اپنی آپ بیتی سے چند اوراق آپ کی نذر کر رہا ہوں جو میں نے محبوب الٰہی مخمور کی پُر خلوص محبت، شفقت اور رہنمائی پر لکھے ہیں۔
یہ سال 2006ء کی بات ہے کہ جب دعوة اکیڈمی، شعبہ بچوں کا ادب، اسلام آباد نے مدیران ورکشاپ کروائی تھی۔ وہ وقت میرا طالبِ علمی کا تھا اور میں نے ابھی لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ مدیرانِ رسائل کی ورکشاپ ہورہی ہے، یہ بات مجھے اُس وقت کے مدیر پیغامِ اقبال ڈائجسٹ یاسر ریاض یاسر بھائی نے بتائی۔ اُن سے میرا پہلا سوال ہی یہی تھا کہ کون کون سے رسائل کے مدیران شرکت کر رہے ہیں۔ یاسر بھائی نے جواباً کہا کہ تقریباً تمام رسائل کے مدیران شامل ہیں۔ بس پھر کیا تھا میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نا ان مدیران سے ملاقات کی جائے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار میں نے یاسر ریاض بھائی کے ساتھ کیا۔ انہوں نے فوراً ہامی بھر لی اور کہنے لگے کہ اتوار کو اختتامی تقریب ہے تم میرے ساتھ وہاں چلے جانا۔ یہ بات سن کر میرا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ اب مجھے انتظار تھا تو صرف اتوار کا اور وہ بھی دو دن کے بعد آنی تھی۔ آخر کار اللہ اللہ کر کے وہ صبح بھی آگئی جب مجھے مدیران ورکشاپ میں جانا تھا۔ یاسر بھائی نے مجھے رات کو ہی فون کر دیا تھا کہ تم فیصل مسجد آجانا اور کسی سے پوچھ لینا کہ مدیرانِ رسائل کی ورکشاپ کہاں ہورہی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کس سے ملنا ہے تو کہنا کہ پیغامِ اقبال ڈائجسٹ کے مدیر یاسر ریاض سے ملنا ہے۔
صبح نو بجے ہم فیصل مسجد کے باہر کھڑے تھے۔ اب مسجد اتنی بڑی تھی اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا استقبالیہ کہاں ہے۔ بہرحال ایک شخص جس نے ہاتھوں میں فائلیں اُٹھا رکھی تھی اُن سے پوچھ لیا کہ دعوة اکیڈمی جانے کا راستہ کون سا ہے؟ انہوں نے ایک نظر غور سے مجھے دیکھا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے مجھے راستہ بتا دیا۔ دعوة اکیڈمی پہنچ کر استقبالیہ سے مدیرانِ رسائل کی ورکشاپ کہاں ہورہی ہے؟ اس کے بار ے میں پوچھا۔ایک مختصر سا جواب آیا: کس سے ملنا ہے؟ جی یاسر ریاض بھائی سے ملنا ہے جو پیغامِ اقبال ڈائجسٹ کے مدیر ہیں. اچھا آپ یہاں سے سیدھا ہو کر دائیں ہوجائیں جو آڈیٹوریم نظر آئے گا، اُس کا دروازہ کھول کر اندر چلے جائیں، وہاں ہی مدیران کی ورکشاپ ہورہی ہے۔ میں بتائے ہوئے راستہ پر آڈیٹوریم کے دروازے کے سامنے پہنچ گیا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو تمام مدیران کی نظر مجھ پر پڑی۔ یاسر ریاض بھائی نے مجھے دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بُلا لیا۔ اُن مدیران میں سے ایک مدیر کی نظر مجھ پر ٹھہر گئی تھی۔ اُنہوں نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور آنکھوں سے عینک اُتار کر صاف کرنے لگے۔ میرے کرسی پر بیٹھ جانے تک وہ مجھے ہی دیکھتے رہے۔ شاید یہ میرے ساتھ پہلا اتفاق تھا کہ اتنے سارے مدیران کے درمیان بیٹھا تھا۔ چائے کے وقفے کے درمیان وہ مدیر جو مجھے غور سے دیکھ رہے تھے، اُن کے ہاتھ میں ایک میگزین تھا جو بزمِ قرآن کراچی کے اُس وقت مدیر کے ساتھ کھڑے وہ رسالہ دیکھ رہے تھے۔ میں بھی وہاں کھڑا ہوگیا اور رسالہ دیکھنے لگا۔ ایک کہانی پر میری نظر رک گئی اور کہنے لگا کہ یہ کہانی پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔ یہ ذیشان بن صفدر کی کہانی تھی۔ اُس مدیر نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اورکہنے لگے، جی مجھے معلوم ہے اور یہ میرا ہی رسالہ ہے. شاید آپ سے میرا تعارف ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ مجھے محبوب الٰہی مخمور کہتے ہیں، انوکھی کہانیاں رسالہ کا مدیر ہوں۔ اس پر میں نے جواباً کہا: میرا نام محمد علی ہے اور میں پیغامِ اقبال ڈائجسٹ، پھول کلیاں اور کرنیں میں لکھتا ہوں۔ آپ سے تفصیلی ملاقات ہوگئی. ابھی چائے کا وقفہ ختم ہوچکا ہے اور آڈیٹوریم میں چلتے ہیں۔ یہ وہ پہلی ملاقات تھی جومحبوب الٰہی مخمور سے ہوئی تھی۔ وہاں پر مظہر یوسف زئی، مصطفٰی ہاشمی، وسیم خان، عارف قریشی، محمد فاروق دانش، دلدار حسین، محمد شعیب مرزا، رضوان ثاقب، قمر علی اور دیگر مدیران شامل تھے۔
محبوب الٰہی مخمورسے پہلی ملاقات کے ایک ماہ بعد ہی مجھے میرے گھر پر ایک سال کے پورے رسالے بطور تحفہ مل گئے اور اس کے ساتھ یہ کہا گیا کہ انوکھی کہانیاں آپ کی تحاریر کا منتظر ہے۔ بس پھر کیا تھا جتنے بھی مدیران رسائل نے مجھے رسالے ارسال کیے تھے اُن سب کے ساتھ لکھنے کا آغاز کر دیا۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن میں ”اچھا کیسے لکھا جائے‘‘ کے موضوع پر ایک ورکشاپ کروائی گئی، جس میں ملک بھر کے تمام اہلِ قلم نے شرکت کی۔ ان میں محبوب الٰہی مخمور، محمد فاروق دانش اور علی حسن ساجد بھی شامل ہوئے۔ یہ ورکشاپ بھی دعوة اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ اسلام آباد سے اس ورکشاپ میں شامل ہونا میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔ محبوب الٰہی مخمور نے مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھا۔ شرکاء میں گروپ ڈسکشن ہوا جس میں محبوب الٰہی مخمور بھائی نے مجھے اپنے ساتھ رکھا اور بچوں کے ادب پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ بچوں کے ادب میں کیا کچھ ہو رہاہے اور کیا کچھ ہونے والا ہے۔ محبوب بھائی اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیگر اہلِ قلم سے متعارف بھی کرواتے رہے۔
محبوب الٰہی مخمور ایک بے لوث انسان ہیں۔ اُن سے جو بھی بات کی، اُنہوں نے ہمیشہ مثبت جواب دیا۔ یہاں پر مجھے ایک واقعہ یاد آرہاہے کہ دعوة اکیڈمی شعبہ بچوں کا ادب نے رسائل کے درمیان ایک مقابلہ کروایا جس کا موضوع ”پیارے نبی ۖ نمبر‘‘ تھا۔ میرے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس مقابلہ میں حصہ لیا جائے لیکن ایک بہت بڑی پریشانی یہ تھی کہ میرے پاس کوئی رسالہ نہیں تھا اور نہ ہی میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ میں رسالہ شائع کر سکتا۔ یہاں پر ایک ہی شخص یاد آیا جس نے ہمیشہ میری مدد کی تھی اور وہ کوئی اور نہیں محبوب الٰہی مخمورہی تھا۔ میں نے اُن کو کال کی اور پوچھا کہ شعبہ بچوں کا ادب والے مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک عرصہ ہوگیا میں نے اُن مقابلوں میں حصہ نہیں لیا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر میں آپ کو پورا میگزین بنا کر دے دوں تو پھر آپ حصہ لے لیں گے؟ اس پرمحبوب الٰہی مخمور نے اجازت دے د ی اور کہنے لگے کہ اگر مقابلہ میں انعام نکل آیا تو آدھا انعام تمھیں دے دوں گا۔ بس پھر کیا تھا میں نے اپنے اہلِ قلم دوستوں کو فون کیا اور اُن سے تحاریر لکھوانے لگا۔ عرفات ظہور بھائی کا اس حوالے سے ذکر کرنا نہیں بھولوں گا۔ وہ اتنے نفیس اور پُرخلوص انسان ہیں کہ انہوں نے فوراً ایک دن میں ہی مجھے کہانی لکھ کر بھیج دی۔ علی عمران ممتاز، حافظ نعیم سیال، ڈاکٹر طارق ریاض خان، غلام محی الدین ترک، حیدرعلی اور وہ تمام لکھاری جن نے نام مجھے ابھی یاد نہیں آرہے، وہ شامل تھے۔ محبوب الہی مخمور بھائی نے اس خاص نمبر کو دوگنے صفحات میں شائع کیا۔ سرورق کو بھی بڑی خوب صورتی سے بنایا۔ یہ دیکھ کر مجھے لگا کہ میری محنت وصول ہوگئی ہے۔ اس خاص نمبر کو مقابلے کے لیے بھیج دیا گیا۔
پیارے نبیﷺ نمبر‘‘ مقابلہ رسائل کا نتائج کا اعلان ہوا جس میں ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ یہ دیکھ کر میں خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ محبوب الہی مخمور بھائی کا بھی مبارک باد کا فون آیا۔
مدیران ورکشاپ کا انعقاد کا کیا گیا۔ اس مدیران ورکشاپ میں، مَیں اعزازی رابطہ کار کے طور پر کام کر رہا تھا۔ تمام مدیران کو فون کرتا اور اُن کی روانگی کی معلومات نوٹ کرتا رہا تھا۔ وہ وقت بھی آگیا جب مدیران اسلام آباد آنے شروع ہو گئے۔ کراچی سے آنے والے مدیران کو لینے کے لیے ائیرپورٹ جا کر لے کر آنے کی ذمہ داری مجھے لگائی گئی۔ میں فون پر اُن سے رابطہ میں رہا۔ محبوب الٰہی مخمور بھائی بھی اُن مدیران میں شامل تھے۔ رات کا وقت تھا، ائیرپورٹ پر لوگوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا۔ ایسے میں محبوب الہی مخمور بھائی کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ ہم یہاں کھڑے ہیں جہاں پی آئی اے کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ محبوب بھائی اور دیگر مدیران کو لے کر ہاسٹل پہنچ گیا۔ وہاں پر ڈاکٹر افتخار کھوکھر صاحب نے پوچھا کہ آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔ اس پر محبوب بھائی نے کہا کہ علی تو جیسے ہی جہاز نیچے اُترا، فون کرنے لگ گیا تھا۔ اس لیے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
دوپہر کے کھانے پر محبوب الٰہی مخمور سے ڈاکٹر افتخارکھوکھر نے پوچھا کہ یہ خاص نمبر اگر علی نے بنایا ہے کہ تو انعام بھی اُسے ہی ملنا چاہیے۔ اس پر محبوب الہی مخمور بھائی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بالکل اسے ہی ملنا چاہیے۔ یہ سب اس کی محنت کا پھل ہی ہے۔
محبوب الٰہی مخمور بھائی نے مجھے اپنی مختلف کہانیوں کی کتاب میں معاون مدیر کے طورپر کام بھی کروایا۔ ان کتب میں ”پُراسرار گڑیا‘‘ اور ”خوفناک کہانیاں‘‘ شامل ہیں۔
ایک دن ڈاکٹر افتخارکھوکھر صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم بچوں کی سیرت کہانیاں لکھو۔ اس موضوع پر بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات میں نے محبوب الٰہی مخمور بھائی سے مشورہ لینے کے لیے کی۔ انہوں نے میری بھر پور حمایت کی اور کہنے لگے کہ حدیث کہانیاں لکھ کر مذہبی امور کے سیرت مقابلہ میں حصہ لو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ تمہیں ہی اول انعام ملے گا۔ یہ محبوب الٰہی مخمور بھائی کا ہی اعتماد تھا کہ میں سیرت کہانیا ں لکھیں۔ اس پر فہیم عالم نے کتاب شائع کرنے کی حامی بھر لی لیکن یہ کتاب میں نے اپنے پیسوں سے شائع کی۔ محبوب الٰہی مخمور سے اس کتاب پر تاثرات مانگے جو انہوں نے دس منٹ میں ارسال کردیے۔ یہ وہ محبت اور خلوص ہے جو وہ سب اہل قلم کے ساتھ رکھتے ہیں۔
محبوب الٰہی مخمور ایک سچے، اچھے، پُرخلوص، محنتی اور ہر پل رہنما ئی کرنے والے انسان ہیں۔ یہاں میں نے اُن کے بارے میں ابھی بہت کم لکھا ہے. اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ابھی باقی ہیں جن کو یاد کر چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ اللہ تعالی محبوب الٰہی مخمور بھائی اسی طرح خوش خرم اور ہنستا مسکراتا رکھے اور وہ اہل قلم کی یوں ہی رہنمائی کرتے رہیں، آمین.
محمد علی ادیب صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف ہیں.