قرار دادِ پاکستان کی کہانی – ثاقب محمود بٹ

گھر کے تمام افراد لالہ موسٰی ریلوے سٹیشن پر پہنچ چکے تھے اور سب کو اکرم چچا کے گھر لاہور جانے کے لیے ریل کار کا انتظار تھا۔ عمار جو ٹرین کی پٹری پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا، اچانک چلایا: ’’وہ آ گئی ٹرین۔۔۔‘‘

ٹرین کے نظر آتے ہی سب لوگ پلیٹ فارم پر چوکس ہو گئے اور ٹرین رُکنے کا انتظار کرنے لگے۔ جوںہی ٹرین رُکی، اکرم صاحب بچوں کو لے کر ایک ڈبہ میں سوار ہو گئے اور کسی مناسب جگہ سیٹ دیکھ کر سب بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں انجن نے وِسل بجائی اور ٹرین آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ وہ تمام لوگ جو گھبرائے گھبرائے ٹرین میں سوار ہوئے تھے، انہوں نے خود کو بحال کرنا شروع کیا اور ساتھ بیٹھے افراد سے سلام، دُعا اور گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔ پیارے بچو، یہ ریل کے سفر کا ہی کمال ہے کہ دورانِ سفر ہم سب ایک دوسرے سے اپنے دل کا حال بیان کر دیتے ہیں، ورنہ عام طور پر تو لوگ سلام کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ریل کے سفر میں بہت سی کہانیاں کثرت سے ملتی ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ٹرین میں برابر بیٹھے ہوئے افراد کی علیک سلیک اکثر زندگی بھر کے گہرے مراسم میں بدل جاتی ہے۔ یہاں ہی عمر بھر کی دوستیاں شروع ہوتی ہیں جو بعد میں رشتہ داریوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کو دُور دُور بیاہنے لگے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی اکرم صاحب کی فیملی کی۔۔۔
اکرم صاحب بھی اپنے اِردگرد بیٹھے مسافروں سے دُعا، سلام سے فارغ ہوئے تو بچوں سے مخاطب ہوئے: ’’پیارے بچو، ٹرین تو چل پڑی، دعا ہے کہ ہم سب خریت سے لاہور پہنچیں۔‘‘
جواب میں سب بچوں نے ایک لمبی سی ’’آمین‘‘ کہی۔
اکرم صاحب دوبارہ مخاطب ہوئے: ’’بچو آپ کو ایک دلچسپ بات بتائوں کہ برِ صغیر کی سرزمین پر، 16 اپریل 1853ء کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ کہا جاتا ہے جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اِس پار کا سچ اُس پارکے حوالے کیا تھا، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اس لیے ٹرین کے سفر کی بہت اہمیت ہے۔ پیارے بچو!کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹرین میں سفر کرنے کے بھی کچھ آداب ہیں؟ کون بتائے گا؟
ہانیہ فوراً بولی: ’’چچاجان میں بتاؤں؟‘‘
اکرم صاحب بولے: ’’جی بیٹی آپ بتائیں۔‘‘

ہانیہ انگلیوں پر گنتی کرتے ہوئے بولی: ’’ہمیں ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اِردگرد بیٹھے مسافروں کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔ یعنی ہم خود بھی آرام سے سفر کریں اور دوسروں کے لیے بھی آرام کا باعث بنیں۔ تمام مسافروں کو شور شرابہ اور سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں اِردگرد کوئی مشکوک چیز یا بیگ وغیرہ نظر آئے، جس کے ساتھ کوئی مسافر نہ ہو، تو فوراً اس کی اطلاع ریلوے کے عملہ یا پولیس کو دینی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں دورانِ سفر اجنبی افراد سے کوئی بھی چیز لے کر نہیں کھانی چاہیے کیوں کہ ممکن ہے وہ کوئی چور یا لٹیرا ہو اور کھانے میں بے ہوشی کی دوا ملا کر ہمارا قیمتی سامان لے جائے۔ ‘‘
ہانیہ خاموش ہوئی تو اکرم صاحب مسکراتے ہوئے بولے: ’’ارے واہ بیٹی، آپ نے تو بہت سمجھ داری کی باتیں اپنے بہن بھائیوں کو بتا دی ہیں، شاباش! چلیں میں آپ کو کچھ مزید احتیاطیں بتا دیتا ہوں۔‘‘
سفر ہمیشہ عزت اور وقار کے ساتھ کریں یعنی ٹکٹ ضرور خریدیں کیوںکہ یہ ایک قومی فریضہ بھی ہے اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پولیس کے حوالے بھی کیا جاتا ہے۔ دورانِ سفر دروازوں کے پائیدان پر ہرگز کھڑے نہ ہوں۔ اگر سفر کے دوران رات آ جائے تو اپنے ڈبوں کی کھڑکیاں بند رکھیں تا کہ کسی بھی واردات سے محفوظ رہا جا سکے۔ ہمیشہ ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں اور بلا وجہ ہنگامی طورپر ٹرین روکنے والی زنجیر مت کھینچیں۔ اِسی طرح کچھ آداب ٹرین سے باہر والے لوگوں کے لیے بھی ہیں۔ مثلاً جب بھی سٹیشن پر پلیٹ فارم تبدیل کریں تو اووَرہیڈ پُلوں کا استعمال کریں تا کہ حادثے سے محفوظ رہا جا سکے۔ بذریعہ روڈ سفر کرتے ہوئے ریلوے لائن کراس کرنے کے لیے ہمیشہ پھاٹک کا استعمال کریں۔ پھاٹک بند ہونے کی صورت میں انتظار کریں اور ٹرین کے گزرنے تک لائن عبور نہ کریں۔
عمار جو کافی غور سے باتیں سن رہا تھا، بولا: ’’چچا جان ہم سب بچے آپ کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ویسے چچا جان ہمارے راستے میں کون کون سے سٹیشن آئیں گے؟‘‘
چچاجان: ’’بیٹا آپ کا سوال بہت دلچسپ ہے۔ لالہ موسٰی جنکشن سے لاہور جنکشن جاتے ہوئے راستے میں گجرات، وزیر آباد جنکشن، گکھڑمنڈی، گوجرانوالہ، کامونکی، مریدکے اور کالا شاہ کاکو جیسے شہر آئیں گے۔‘‘
عمار نے دوبارہ سوال پوچھا: ’’ چچا جان یہ جنکشن کیا ہوتا ہے؟‘‘
اکرم چچابولے: ’’بیٹا دراصل ریلوے جنکشن اُس سٹیشن کو کہا جاتا ہے جہاں سے معمول کی ٹرینوں کے علاوہ کسی اور طرف کو بھی ریلوے لائن جاتی ہو۔ جیسے لالہ موسیٰ جنکشن سے راولپنڈی اور لاہور کے علاوہ ایک الگ ریلوے لائن شاہینوں کے شہر سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین کی جانب جاتی ہے، اِسی طرح وزیر آباد جنکشن سے فیصل آباد بھی جاسکتے ہیں اور لاہور جنکشن سے راولپنڈی اور کراچی کے علاوہ شیخوپورہ بھی جایا جا سکتا ہے۔ بچو! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم تقریباً 3گھنٹے میں لاہور پہنچ جائیں گے۔ کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ اس مہینہ یعنی مارچ کے حوالے سے لاہور کی کیا خصوصی اہمیت ہے؟‘‘
ہانیہ نے جواب دیا: ’’جی چچا جان، مارچ کے مہینے کی 23 تاریخ کو ہم ہر سال یومِ پاکستان مناتے ہیں کیوں کہ 1940ء میں 23مارچ کو لاہور ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ہم اپنے لیے پاکستان کی صورت میں ایک الگ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘‘
’’شاباش بیٹی۔ ابھی ہم نے گجرات سٹیشن کراس کیا ہے، کیوں نہ میں آپ کو23 مارچ کی اس قرار داد کے حوالے سے کچھ تفصیلی معلومات دوں؟‘‘ اکرم چچا نے بچوں سے پوچھا۔
’’ضرور چچا جان!‘‘ سب بچے یک زبان ہو کر بولے۔
چچا جان مخاطب ہوئے: ’’پیارے بچو! ہر سال 23 مارچ کو سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ افواجِ پاکستان کی جانب سے بھرپور پریڈ منعقد کی جاتی ہے اور اس دن ہم یومِ پاکستان مناتے ہیں مگر گذشتہ سال عالمی وبائی مرض کرونا کے باعث یہ پریڈ بھی منسوخ کر دی گئی تھی۔ 23 مارچ کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ اگر ہم تحریکِ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد اُسی روز پڑ گئی تھی جس روز برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے بہت سے صوفیائے کرام بھی یہاں آئے۔ اُن کی تبلیغ اور اسلام کی خوبیاں دیکھ کر یہاں کے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور آہستہ آہستہ یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ مسلمانوں نے اپنے طویل دورِ حکومت میں بہت شاندار کام کیے، عمدہ عمارات بنوائیں، علم و ادب کو فروغ دیا، مواصلات کا بہترین انتظام کیا۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر بہت عرصہ بعد مسلمانوں کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انگریز برصغیر میں تجارت کے بہانے آئے اور آہستہ آہستہ حکومت پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ ہندوؤں نے بھی یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کی حکومت کا یہاں سے خاتمہ ہو جائے۔ اُن دونوں دشمنوں کی چالوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز یہاں مکمل طور پر قابض ہو گئے۔ مسلمانوں نے اُن کو اپنے وطن سے نکالنے کی کئی کوششیں کیں اور اس مقصد کے لیے انگریزوں سے بہت سی جنگیں بھی لڑیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی اس سلسلے کی آخری کوشش تھی جس میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا اور ملک مکمل طور پر انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ یوں کئی سو سال پر مشتمل مسلمانوں کی حکمرانی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ لیکن بچو 1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آرام سے بیٹھ گئے بلکہ ہم نے اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھا۔ ہمیں ایسے عظیم قائد مل گئے جنہوں نے ہماری رہنمائی کی اور جس کے نتیجہ میں بہت بعد ہمیں ایک آزاد وطن کی صورت میں پاکستان ملا۔‘‘
’’چچا جان 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد کیا ہوا تھا؟‘‘ اب کی بار حسن نے سوال کیا۔
چچا جان بولے: ’’دراصل ہوا یوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد برصغیر کے عوام بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ سختیاں اور زیادتیاں کی گئیں جن کے باعث مسلمان بے حد مایوس ہوگئے۔ اُن خراب حالات میں سر سید احمد خان ایک عظیم راہنماکے طور پر سامنے آئے۔ آپ نے مسلمانوں کی ٹھیک نہج پر تربیت شروع کر دی اورمسلمانوں کونہ صرف حوصلہ دیا بلکہ یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ وقتی طور پر خود کو سیاست سے دور رکھتے ہوئے انگریزی زبان سیکھیں اور جدید تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ اس ضمن میں انہوں نے خود بھی کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ علی گڑھ کالج کا قیام سرسید احمد خان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کالج 1877ء میں قائم ہوا۔ سر سید نے تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ سیاسی خدمات بھی سرانجام دیں۔ انہوں نے ہی مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس کے خفیہ ارادوں سے باخبر کیا کہ یہ انگریزوں کی قائم کردہ سیاسی جماعت ہے، مسلمان انگریزوں کی اس چال کو سمجھیں اور اس جماعت میں مت شامل ہوں۔ اِسی وجہ سے سر سید احمد خاں برصغیر میں دو قومی نظریے کے بانی کہلاتے ہیں۔
ایمل جو کافی دیر سے یہ باتیں سن رہی تھی، فورا ًبولی: ’’چچا جان یہ دو قومی نظریہ کیا ہے؟‘‘
اس کے ساتھ ہی ٹرین وزیر آباد جنکشن پر پہنچ گئی۔ ٹرین رُکی تو گرم چائے اور پکوڑے بیچنے والوں کی آوازیں آنے لگیں۔
چچا جان مسکرائے اور کہا: ’’بیٹی آپ کا سوال بہت اچھا ہے، میں ابھی اِسی جانب آنے والا تھا۔ ہم وزیر آباد جنکش پہنچ گئے ہیں۔ پہلے میں آپ لوگوں کے کھانے پینے کو کچھ لے آؤں۔‘‘
یہ کہہ کر اکرم صاحب تیزی سے نیچے اُترے اور سب کے لیے چائے اور پکوڑے لے آئے۔ اتنے میں ٹرین آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ چچا جان سب کو کھانے کا سامان تقسیم کرکے گویا ہوئے: ’’پیارے بچو! دراصل دو قومی نظریہ سے مراد ہے کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دوالگ الگ قومیں ہیں، جو مختلف عادات، معاملات اور ثقافتوں کے علم بردار ہیں۔ اسی وجہ سے سرسید نے مسلمانوں کے لیے پہلی مرتبہ قوم کا لفظ استعمال کیا اور یہ ثابت کیا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ اُنہی کے نظریات سے مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی۔ پھر نہ صرف مسلمان منظم ہونا شروع ہوئے بلکہ 1906ء میں، ڈھاکہ میں مسلمانوں کا اجتماع ہوا اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی۔ بعد میں قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اُس جماعت کی قیادت بھی قائد اعظمؒ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اُن کے ساتھ بہت سے رہنماؤں نے کام کیا۔ سرسید احمد خان کے بعد جن مسلمان رہنماؤں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور آزادی کے لیے کام کیا اُن میں محسن الملک، وقار الملک، مولانا محمد علی جوہر، سر آغا خان، علامہ محمد اقبالؒ، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، محترمہ فاطمہ جناحؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور بے شمار دوسرے رہنما شامل ہیں۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد جاری رہی۔ ہندو چاہتے تھے کہ ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہو جائے اور وہ جاتے ہوئے اقتدار و حکومت ہندوؤں کے ہاتھوں میں دے کر چلے جائیں لیکن مسلمانوں کو یہ بات قبول نہ تھی کیوں کہ اس طرح سے وہ غلام کے غلام ہی رہتے یعنی وہ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندووں کی غلامی میں آ جاتے۔ پھر اُن کی تہذیب و ثقافت، مذہب اور روایات کے تحفظ کا بھی کوئی امکان نہیں رہتا تھا۔
علامہ اقبالؒ نے 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبالؒ کا خیال تھا کہ برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب، سرحد، سندھ، بنگال اور بلوچستان کو آپس میں ملا کرمسلمانوں کا علیحدہ، آزاد اور خودمختار ملک بنا دیا جائے۔ آپ کے اس نظریے کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے بھی مسلسل جدوجہد کر کے ایسی صورتِ حال پیدا کی کہ مسلمانوں کو اُن کے حقوق حاصل ہو جائیں۔ اس سلسلے میں ہندوؤں اور اُن کی نمائندہ جماعت کانگریس کا رویہ نامناسب تھا۔ وہ مسلمانوں کو کسی قسم کی مراعات دینے کو تیار نہ تھے اور نہ وہ مسلمانوں کو قوم کی حیثیت سے تسلیم کرنے کو تیار تھے۔ انگریزوں کا رویہ بھی مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اُس کا عملی مظاہرہ 1937ء سے 1939ء کے درمیانی عرصہ میں دیکھنے کو ملا جب برِصغیر کے سات صوبوں میں کانگریس پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اُس جماعت اور اُس کے حواریوں نے مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کیں۔ جب ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تواس سے مسلمانوں میں علیحدگی کا احساس بڑھتا چلا گیا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ انہیں ہر حال میں اپنا علیحدہ وطن حاصل کرنا چاہیے۔اُس وقت مسلمان پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ یا بنگالی ہرگز نہ تھے اور نہ ہی کوئی مسلک تھا بلکہ صرف مسلمان تھے اور سب ایک تھے۔ قائد اعظمؒ نے بھی مسلمانوں کو زندگی کے تین راہنما اصول ایمان (Faith)، اتحاد (Unity) اور نظم و ضبط (Discipline) سے روشناس کر دیا تھا۔
سب سے پہلے 1938ء میں سندھ مسلم لیگ نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کامطالبہ کیا اور آخرکار مارچ 1940ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجتماع ہوا۔
قبل ازیں علامہ اقبالؒ نے 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے نام اپنے خط میں اُنہیں مخاطب کرکے لکھا کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کا مقصد سیاسی جد وجہد سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت ِاسلام اس جدوجہد کا مقصد نہیں تو مسلمان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس پیغام کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے نہایت سنجیدگی سے سمجھا اور قیام پاکستان کے لیے کوششیں انتہائی تیز کر دیں۔ آپؒ کی انہی کوششوں اور قربانیوں کے نتیجے میں 22دسمبر، 1939ء کو یومِ نجات منایا گیا اور قائدؒ نے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھایا کہ منزل بہت قریب ہے کیوں کہ قائد اعظم ؒجان چکے تھے کہ ہندو کے ساتھ گزارا ممکن نہیں اور ہندو ؤں کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمان اپنا اسلامی تشخص برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔ یوں قیامِ پاکستان کے لیے تمام تر کوششیں تیز کر دی گئیں۔
مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 21، 22، اور 23 مارچ 1940ء کو طے تھا جسے رکوانے کے لیے انگریز انتظامیہ نے دفعہ 144 کا نفاذ کر رکھا تھا تاکہ مسلمان اجلاس منعقدنہ کر سکیں اور جذبہ آزادی سے دستبردار ہو جائیں جو کہ مسلمانوں کے لیے ناممکن تھا۔ سو 19 مارچ کو جذبہ آزادی سے سرشار مسلمانوں نے کرفیو کو توڑا جس پر پولیس نے گولی چلائی اور نتیجے میں درجنوں مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ جلسے کی تاریخ بھی نزدیک تھی اور لاہور کی فضا بھی انتہائی سوگوار تھی مگر مسلمانوں کے حوصلے بہت بلند تھے اور وہ ہر حال میں اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پر عزم تھے۔

اتفاق سے 21 مارچ کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی ٹرین کے ذریعے ہی لاہور تک کا سفر کیا۔ آپ فرنٹیئر میل کے ذریعے دہلی سے لاہور روانہ ہوئے تھے۔ راستے کے تمام بڑے بڑے سٹیشنوں پر ریل گاڑی ٹھہرتی رہی اور قائد اعظمؒ کا نہایت والہانہ خیرمقدم ہوتا رہا۔ جب قائد اعظمؒ لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو وہاں بھی لاکھوں لوگوں نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا۔ قائد اعظمؒ ریلوے اسٹیشن سے سیدھا زخمیوں کی عیادت کرنے ہسپتال پہنچے اور عیادت کے ساتھ ساتھ اُن کے جذبے کی بھی داد دی جس پر کارکنانِ مسلم لیگ و مسلمانانِ ہند کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ آخر کار 23مارچ، 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں طے شدہ وقت پر عوام جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔ قائد اعظمؒ کے پہنچنے پر تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا گیاجس کی صدارت بھی قائد اعظمؒ نے فرمائی۔ جلسہ گاہ میں تِل دھرنے کو جگہ نا تھی۔ قائد اعظمؒ نے تقریبا ً 100منٹ تقریر کی۔ چوں کہ اس جلسے کا مقصد دو قومی نظریے کو اُجاگر کرنا تھا اس لیے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اور قرار دادِ پاکستان پیش کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے مذہب الگ ہیں، جن کی غمی خوشی،رسم و رواج اور رہن سہن الگ ہے۔ لہٰذا یہ دو قومیں ہیں اور ہم اپنے رہنے کے لیے الگ ملک پاکستان بنائیں گے ،جہاں تمام مذاہب کے لوگ مکمل آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں گے۔اس اجلاس میں شیرِبنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی جس میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اس قرارداد کی تائید مختلف صوبوں سے آئے ہوئے راہنماؤں نے کی جب کہ اس قرارداد کی اجتماعی منظوری ہندوستان کے تمام حصوں سے آئے ہوئے ایک لاکھ سے زائد افراد نے بھی کی جن میں سے بیشتر خواتین تھیں۔ دوسری جانب قرار دادِ لاہور نے ہندو قیادت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ گاندھی نے مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے اورتقسیم ِہند کی تجویز کو نا قابلِ عمل قرار دیا مگر قائد اعظمؒ نے ہندو راہنماؤں کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:
’’قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے حصے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پرمسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی موجود ہیں ۔‘‘
قائد اعظمؒ نے 23، مارچ 1940ء کو قرار دادِ لاہور کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا کہ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہیں، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہیں ۔ اُن کے ہیرو اور اُن کے کارنامے مختلف ہیں۔ دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایاکہ: ’’میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔‘‘
اس قرارداد سے برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین ہو گیا تھا اس لیے یہی قرارداد تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل قرار پائی۔ قراردادِ پاکستان منظور ہونے کے فقط سات سال بعد بے شمار قربانیوں کے ذریعے ہم اس قابل ہو سکے کہ انگریزوں اور ہندووں کی غلامی سے نجات مل حاصل کر سکے۔ یوں 14اگست، 1947ء کو ہمارا پیارا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ اِسی لیے 23مارچ کو ہم اس اہم قرارداد کی سالگرہ پر سارے ملک میں جشن منا تے ہیں، جس کی بنیاد پر ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان قائم ہوا۔‘‘
حسن نے سوال کیا: ’’چچا جان پاکستان کا نام کس نے اور کب تجویز کیا تھا؟‘‘
اکرم صاحب بولے: بیٹا ہمار ے پیارے ملک کا نام پاکستان 1933ء میں تحریکِ پاکستان کے ایک راہنما چوہدری رحمت علی نے اپنے ایک کتابچے میں تجویز کیا تھا جس کا نام ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ تھا۔ لیکن اس نام کو تقویت ہندو پریس نے دی۔ بعدمیں بھارت کے ہندو لیڈروں نے ’’قراردادِ لا ہور‘‘ کو ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا، جسے مسلمانوں نے قبول کرلیا۔ اس سب میں عجیب بات یہ تھی کہ جیسے جیسے پاکستان کا نام لکھ کر اُس کا مذاق اڑایا جاتا، ویسے ویسے پاکستان کا نام عام ہوتا جاتاتھا۔ بلاشبہ پاکستان کا قیام ایک تاریخی اقدام تھا اور اس سے ہمارے رہنمائوں کی بصیرت اور تدبرکا اظہارہوتا ہے۔ اس قرارداد کی بدولت ہی دنیا میں ایک مخصوص نظریے اور مذہب کی بنیاد پر دنیا کی سب سے پہلی ریاست قائم ہوئی۔ جس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قوم کو پیغام دیا تھا کہ:
’’ہمیں اپنی تمام کوششیں عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنا ہوں گی۔ آپ کو آزادی ہے کہ آپ اپنی مساجد میں جائیں، اپنے مندر میں جائیں یا جو بھی آپ کی عبادت گاہیں ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں میرا انتہائی اصول ہوگا: اسلام کا انصاف بغیر کسی تعصب اور نفرت، بغیر کسی جانبداری اور مفاد کے۔ ہمیں رشوت خوری کی لعنت اور اقربا پروری کے زہرکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہم رہنمائی حاصل کریں گے اُن سنہرے اصولوں سے جوہمارے نبی حضرت محمدﷺ نے بتائے۔ مجھے یقین ہے آپ کی مدد سے وہ سنہرا دن دُور نہیں جب پاکستان پوری دنیا کے نقشے پر ایک اعلیٰ حیثیت کا حامل ہوگا۔‘‘
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خداداد صلاحیت، فہم و فراست، عزم وجرات، یقینِ محکم اور عملِ پیہم سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت پاکستان کو نمایاں کیا۔
پیارے بچو! آج ہم اپنے اس ملک میں آزاد ہیں خودمختار ہیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں۔ ہم اپنے وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں، خود اپنی مرضی اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ ہمیں اسے برقرار رکھنے کی خاطر، اپنے ملک کی ترقی کے لیے بہت محنت اور لگن سے کام کرنا ہوگا۔ آزادی کی نعمت کے بارے میں کشمیری بہن بھائیوں سے پوچھیں جو اتنی دہائیاں گزرنے کے بعد اور بے شمار قربانیاں دینے کے باوجود بھی آج تک بھارتی مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ آزادی کے بغیر زندگی کی کیا حیثیت ہے، یہ کشمیریوں سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔اس لیے پیارے بچو ہمیں چاہیے کہ ہم اس قرارداد کی وجہ سے قائم ہونے والے پیارے ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے دن رات کام کریں اور اپنے وطن پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا دیں۔ 23مارچ کا یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کے اصولوں پر عمل کر کے ہی ہم نے اپنی منزل حاصل کی تھی۔‘‘
آخر میں اکرم صاحب بچوں سے مخاطب ہوئے: ’’جیسا کہ بچو آپ کے علم میں ہے کہ ہم کچھ ہی دیر میں لاہور سٹیشن پہنچ جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی بچہ قراردادِ پاکستان کے چیدہ چیدہ نکات گنوا دے۔‘‘
ہانیہ تیزی سے بولی: ’’چچا جان میں بتاتی ہوں۔‘‘
چچا جان بولے: ’’جی بیٹی آپ بتائیں تا کہ سب بچوں کو یہ نکات یاد ہو جائیں۔‘‘
ہانیہ حسبِ عادت انگلیوں پر گنتے ہوئے بولی: قرار دادِ پاکستان کے اہم بنیادی نکات میں یہ امور شامل تھے:
٭ تقسیمِ ہند کے علاوہ کسی دوسری تجویز کی نامنظوری
٭ آزاد اور مضبوط مسلم حکومت کا قیام
٭ کانگریس سے چھٹکارا حاصل کرنا
٭ تاریخی و جغرافیائی ضرورت
٭ مسلمانوں کی معاشرتی، ثقافتی، علمی و فکری ترقی
٭ قومی و ملی اتحاد اور اتحادِعالمِ اسلامی
چچا جان بولے: ’’بالکل ٹھیک بیٹی، آپ نے بہت خوب صورتی سے قراردادِ پاکستان کے اہم نکات کو بیان کر دیا ہے، سلامت رہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے اس سفر کے آخر میں تمام مسافروں، سامان اُٹھانے والے قُلیوں، رکشا اور ٹیکسی والوں، چائے خانے، ہوٹلوں اور پلیٹ فارموں پر ’’چائے چائے‘‘ ا ور ’’گرم پکوڑے‘‘ کی صدائیں لگانے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے اِس سفر کو آرام دہ اور خوش گوار بنایا۔‘‘

اتنے میں ریل کے انجن نے وِسل بجائی اور بچوں نے کھڑکی سے لاہور سٹیشن کا پلیٹ فارم دیکھ کرخوشی سے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ جیسے ہی گاڑی رُکی، اکرم صاحب اور بچوں نے اپنا اپنا سامان سمیٹا اور پلیٹ فارم پر اُتر گئے۔ تمام بچوں کے چہرے ہشاش بشاش تھے اور سب وطنِ عزیز کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ لیے چچا جان کے گھر کی جانب رواں دواں تھے۔