سفرنامہ ’’جادو نگری میں اذان‘‘ ایک جائزہ – حسنین نازشؔ

سفر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’مسافت کرنا ‘‘ کے ہیں۔ سفری داستان کو لکھنا سفرنامہ کہلاتا ہے جس کا مقصد قارئین کو اپنے سفری حالت و واقعات سے آگاہ کرنا ہے۔ عام قاری کے اندر دیارِ غیر کے بارے میں آگہی فراہم کرنا اور سفری داستان گوئی سفرنامے کے مقاصد ہو سکتے ہیں۔
سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آپ بیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی۔
انسان کی زندگی میں جیسے ایک ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ مستقل طور پر قیام کر سکے۔ جو اس کے لیے وجہ سکون و قرار ہوتی ہے۔ وہیں قدرت نے اس کے ساتھ مختلف ایسی ضروریات بھی رکھی ہیں کہ اسے گاہے گاہے اپنی قیام گاہ کو چھوڑنا اور دوسرے مقامات کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں سفرکے احکام خاص طور سے ذکر کیے گئے ہیں۔ سفر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ’’سیروا فی الارض‘‘ کا حکم دے کر سفر کی ترغیب دی گئی ہے۔ نیز احادیث میں بھی بہت سے مقاصد مثلاً جہاد اور علم وغیرہ کے لیے سفر کرنے کی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔ اسی لیے انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی اسفار کیے۔ قرآن مجید میں حضرت موسٰیؑ اور حضرت خضرؑ کا سفرنامہ موجود ہے، کسی قدر اختصارکے ساتھ حضرت ابراھیمؑ اور حضرت موسٰیؑ کے اسفار کا بھی ذکر آیا ہے۔ حدیث میں ہجرت یعنی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کے آپﷺ کے سفر کی تفصیلات اس خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں کہ وہ واقعہ نگاری کا ایک شاہکار ہیں۔ رسول کریمﷺ نے اپنے آسمانی سفر یعنی واقعہِ معراج کو تفصیل کے ساتھ نہایت خوبصورت اور دلچسپ پیرایہ میں بیان فرمایا ہے، جو یقیناً ایک ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
سفرنامہ دراصل ایک با شعور سیاح کے ان تجربات، مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہوتا ہے جو اس نے دوران سفر محسوس کیے ہوں اور اسے سفر کے دوران یا اختتام سفر کے بعد رقم کیا ہو۔
محمد اکبر خان کا سفرنامہ ’’جادو نگری میں اذان‘‘ کتابی صورت میں ہاتھ آیا، جسے مصنف نے سری لنکا کا ایک اچھوتا سفرنامہ قرار دیا ہے۔ یہ سفر نامہ ایک روزنامچہ نہیں بلکہ ہئیت کے اعتبار سے اکیس روزہ سفر کی ایسی داستان ہے جو نہ تو داستان ہے، نہ ناول اور نہ ہی ادب کی کوئی دوسری صنف۔ یہ ایک مکمل سفرنامہ ہے۔ سفرنامے کا دیباچہ بلکہ اسے مقدمہ کہیں تو بے جان نہ ہوگا سفرنامہ نگار نے خود ہی لکھا ہے اور شروع ہی میں لکھ دیا کہ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، فاصلے سمٹ چکے ہیں۔‘‘ یوں جانیے کہ اس سفر نامے نے پاکستان اور سری لنکا کے عوام کے دلوں میں حائل فاصلے مٹا دینے کی خوب کوشش کی ہے۔ انورادھاپورا کے ریلوے سٹیشن کی منظر کشی میں قاری خود کو اسی ریلوے سٹیشن پر کھڑا محسوس کرتا ہے جہاں گرمی کی شدت سے نہ صرف سفرنامہ نگار بلکہ قاری کا جسم بھی پسینے سے شرابور ہونے لگتا ہے۔
دیارِ غیر مسلم میں سفرنامہ نگار ایک عام مسلمان کی طرح جب اللہ اکبر!، اللہ اکبر! کی صدائیں مسجد کے میناروں میں نصب سپیکروں سے پھوٹنے ہوئے سنتا ہے تو دل اللہ کی کبریائی کی پھر سے تصدیق کرنے لگتا ہے اور قدم خودبخود اس آواز کی سمت ایسے چلنے لگتے ہیں جیسے کہ صورِ اسرافیل پھونکا گیا ہو، یہی سب محمد اکبر خان کے ساتھ بھی ہوا۔ یہی اذان اس سفرنامے کے عنوان کا باعث بنی۔
ایک اچھے سفرنامہ نگار کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو بھی سفرنامے میں سمودے جس سے وہ گزرتا ہے، بہ الفاظ دیگر سفرنامہ صرف تاریخی واقعات اور جغرافیہ کے اعداد و شمار سے پُر نہ ہو جائے بلکہ اچھا سفرنامہ وہ سفر نامہ کہلاتا ہے جس میں جغرافیائی کیفیت و تاریخی واقعات کے ساتھ فطری مناظر کے اسرار کی کیفیات بھی مکمل طور پر سامنے آتی ہوں۔ ’’جادو نگری میں اذان‘‘میں ایسا تاثر بار بار قاری پر طاری ہوتا ہے جب وہ خود کو سری لنکا کے شہروں اور جنگلوں میں خود کو پاتا ہے۔
محمد اکبر خان نہ صرف ایک سفرنامہ نگار ہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک اچھے سیّاح بھی ہیں کیوں کہ ایک مسافر اپنا ایک مقصد لے کر سفر کرتا ہے، اس کی نگاہ صرف اپنے مقصد پر ہوتی ہے جب کہ ایک سیّاح اپنے مقصد پر نظر رکھنے کے بجائے گرد و پیش پر نظر رکھتا ہے۔ یوں اس سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے مطالعے سے قاری بھی سیّاح کے ساتھ سفر میں شامل ہو جائے اور تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
محمد اکبر کے سفرنامہ میں منظر نگاری کے سا تھ ساتھ وقائع نگاری کا رنگ بھی واضح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا تذکرہ سفر نامہ نگار کر رہا ہے، جس چیز کی منظر نگاری کی جارہی ہے، وہ چیز حقیقتاََ موجود بھی ہے۔
سری لنکا کی تاریخ اور سیاست پر ایک اُچٹتی ہوئی نظر بھی ہمارے سفرنامہ نگار نے ڈالی جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ پانڈوں کا تجارتی عروج، بادشاہوں کے حملے اور پھر شہزادوں کے مابین تخت حاصل کرنے کی کشمکش جس نے سلطنت کے بخیے ادھیڑ دیے، یہ سب اجمالی قصے سفرنامہ نگار کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے۔
’’جادو نگری میں اذان‘‘ کا ایک اور خاصیت اس میں سجے سجائے اور رچے بسے چھوٹے بڑے کردار ہیں۔ یہ کردار قاری کو کبھی اصلی معلوم ہوتے ہیں اور کبھی فرضی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کسی شخص کا نام لے کر اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تو پھر اس جیسا کوئی فرضی کردار تراش لیا جاتا ہے اور اس کردار سے وہ ساری باتیں کہلوا دی جاتی ہیں یا اس کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں۔ کردار سازی میں اس کردار کا حلیہ، نین نقش، چال ڈھال، شکل صورت، وضع قطع، بولنے کا انداز حتیٰ کہ ہر ہر چیز ضروری چیز کو لکھا جاتا ہے. ایسے ہی کردار ’’جادو نگری میں اذان‘‘میں چلتے پھرتے، گھومتے گھامتے، کھاتے پیتے اور رومان کرتے نظر آتے ہیں۔
منظر نگاری، کردار سازی کے بعد مکالمے کا بھی اس سفرنامے کی جان ہیں۔ سفرنامہ نگار نے جب اور جہاں مناسب سمجھا، بیانیہ اسلوب سے نکل کر مکالماتی فضا میں کرداروں کے مابین مکالمے کروائے۔ سراندیب کے مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل ایک پڑھنے اور سمجھنے لائق باب ہے۔ سری لنکا میں بائیس روزہ قیام کے دوران محمد اکبر خان نے سات شہروں کی سیاحت کی۔ سفرنامے کے عنوان اور بعض صفحات پر قرآنی آیات اور مذہبی روایتوں کا تذکرہ چغلی کھا کھا کر کہتا ہے کہ سفرنامہ ’’جادو نگری میں اذان‘‘ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور ایک صوفی منش لکھاری کا لکھا ہوا سفرنامہ ہے۔
آخر میں میں یہ کہوں گا کہ محمد اکبر خان کے اندر اخلاقی بصیرت بدرجہ اتم موجود ہے، اس لیے ان کی تحریر میں جاذبیت ہے۔ اس سفرنامے کو پڑھا جائے گا اور مستقبل قریب میں اور اللہ کرے مستقبل بعید میں بھی، یہ سفرنامہ تحقیق کا ایک معتبر حوالہ ہو گا۔ یہ سفر نامہ قاری کے اندر ایک محقق کی سی جستجو پیدا کر دیتا ہے کیوں کہ سری لنکا کی تہذیب، سیاست اور تاریخی حوالوں کے تذکرے قاری کو تاریخ کے صفحات الٹنے کی جدوجہد میں ڈال دیں گے۔


محمد اکبر خان 21 جنوری 1978ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے. یونیورسٹی آف بلوچستان سے حیاتیاتی کیمیا میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ایم بی اے (مارکیٹنگ) کی ڈگری حاصل کی. کالج کے میگزین سے اُردو اور انگریزی میں لکھنے کا آغاز کیا. اُردو ادب سے دلچسپی نے ایم اے اُردو کی طرف راغب کیا.
اس وقت بلوچستان کے مقامی کالج میں اُردو کی تدریس پر مامور ہیں. شاعری کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اسی بنیاد پر بے شمار مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں. آپ کئی ملکی اور بین الاقوامی ادبی تنظیموں سے منسلک ہیں.

ان کا ایک سفرنامہ ”نیشاپور سے کوالالمپور” 2015ء میں لاہور سے شایع ہوا جس میں تھائی لینڈ، ملائیشیا اور ایران کی سیر کا حال درج ہے.
مختلف اخبارات و رسائل میں بھی محمد اکبر خان کے کئی مضامین، غزلیات شایع ہو چکے ہیں. سیاحت اور شاعری ان کے مشاغل میں شامل ہیں.
“جادونگری میں اذان‘‘ ان کا دوسرا سفرنامہ ہے جو سری لنکا کے اکیس روزہ سفر کے دلچسپ حالات و واقعات پر مشتمل ہے جس میں جزیرہ سراندیپ کی تہذیب و ثقافت، طرز معاشرت اور تاریخ کی جھلک دکھائی دیتی ہے. اس سفرنامے میں ایک سیاح کے مشاہدات بھی ہیں اور جذبات و احساسات کی رنگ آمیزی بھی. سری لنکا کے دارالحکومت کی منظر کشی اور وہاں کے ساحل کی عکاسی دل آویز انداز میں تحریر کی گئی ہے. اس کتاب کو پاکستان کے معرقف اشاعتی ادارے ”فیروز سنز، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 595 روپے مقرر کی گئی ہے.
ادارہ ”کتاب نامہ‘‘، محمد اکبر خان کو نئی کتاب ’’جادو نگری میں اذان‘‘ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہے اور مستقبل میں بھی ان کی ترقی اور کامیابی کے لیے دعا گو ہے.