خرد افروز اٹھارویں صدی کی مشہور عقلیائی تحریک ہے، جو نیدرلینڈز (ہالینڈ) اور فرانس میں شروع ہوئی۔ خرد افروز سے مراد عقل کی روشنی کرنا یادانائی کی افزدگی کرنا ہے۔ اٹھارویں صدی کی عقلیاتی تحریک کو ’’علی عباس جلالپوری‘‘ نے خرد افروزی تحریک کا نام دیا اور اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اس دور کے فلاسفہ کے پیش نظر دو بصب العین تھے: (i)عقلیت، (ii) انسان دوستی.
وہ اس شاندار عقلیاتی ہیجان کے وارث تھے جو احیاء العلوم کے دوران میں یورپ میں ابھرا تھا ان کی اولیات یہ ہیں کہ انہوں نے فکروتدبیر کی روشنی کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ علماء اور ماہرین کی بجائے عام عورتوں اور مردوں کو مخاطب کیا اور اعلان کیا کہ تہذیب و تمدن اور علوم وفنون تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ میراث ہیں وہ مذہب سے بدظن تھے لیکن انسان ہر کامل اعتماد رکھتے تھے۔‘‘
Rationalism یعنی عقلیت و خرد افروز سولہویں، سترھویں اور اٹھارویں صدی کے مغربی سائنسی ارتقار کے بغیر فلسفہ عقلیت کی نشونما اور پھیلاؤ ممکن نہ تھا اور پھر بعد میں جدید سائنس کی اولیات کے ظہور کے بعد اٹھارہویں صدی کے یورپی معاشرے میں روشن خیالی (Enlightenment) تحریک شروع ہوئی جس نے عقل ودانش کی برتری، انسانی وقار کے تحفظ اور فلاح وبہبود، مادی ترقی کو ممکن بنایا اور روایت کی بالادستی، کلیسائی پاپائیت کو سیاسی، مذہبی معاملات سے نکالنے کا تقاضا کیا۔‘‘
ڈچ فلاسفر ’’سپائی نوزا‘‘ (Baruch Spinoza) اور فرانس میں ’’پائرے بیل‘‘ (Pierre Bayle) کو اس کا پیش رو سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے مذہبی معاملات میں تحمل وبرداشت اور ذہنی وعقلی کشادگی کی ضرورت محسوس کی اور 1697ء میں ایک تاریخی انتقادی ڈکشنری مرتب کی جس کے بعد ’’برنارڈلی بوائز‘‘، ’’ڈیکارٹ لبینز‘‘ اور ”نیوٹن‘‘ (Newton) نے عقلیات کو رواج دیا۔
مغرب میں صدیوں تک عوامی جذبات و احساسات کا استحصال کرنے والی کلیسائی پاپائیت سے ستون پر قائم روایتی مذہبات والہیات کا استرار دار روشن خیالی تحریک کا نصب العین رہا ہے۔ اس تحریک نے کلیسائی حاکمیت کو چیلنج کیا۔ بڑھتی ہوئی ذہنی کشادگی نے پاپائیت، روایت پرستی اور ذہنی ومعاشی استحصال کے خلاف فکری مزاحمت کو ممکن بنایا۔ اس تحریک نے بادشاہوں اور پاپاؤں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی اور عوامی اضطراب نے مغرب کو تبدیل کرنے میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا اور انسان کو ازخور غوروفکر کرنے اور رائے قائم کرنے کے قابل بنایا۔ بلکہ مذہب کی تاریخ میں قرآن پہلا صحیفہ تھا جس نے شروع سے آخر تک بار بار انسان کو غوروفکر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے مطالعہ فطرت کی ترغیب دی۔ انسان کے علم و قلم کو خاص نعمت قرار دینے اور حیات و کائنات کے سربستہ رازوں کے علم و عرفان کی صلاحیت کو انسانی فضیلت کا معیار ٹھہرا دینے سے وہ روحانی بنیاد قائم ہوئی جس پر مشرق میں مسلم فکر فلسفہ اور علوم عقلی کی عمارت تعمیر کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ مفاد پرست طبقات نے تاریخ میں مذہب کو استعمال کیا۔ اس میں مشرق و مغرب دونوں شامل ہیں۔ مذہب ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ بے خدا رہے یا خدا پرست لیکن کسی کو اپنے عقیدے یا نظریے دوسروں پر ٹھونسنے کا حق نہیں، اسے اپنے محدود اور تنگ نظر رویوں پر نظرثانی کرنا ہوئی اور اردو ادب میں یہ نظریہ ’’علامہ نیاز فتح پوری‘‘ نے سمجھایا. نیاز کا مذہب کے بارے میں خیال ہے کہ:
”مذہب کی ایسی تعریف کرنا جو تمام مذاہب کے جملہ روایتی معتقدات پر حاوی ہوا بہت مشکل ہے تا ہم بنیادی طور پر کیا جاسکتا ہے کہ مذہب نام ہے انسان کے احساس بیچارگی و پر سنش کا. پھر مذہب نام صرف ذہنی احساس ہی کا نہیں بلکہ اس کے زیر اثر کردار ردِ عمل کا بھی ہے جیسے اصطلاح میں شعار کہتے ہیں۔‘‘
نیاز فتح پوری مذہب سے زیادہ اخلاقیات کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیاز فتح پوری کے نزدیک مذہب اور اخلاقیات کا ایک دوسرے سے لاابدی، ناگزیر کوئی متعلق نہیں۔ یہ ایک دوسرے سے الگ ہیں کہ ایک غیر مذہبی شخص بھی سماج اور انسانیت کے لیے اچھا اور نافع ثابت ہوسکتا ہے۔ برعظیم میں ’’سر سید احمد خاں‘‘ نے اس خیال کو اپنایا اور جو یہ نیاز کے یہاں بھی موجود ہے۔ سر سید احمد خاں ایک روشن خیال مفکر اور روشن خیالی ان کی تحریک کی اساسی خصوصیت تھی۔ سر سید نے پہلی بار آیاتِ قرآنی کو عقلی زاویہ نظر سے دیکھنے پرکھنے کی روایت قائم کی۔ ان کی تفسیر وتعبیر کی بنیاد اس یقین پر تھی کہ خدا کا کلام نہ صرف یہ کہ غلط نہیں ہوسکتا بلکہ عقل و فہم سے بھی متعارض میں نہیں ہوسکتا اور عالم فطرت اور کلام خدا وندی میں کوئی تضاد نہیں اور اسی طرح سر سید احمد خاں کی فطرت پسندی نے جس طرح ان کے مذہبی تفکر کو ایک خاص رخ عطا کیا۔ اسی طرح انہوں نے نیچرل شعرو ادب کو پیش کیا جس کی نمائندگی ’’الطاف حسین حالی‘‘ نے کی اور ان کی تنقیدی تصورات پر مبنی کتاب ’’مقدمہ شعر وشاعری ‘‘(1893ء) ہے۔ اور اسی طرح سر سید احمد خاں اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے عورتوں کی تعلیم و حقوق میں کچھ نہ کر پائے تو ان کے رفیق ’’ڈپٹی نذیر احمد‘‘ نے اس مقصد کو پورا کیا. انہوں نے اپنے قصوں میں عورتوں کی اس قدر روایتی تعلیم کا پرچار کیا جو انہیں گھریلو امور اور تربیت اولاد میں مدد دسے سکے۔
سر سید کی تحریک عقلیت، مقصدیت اور تفکر استدلال کی تحریک تھی اور انہوں نے اس تحریک میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔ سر سید نے روایتی جمود زدہ مذہبی افکار کے لیے جدید مغربی عقلیت پسندانہ نظریات اور سائنسی علوم کی مبارزت کو محسوس کرکے نیا علم الکلام مرتب کرنے کی ضرورت محسوس کی لیکن روشن خیالی تحریک کے ایک اور بانی اقبال نے فلسفہ و سائنس اور مذہب میں تطبیق کے اصول کی بنیاد رکھی. اقبال کے معاملات فکر نے سیاسی اعتبار سے مسلمانانِ پسند کی اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
اقبال نے اپنی بے مثال شعری صلاحیت سے کام لے کر رومانیت سے ولولہ انگیز تصورات وافکار کی پیش کیے۔ اقبال ذہنی اور سیاسی غلامی کے مقابلے میں آزادی و حریت، فکر وعمل، روشن خیالی اور تقدیر پر مبنی کے داعی ہیں۔ وہ ماضی پرست نہیں لیکن ماضی کے خلاف بھی نہیں ہیں۔ اگرچہ رہن و سیاست، آزادی و غلامی اور مغرب کی قبولیت کا موقف سر سید سے مختلف ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں کا زمانہ سیاسی وسماجی حالات اور ذہنی و فکری اعتبار سے مقصدیت پسندانہ تناظر میں سر سید کی تحریک سے رشتہ استوار رکھتے ہیں. دونوں کی نظر مسلم فکریات کے انحطاط جمود کے اسباب و عوامل پر ہے۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن لکھتے ہیں کہ:
’’یہ کام مہتم بالشان حیثیت کا حامل ہے۔ اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو یا بالفاظ دیگر نئے علم کلام کی تخلیق۔ اقبال وہ کام کرکے علی گڑھ لائے ہیں حواس ادارے کے عظیم بانی کی دلی خواہش تھی. سر سید کے مزار پر اس سے بہترنذرانہ عقیدت اور کیا پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔
بیسویں صدی میں اردو کے فکر ادب اور عقلیات کے منظرنامے پر کچھ ایسی شخصیات رونما ہوئی جن کے افکار میں جدید سیاسی، سماجی معاشی فکر و فلسفہ سائنسی و سماجی علوم و فنون، انسانی تجربات و مشاہدات جیسے فکری عناصر کا شمول ہوا۔ ان مفکرین میں نیاز فتح پوری، سبط حسین، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر منظور احمد ہیں۔ انہوں نے خرد افروزی اور روشن خیالی کا پرچم ایک ثابت قدم مجاہدوں کی طرح تھامے رکھا اور اردو ادب اردو کی عقلیت پسند، روشن خیالی، فکری ادبی روایتکے حوالے سے ان کے کاموں کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ نیاز نے جس زمانے میں عقلیت کی صدا بلند کی وہ دور تعقل پسندی (The age of reason) کے نام سے موسوم تھا۔ یورپ کی صنعتی و سائنسی ترقی اور جدید انکشافات اور ایجادات کے سبب سائنس کو مذہب کا مخاطب قرار دے دیا گیا۔ لیکن نیاز نے قدامت پسند رجحانات پر پھر پور تنقید کی اور قرآن مجید کی تعمیری تفسیر سے علماء کے روایتی اور جامد تصورِ مذہب کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔
اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ اسلام کے خلاف تھے بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ ان کو ہر اس شخص سے اختلاف تھا جو اسلام کی روحانی اہمیت کا قائل نہ تھا اور اسے الفاظ کے شکنجے میں محدود کردینا چاہتا تھا۔
سبط حسن کے خرد افروز اور روشن خیال تصورات و افکار عصر حاضر کے علمی و سائنسی حقائق، عالمی تہذیبی و تمدنی تقاضوں اور سماجی ضروریات سے ہم آہنگ ہیں۔ وہ مارکسی اشتراکی مکتب فکر کی روایت سے تعلق رکھتے تھے جس میں انقلابی عمل کو سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے پرولتاری طبقے کو سماجی انقلابات کی ماری اساس قرار دے کر اس کی شعور پذیری اور قیامت کو ناگزیر خیال کیا جاتا ہے۔ سبط حسن قرون وسطی کی ہندوستانی تاریخ میں شریعت، مذہب و ریاست کے تصادم اور مسلم حکمرانوں کے سیکولر طرز عمل، وحدت الوجودی تصوف کی زائیدہ روشن خیال، نے تعصب، انسان دوست تہذیبی و ادبی روایت کو اپنی مختلف تحریروں میں اجاگر کرتے ہیں۔ سبط حسن کو پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ کا گہرا مطالعہ تھا۔ ان کے علمی، ادبی، سماجی سائنسی اور سیاسی نظریات نے ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ سبط حسن ان ترقی پسند دانشوروں میں سے تھے جو کہ مختلف سماجوں کے تضاد کو سمجھنے کے بعد ان کا جدلیات کی بنیاد پر تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں اور اسی طرح ڈاکٹر مبارک علی ایک روشن خیال مفکر، فلاسفر اور تاریخ دان ہیں اور ان کا علمی شعبہ تاریخ ہے وہ تاریخ کو محض بادشاہوں، حکمرانوں، سیاسی خاندانوں اور محلاتی سازشوں تک محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ عوام کو تاریخ کا اصل موضوع اور مواد سمجھتے ہیں۔ عام عقیدت آمیز مفروضوں کی واقعیت کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں اور ان کی حقیقت سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں. وہ سامراجی دور کے تواریخ میں جنگجو اور غیر جنگجو نسلوں کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کے یہاں جاگیردارانہ نظام، ثقافت یا روایت و اقدار کی قباحتیں بھی سیاسی، سماجی پسماندگی کے ایک بہت اہم سبب کے طور پر موضوع بنتی ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی عوام میں تاریخی شعور بیدار کرتے ہوئے اس امر پر روز دیتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کو ان طبقائی مفادات کی زنجیروں سے آزاد کرایا جائے اور اسے تنگ و محدود دائرے سے نکال کر آزاد اور وسیع و کھلی فضا میں لایا جائے تاکہ اس کے ذریعے سوتے ہوئے عوامی شعور کو بیدار کیا جاسکے۔
ڈاکٹر مبارک علی کے خیال میں زبان کی تبدیلی کے لیے دیگر عوامل بھی درکار ہوئے ہیں جن میں بالخصوص ایسی تعلیم اہمیت رکھیت ہے جس کی بنیاد روشن خیالی ہر ہوتا کہ تاریخ کا طالب علم روایتی، سکہ بند کلیہ زندگی سے آزاد ہوکر نئی آگہی کے ساتھ مطالعہ تاریخ کے قابل ہو۔ لیکن نظام تعلیم نوجوانوں کو تنگ نظر اور متعصب بنا رہا ہے اور دانشور بھی نظریاتی مملکت، جمہوریت، سیکولرازم، برازم وغیرہ کی افادیت و نقصان پر مباحث کی بجائے افکار اقبال اور قائدِ اعظم سے سند لاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’معاشرہ کا ہر فرد با صلاحیت ہوتا ہے. اگر تعلیم صحت اور مواقع کے مطابق اس کی توانائی کو استعمال کیا جائے تو وہ معاشرے کی ترقی میں حصہ لیتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر مبارک علی معاشرے کے ہرفرد کو باصلاحیت قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو پستی کا احساس سرسید نے دلایا اور ان کی تحریک کے نتیجے میں وہ یہاں سے کہتے ہیں کہ رسالہ ’’بغاوت ہند‘‘ سر سید سے لکھوایا گیا ہو۔ ڈاکٹر مبارک علی خیال ہے کہ :
انگریزوں کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے سماجی طور پر خود کو منظم کیا جائے چنانچہ ہوا یہ کہ 1885ء میں جب کانگرس قائم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی سماجی اصلاحات کا پروگرام کمزور ہوگیا اور اب جولیڈرشپ ابھری اس کا مقصد سماجی سے زیادہ سیاسی اصلاحات اور سیاسی مسائل تھے۔ تقسیم کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں نے سماجی اصلاحات یا عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں دلچسپی نہیں لی اور اپنی ساری توجہ سیاسی و مذہبی امور پر رکھی‘‘۔
ڈاکٹر مبارک علی کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصب سے خود کو دور رکھتے ہیں لیکن وہ صرف اصل حقیقت سے پردہ اٹھا کر تاریخ کی حقیقی اور صحیح تصویر عوام کے سامنے لے کرآئے ہیں اور یہی تاریخ کی وہ تفسیر ہے جو عوام میں شعور و آگہی اور تاریخی شعور بیدار کرے گی۔

اقصی’ عباس کے مضامیں پڑھتا رہتا ہو ں۔ محنت سےلکھتی ہے ذہین اور باشعور طالبہ ہے۔ مجھے یقیق ہے کہ یہ مستقبل میں ایک نمایاں مقام حاصل کرے گی۔۔
اچھا لکھتی ہیں!لکھنا کمال نہیں ہوتا پڑھ کر لکھنا کمسل ہوتا ہے اپنے مطالعے کی روشنی میں لکھنا ہی اصل تحریر ہوتی ہے داد کا تحفہ