوئی ٹھوس تاریخی حوالہ نہیں دیا گیا۔
دوسرا اہم کردار بومطیع کا ہے۔ جس کا نام عبدالمظفر محی الدین محمد تھا جبکہ دنیا اسے اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے جانتی ہے۔ وہ چھٹا مغل بادشاہ تھا۔ اس نے انچاس سال تقریباً پورے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ دارشکوہ کے برعکس عالمگیر کی طبیعت میں غصہ زیادہ تھا۔ وہ دارشکوہ سے بالکل الٹ طبیعت کا مالک اور سفاکیت کی حد تک بے رحم تھا۔ جوانی میں شعر و ادب اور فون لطیفہ کا دلدادہ لیکن ہیرا بائی کے مرنے کے بعد اس کی طبیعت میں بے رحمی اور اسلام کی ایک تعبیرکی طرف جھکاؤ حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ ناول میں ہیرا بائی کے ساتھ ملاقات پر اورنگزیب کو اٹھارہ سال کا جوان بتایا گیا ہے جب کہ تاریخی حوالوں میں ہیرا بائی سے اورنگزیب عالمگیر کی پہلی ملاقات 1953ء میں ہوئی جب وہ پنتیس سال کا تھا۔ ہیرا بائی کے حسن نے شہزادے کو دیوانہ کر دیا۔ شہزادے کے بقول اگر ہیرا بائی زہر بھی پلاتی تو وہ اسے بھی پی لیتا۔ ہیرا بائی کی موت کے بعد وہ اداس اور دنیا سے بیزار ہو کر مذہب کے مزید قریب ہو گیا۔ داراشکوہ سے نفرت کی پہلی وجہ اس کی غریب پروری تھی لیکن مذہب سے قریب ہو کر عالمگیر اپنے بڑے بھائی کو سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا سمجھنے لگا۔ یہی شدت پسندی شہنشاہ ہند بننے کے بعد اس کی حکومت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تخت کے لیے اس نے باپ کو زندان میں ڈالا اور تینوں بھائیوں کو قتل کروا دیا۔ اس کے دور میں فرقہ ورانہ فسادات نے شدت اختیار کی اور اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر زندگی تنگ کی گئی۔ عالمگیر ایک کامیاب مغل بادشاہ تھا۔ اس کی وفات کے بعد مغل بادشاہت کا درخشاں ستارہ نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہو گیا۔
مختلف اوقات میں یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ اگر داراشکوہ کا قتل نہ ہوتا یا عالمگیر کی جگہ داراشکوہ بادشاہ ہوتا تو ہندوستان کی قسمت کیسی ہوتی؟ یہ ناول بھی بظاہر ایسے ہی ایک سلسلے کی کڑی ہے۔ ”اے فلکِ نااِنصاف‘‘ صرف داراشکوہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی داستان نہیں ہے بلکہ یہ کرہ ارض پر ازل سے موجود روشن فکر اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے ہر اہل دانش کی داستان ہے جس نے اپنے معاشروں کے بوسیدہ نظام پر سوال اٹھائے، لوگوں کے مذہبی عقائد اور فرسودہ سوچ کے متبادل ایک نئی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، ایسی سوچ جو ساری انسانیت کے ایک ہونے کی بات کرتی ہے، جو عقل کو استعمال کرنے پر اکساتی ہے۔ دارشکوہ تو بس ایک استعارہ ہے ورنہ ایسی روشن فکر رکھنے والوں پر ہونے والے مظالم کی داستان تو ایتھنز کے سقراط کو زہر کا پیالہ دینے سے لے کر، امام احمد بن حنبل کی پشت پر کوڑے برسانے، ابن رشد کو جامعہ مسجد کے ساتھ باندھ کر اس کے منہ پر تھوکنے اور گلیلیو کی تذلیل کرنے سے لے کر آج کے دن تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں سوال اٹھانا اور مروجہ فکر سے ہٹ کر سوچنا ہی سب سے بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
اس ناول کی قیمت 500 روپے ہے اور اسے رائل بک کمپنی، کراچی (فون: 35653418-021) نے طبع کیا ہے۔