گلگت بلتستان کی معروف ادیبہ محترمہ سین بانو کا اصلی نام سائرہ بانو ہے اور آپ پیشے کے اعتبار سے معلمہ ہیں۔ سائرہ بانو 15 اگست 1973ء کو سکردو بلتستان میں پیدا ہوئیں. آپ نے میٹرک تک تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی، پہلے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول سکیمیدان، سکردو اور بعد ازاں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول، سکردو سے. انٹرمیڈیٹ اور گریجوایشن کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد محترمہ سین بانو نے ایم اے ایجوکیشن کی ڈگری لی. قراقرم یونیورسٹی کے سکردو کیمپس کے قیام کے بعد پہلے بیج میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ سن 2001ء میں سائرہ بانو نے محکمہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی۔
آپ سین بانو کے نام سے 2010ء سے خواتین کے لیے مختلف اخبارات میں لکھ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں سائرہ بانو طالبات کو کئی اہم موضوعات پر مختلف تعلیمی ادروں میں لیکچرز بھی دے چکی ہیں۔ آپ نے تربیت اساتذہ کی ذمہ داری بھی نبھائی اورمذہبی تقریبات میں بھی قران فہمی کے مختلف سیشن کیے۔
گلگت بلتستان کی خواتین کے لیے آپ کی تحریر کردہ پہلی کتاب 2017ء میں ”سنو بنتِ شمال‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئی. 276 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں گھر گرہستی کے کئی اہم موضوعات سمیت بچوں کی تربیت اور خواتین اساتذہ کو خاص طور پر موضوع سخن بنایا گیا۔
کتاب لکھنے کی ضرورت اور محرکات بیان کرتے ہوئے مصنفہ رقم طراز ہیں:
”اہلِ دانش کی باتیں… جب صفحہ قرطاس پر بکھری ہوئی ملتیں تو خواہش ہوتی کہ کاش ان موتیوں کو اردگرد کے لوگ چُن لیں اور ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں. یہ خواہش ابھی کی نہیں بلکہ برسوں کی ہے کہ ہر اچھی بات دوسرے شخص خاص طور پر خواتین تک پہنچائی جائے… ایسی جگہ جہاں خواتین کا روایتی تعلیم اور درسی کتب سے ہٹ کر مطالعہ کرنے کا کوئی رجحان نہ ہو، وہاں تحریر کے ذریعے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا تھا. لیکن اللہ رب العزت کے کرم کے کیا کہنے کہ جس نے ایک ایسے دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت اور موقع عطا فرمایا جو بظاہر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا. پورے ملک میں بالعموم اور گلگت بلتستان میں بالخصوص خواتین، ماؤں اور طالبات کے لیے مختلف معاملات میں کسی قسم کی راہنمائی اور تربیت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں. یہاں تک کہ مطالعہ کے ذریعے گھر بیٹھے حاصل ہونے والی معلومات بھی بہت کم پائی جاتی ہے… ان حالات میں گلگت بلتستان کی بیٹیوں کے لیے سادہ اور عام فہم معلومات کی ضرورت پہلے بھی تھی اور اب مزید بڑھ گئی ہے. زیرِ نظر کتاب انہی نکات کو ذہن میںرکھ کر ترتیب دی گئی ہے. یہ پہلی کاوش اس امید کے ساتھ منظرِ عام پر لائی گئی ہے کہ علاقے میں موجود خواتین، خصوصاً مائیں اس سے مسفید ہوں گی.‘‘
سکردو کے ادیب اور محقق محمد حسن حسرت، محترمہ سین بانو کی اِس کاوش کے بارے میں لکھتے ہیں:
”زیرِ نظر کتاب ”سنو بنتِ شمال‘‘ رشحاتِ قلم کی ماحصل ہے… (کتاب میں شامل) یہ مضامین خواتین کے حقوق و مسائل اور ان کی ذمہ داریوں سے متعلق موضوعات پر محیط ہیں. سائرہ کا اسلوبِ نگارش سادہ و شیریں اور پُردرد ہے. وہ اپنے ان کالموں میں جہاں حقوقِ نسواں کے بارے میں صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں وہاں خواتین کے مسائل اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی جھنجھوڑتی رہتی ہیں.‘‘
محمد حسن حسرت مزید لکھتے ہیں:
”ہمارے ہاں خواتین کے مسائل اور ذمہ داریوں سے متعلق ایک آواز کی کمی کا احساس پہلے سے کیا جا رہا تھا. اگر یہ کام کوئی مرد کرتا تو اتنا موثر نہ ہو پاتا کیوں کہ خواتین کے مسائل کا ادراک خود خواتین سے بہتر کِسے ہو سکتا ہے؟ مجھے خوشی ہے کہ سائرہ نے اخبارات میں کالم نگاری کا سلسلہ جاری رکھا اور یہ بلا شبہ خواتین کے حقوق و مسائل کے حل کے لیے جاری جدوجہد کے سلسلے کی ایک کڑی ہے. سائرہ بانو نے اپنے ان مضامین کے ذریعے گھریلو انتظام و انصرام کی بہتری، نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی اقدار کے تحفظ کے حوالہ سے اصلاحِ معاشرہ کا بیڑا اٹھایا ہے. یوں اس قلم کار خاتون نے خواتین کو حقوق کے ساتھ ساتھ ان کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کر کے درسِ اخلاق کی بہت بڑی ذمہ داری نبھائی ہے. مجھے توقع ہے کہ سائرہ کا یہ قلمی سفر جاری رہے گا اور اس شعبے میں خواتین کی نمائندگی کے خلا کو پُر کرتی رہیں گی.
میں سائرہ کو ہدیہ تبریک اور خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسے ایسے موضوعات پر خامہ فرسائی کرکے اتنے عمدہ مضامین لکھے اور ان کو کتابی صورت میں منظرِ عام پر لائی ہیں جن پر مقامی سطح پر کسی نے قلم نہیںاٹھایا تھا.‘‘
اس کتاب ”سنو بنتِ شمال‘‘ میںشامل مضامین محترمہ سائرہ بانو کے لکھے ہوئے کالموں پر مشتمل ہیں. اسی حوالے سے ہفت روزہ سیاچین نیوز، گلگت بلتستان کے چیف ایڈیٹر محمد قاسم نسیم نے بھی سائرہ بانو کی تصنیف کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ عمدہ الفاظ میں خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے. آپ لکھتے ہیں:
”سائرہ بانو بلتستان کی ایک بہت ہی کہنہ مشق معلمہ ہیں جو صرف روایتی اندازِ تدریس پر یقین نہیں رکھیں بلکہ اس پیشے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے پڑھانے کا فن خوب جانتی ہیں. ان کا شمار ان معدودے چند اساتذہ میں ہوتا ہے جو سیکھنے کے عمل کے، عمر بھر جاری رکھنے کو، کامیابی کا راز سمجھتے ہیں. دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کم و بیش اٹھارہ گھنٹے پڑھنے اور پڑھانے میں صرف ہوتے ہیں. گویا ان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہی علم حاصل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ہے. اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے کتاب سے ایسا ناطہ جوڑا ہے کہ کتابیں خریدنا اور مطالعہ کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہے.‘‘
محترمہ سین بانو کی افسا نوں کی ایک کتاب زیرِ طبع ہے. آپ کے تحریر کردہ یہ افسانے گلگت بلتستان کی معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں. خواتین کے لیے دوسری کتاب ”شمالی ماں‘‘ بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔
معاشرے میں چوں کہ خواتین کے مسائل اور موضوعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس لیے وقت کیضرورت ہے کہ خواتین لکھاری میدان میں آئیں اور اس شعبہ میں اپنی خدمات پیش کریں. اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محترمہ سین بانو خواتین کے مسائل اور مختلف موضوعات پر بروقت تحریر کے لیے ویب سائٹ ”بنتِ شمال ڈاٹ کام‘‘ پر لکھنے کا فریضہ بھی سرانجام دے رہی ہیں۔
2021ء کے عالمی یومِ خواتین کے موقع پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے آپ کو بہترین لکھاری کا ایوارڈ ملا۔ اس سے قبل دو مرتبہ بہترین استاد کا ایوارڈ بھی لے چکی ہیں.
محترمہ سین بانو مستقبل میں اپنے علاقہ کی خواتین اور بچیوں کے لیے ایک ایسے ادارے کے قیام کی خواہاں ہیں جس میں لائبریری، تعلیمِ بالغاں، قرانی تعلیم، تعلیمی رہنمائی اور نفسیاتی مسائل کا حل ایک ہی چھت تلے میسر ہو۔
ادارہ ”کتاب نامہ‘‘، محترمہ سائرہ بانو کی ترقی اور کامیابی کے لیے دعا گو ہے.