زہرا تنویر کا پہلا افسانوی مجموعہ ”من کی آواز‘‘ – سید حامد علی

کہانی کہنے کا فن، انسان کے بولنے کا ہنر سیکھنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ دنیا کی پہلی کہانی کون سی تھی؟ کس زبان کی تھی؟ داستان گو کون تھا؟ سننے والے کا نام کیا تھا؟ یہ سب انسانی تاریخ کے کہرے میں چھپا ہے۔
اُردو ادب میں میر امن کے باغ و بہار، محمد حسین جاہ کے طلسم ہوشربا اور رجب علی بیگ سرور کے فسانہ عجائب سے ہوتے ہوئے سجاد حیدر یلدرم کے اولیں افسانوں سے پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں ہونے والی ادبی تحریکوں کے نتیجے میں تفریحی جمالیاتی افسانے سے سماجی و افادی افسانوں تک…
یا یوں کہیے کہ
منشی پریم چند کے کفن سے شروع ہو کر غلام عباس کے آنندی تک کرشن چندر کے پالنا سے بیدی کے بھولا قاضی عبدالستار کے پیتل کا گھنٹہ سے لیکر شوکت صدیقی کے جھیلوں کی سرزمین تک…
احمد ندیم قاسمی کے کپاس کا پھول سے اشفاق احمد کے گڈریا تک…
عصمت چغتائی کا گیندا اور منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ رام لال سے آغا بابر تک، سیکڑوں پڑاؤ ہیں۔ اردو ادب کے آسمان پر ایک کہکشاں ہے جو افق تا افق جگمگا رہی ہے کچھ ستارے بہت روشن ہیں اور کچھ رہ نما ہیں۔
”من کی آواز‘‘، یہ زہرا تنویر صاحبہ کی کہی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ ہے. اس کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب کی ایک بات جو انہوں نے پطرس بخاری صاحب کی مزاحیہ تحریریں پطرس کے مضامین کا دیباچہ پڑھ کر کہی تھی کہ جو مزاح نگار اتنا خوبصورت دیباچہ لکھ سکتا ہے اس کے مضامین اُردو ادب میں کیا گل فشانی کریں گے؟
افسانوں کی اس کتاب کے عنوان کو دیکھ کر بالکل یہی خیال میرے ذہن میں آیا کہ جب نام اتنا خوبصورت ہے تو کہانیاں بھی اپنے دامن میں نجانے کن کن کرداروں کے من کی بات لیے ہوں گی۔ اور سچ جانیے تو ہمارے گھروں میں اور معاشرے میں اردگرد بکھرے یہ کردار اپنے من کی بات کہنا چاہتے ہیں لیکن بوجوہ کہہ نہیں پاتے۔
من کی بات کہنے والوں میں شامی بھیا کا کردار ہے جو زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے کچھ بھی کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ وہ مشکلات سے ہار نہیں ماننا چاہتا لیکن زندگی سے ہار جاتا ہے اور پھر سماج کا وہ دوغلا چہرہ سامنے آتا ہے جہاں زندہ کو اس کی زندگی میں نظر انداز کرکے مرنے کے بعد اس کے نام پہ دیگیں چڑھائی جاتی ہیں۔
زہرا تنویر نے اس کہانی کے آخر میں ایک جھنجوڑنے والا اختتام لکھا ہے کہ:
”وہ آدمی جس کی زندگی دو وقت کی روٹی کی فکر میں گزر گئی اس کی روح کو ختم کے کھانے کی خوشبو جا رہی تھی۔‘‘
انسان کی جبلت اور جذبوں پہ بہت کچھ لکھا جا چکا۔ پیار، محبت، عشق، نفرت، حقارت اور کمتری طاقت غلبہ اور برتری سب اس کے پہلو ہیں. خوف و شجاعت، نرم دلی و بربریت، دوستی رشتے ناطے، سچ جھوٹ، تاریکی روشنی، جسم اور روح، حقیقت اور خواب۔
یہ سب اور اس سے زیادہ۔ پھر بھی زندگی کا کوئی گوشہ، نفسیات کا کوئی پہلو، انسانی رویے کا کوئی رُخ، تشنہ رہ جاتا ہے جسے افسانہ نگار اپنا موضوع بناتا ہے۔ پھر اس میں کہانی کہنے والے کا مشاہدہ، تخیل اور قوت بیان شامل ہو جاتے ہیں۔
موضوع کا انتخاب عصری تقاضوں کا تابع ہوتا ہے جیسے منشی پریم چند نے اپنے افسانہ لکھنے کی تکنیک بیان کرتے ہوئے کہیں لکھا تھا کہ میں مشاہدے کے زور پر اگر معاشرے کی اصلاح کا کوئی پہلو دیکھتا ہوں تو اس پر لکھ لیتا ہوں۔
غلام عباس کوئی ایک موضوع لے کر اس پہ اپنے تخیل سے عمارت تعمیر کرتے تھے۔
ترقی پسند مصنفین، جن میں کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور سجاد ظہیر خاص طور پر سماجی رویوں پہ کہانی بنتے تھے۔ شوکت صدیقی قاضی عبدالستار اور انتظار حسین کا انداز داستان گو کا تھا۔ ابوالفضل صدیقی، سید رفیق حسین اور احمد ندیم قاسمی نے دیہاتی پس منظر میں خوب لکھا بلکہ سچ یہ ہے کہ سید رفیق حسین نے تو جنگل اور جانوروں کو موضوع بنایا اور فقط آٹھ افسانے لکھ کر اُردو ادب میں امر ہو گئے۔
منٹو نے اپنے گہرے مشاہدے اور کاٹ دار قلم سے معاشرے کے دھرے نقاب کو خوب نوچا۔ قرة العین حیدر نے معاشرے کے بالائی طبقات پر بہت کچھ لکھا۔ عصمت چغتائی نے جنس جیسے شجر ممنوعہ پہ قلم اٹھایا۔ بیدی نے معاشرے کے سلگتے ہوئے عنوان چنے۔ صنعتی ترقی اور سماجی شکست و ریخت نے نئے موضوعات کو جنم دیا۔
یہ شمع سے شمع جلتی ہوئی زہرا تنویر تک پہنچی ہے۔ ان کی کہانیوں کا خمیر خاندان کے تانے بانے اور رشتوں سے اٹھا ہے۔
زہرا تنویر یہ کھڑکی کسی بھی آنگن میں کھول دیتی ہیں اور وہیں سے قاری کو اس پڑوسی جیسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے جو اپنے حالات کو بھول کر پڑوسی کے معاملات میں تجسس رکھتا ہے۔ اُردو افسانے میں ایک خوبصورت روایت رشید جہاں، قرة العین حیدر، ممتاز شیریں، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور اور دیگر کے نام سے موجود ہے. زہرا تنویر اسی روایت کا تسلسل ہیں۔ ان کی کہانیاں نچلے اور متوسط طبقے کی کہانیاں ہیں. ان کے کردار بدلتے زمانے کے ساتھ بدلنے والے نوجوان ہیں. ان کا موضوع نئی نسل کی امنگوں کی اڑان ہے۔ نئے دور کے نئے تقاضے ہیں اور دوسری طرف پرانی اقدار سے چمٹے روایات کے اسیر ہیں. جدید تعلیم اور نئی روشنی سے لڑتی پرانی نسل ہے۔ رقاص ہیں، ریڑھی والے ہیں، گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں ہیں۔ دھرا نقاب اوڑھے اپنی وضع قطع سے دوسروں کو دھوکہ دیتے لوگ ہیں۔ اپنے ہی بوجھ تلے دبی چرمراتی ہوئی تہذیب ہے اور اس کے مقابل نئے دور کے نئے تقاضوں سے الجھتی نسل ہے جو روشنی اور امید کا استعارہ ہے۔ ان کے افسانوں میں مکالمہ بھی ہے اور خود کلامی بھی۔
جب ان کے کردار کہتے ہیں کہ:
”وہ وقت بہت اچھا تھا جب ماں باپ زندہ تھے تب زندگی گنگناتی تھی اب زندگی سسکنے لگی تھی‘‘
وہ جان بوجھ کر کچھ افسانوں کو انجام تک نہیں لاتیں بلکہ خوب صورت موڑ دے کر چھوڑ دیتی ہیں۔ جیسے آرٹ کو سراہنے کے باوجود ایک کردار کہتا ہے کہ:
”لیکن میں ایک پیشہ ور رقاص سے شادی نہیں کر سکتی.‘‘
چھبیس مختلف عنوان رکھنے والی ان تحریروں میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ایک بھی طویل افسانہ نہیں ہے۔ مختصر افسانے ہیں، کچھ تو افسانچے ہیں لیکن بات کہہ دی گئی ہے۔ ابھی زہرا تنویر سے بہت کچھ سننا باقی ہے۔
زہرا تنویر صاحبہ سادہ لفظوں میں کہانی کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کا مشاہدہ کمال کا ہے۔ ان کے افسانوں میں بے جا طوالت یا قاری کو متاثر کرنے والی لفاظی نظر نہیں آتی۔ آنے والے وقت میں اُردو افسانہ پڑھنے والے ان سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں.


زہرا تنویر کا تعلق لاہور سے ہے۔ آپ نے لکھنے کا آغاز کالج میگزین سے کیا۔ رائٹرز کلب کی ایڈمن پینل میں ذمے داری ادا کر چکی ہیں۔ عرصہ دراز سے مختلف اخبارات میں لکھ رہی ہیں. انسانی رویوں اور سماجی مسائل پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔ ”من کی آواز‘‘ زہرا تنویر کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جسے فکشن ہاؤس، لاہور نے خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع کیا ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت400 روپے ہے۔ کتاب منگوانے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
0321-4899160

اپنا تبصرہ بھیجیں