مطالعہ ایک فن ہے۔ جو لوگ اس فن کو جانتے ہیں، وہ بہت کم وقت میں زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ پوری پوری کتاب پڑھ بیٹھتے ہیں مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس مطالعہ سے کیا حاصل کیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہر موضوع کے متعلق علم پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے مگر جو چیز بنیادی ہے، یعنی مطالعہ، اس کا طریقہ زیادہ تر تو کسی کو معلوم نہیں اور اگر معلوم ہے تو کوئی طلباء کو بتاتا نہیں. مکاتب لائبریریز کتابوں سے بھری پڑی ہیں، مگر طلباء کو مطالعہ کی طرف رغبت دلانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی جاتی. چند تعلیمی اداروں کو چھوڑکر اکثر میں یہی صورتِ حال ہے. یہاں تک کہ دورہ حدیث تک مکمل کرلیا جاتا ہے اور اگر کسی مسابقه کی تیاری کے لیے تقریر یا کسی اخبار کے لیے تحریر لکھنی پڑجائے تو لالے پڑجاتے ہیں، کیوں کہ ماضی میں مطالعہ میں عدم دلچسپی، مطالعاتی ماحول کا نا ہونا ہی اس صورتحال کا سبب ہے. ذیل میں چند رہ نما اصول درج کیے جا رہے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر مطالعہ میں دلچسپی بڑھائی جا سکتی ہے:
1. کوئی بھی تحریر پڑھنے سے پہلے خود سے یہ سوال کیجیے کہ اس کے پڑھنے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ کو خاص معلومات کی تلاش ہے، یا آپ نے کچھ سیکھنا ہے؟ یا محض وقت گزاری کے لیے پڑھ رہے ہیں؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں ۔ یہ سوالات آپ کے مقصد کو واضح کرتے ہیں.
2. ہمیشہ شور و غل سے پاک ماحول میں مطالعہ کریں۔ مطالعہ کے وقت مکمل توجہ مطالعہ پر مرکوز رکھیں۔ توجہ ہٹانے والی اشیاء، موبائل، لیپ ٹاپ، وغیرہ کو دورانِ مطالعہ خود سے دور رکھیں۔
3. اگر آپ تھکے ہوئے ہیں یا کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ ہے تو مطالعہ موقوف کر دیں۔
4. اگر زیرِ مطالعہ کتاب اپنی ہے تو اہم حصوں کو نشان زد کریں، یا پوائینٹر سے نمایاں کریں تاکہ بعد میں خاص نکات کو تلاش کرنے میں آسانی رہے. اگر کتاب لائبریری سے لائے ہیں یا کسی دوست سے ادھار لی ہے تو نشان زد کرنے کی بجائے خاص فقروں، پیراگراف وغیرہ کو اپنے پاس کاپی میں نوٹ کر لیں۔
5. جو چیز یاد کرنی ہو اسے بار بار دہرائیں. بہتر ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دوبارہ دہرا لیں۔ ماہرین کے مطابق ہمارا دماغ چوبیس گھنٹے بعد چیزوں کو بھولنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر ایک بار ان کی تکرار کر لی جائے تو اسے ہفتوں یاد رکھا جا سکتا ہے۔
6. دوسروں کو پڑھانے، پڑھا ہوا سنانے یا لکھنے سے بھی کوئی بات یا تحریر زیادہ عرصہ ہمارے ذہن میں مخفوظ رہتی ہے۔
7. کسی بھی مضمون یا تحریر کو پڑھتے وقت اس میں اپنی ذات کو شامل کر لیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جس کام میں ہماری اپنی ذات شامل ہوتی ہے وہ ہمیں زیادہ دیر تک یاد رہتی ہے۔
8. حاصل مطالعہ: مطالعہ کرنے کے بعد خود سے سوال کریں کے آپ نے کیا سیکھا؟ کیا حاصل کیا؟ یا یہ کہ اگر مجھے متعلقہ تحریر کے بارے کسی کو بتانا ہو تو کیا بتاؤں گا؟
خلاصہ: حاصل مطالعہ کو نوٹ بک پر لکھنے کی عادت بنائیں، ورنہ کم از کم مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ ہلکی آواز میں دہرا لیں۔
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق