محترم ریاض احمد ریاض ”خط انشاء جی کے‘‘ دیباچے میں تحریر فرماتے ہیں:
”مکتوب نویسی تہذیب انسانی کے تشخیصی بطون کی بوقلمونی کیفیات اور اس کی ماہیت نفسی کے انجمادات کی سب سے محیر العقول اختراع‘‘ ( ہے).
مجھ جیسا ہیچمدان اس قدر گراں بہا الفاظ کے چناؤ سے یکسر قاصر ہے اس لیے میں جناب احسان فیصل کنجاہی کی کتاب ”خطوط زہیر کنجاہی میرے نام‘‘ کی بابت آسان الفاظ میں کچھ تاثرات لکھنے کی کوشش کروں گا.
کنجاہ کی سرزمین انتہائی مردم خیز اور اُردو ادب کے حوالے سے انتہائی زرخیز بھی ہے. اس سر زمین سے وہ گلہائے رنگ رنگ پھوٹے ہیں جنہوں نے اُردو ادب کے گلشن کو ابدی مہک سے سرفراز فرمایا ہے. انہی میں سے ایک پھول زہیر کنجاہی بھی تھے کہ جن کی وجہ سے ادب کا یہ چمن اب تک فصل گل کا منظر پیش کر رہا ہے.
خطوط نویسی ایک انتہائی قدیم طریقہ ربط ہے مصر کے صحرا سے دو ہزار سال قبل از مسیح کے لکھے ہوئے خطوط دریافت ہوئے جو مٹی کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر لکھے گئے تھے، بابل سے بھی قبل از مسیح کے خطوط دریافت ہو چکے ہیں. کاغذ کی دریافت کے بعد مکتوب نویسی میں انقلاب برپا ہوا اور یہ ذریعہ پیغام رسانی پروان چڑھا. اُردو ادب میں مکاتیب غالب اردو نثر کے اعلی ادبی فن پارے تصور کیے جاتے ہیں.
عصر حاضر میں خطوط نویسی کو انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا سیل رواں بہا لے جا چکا ہے اب شاذ و نادر ہی کوئی کسی کوخط لکھتا ہے جہاں لمحوں میں پیغام کی ترسیل ممکن ہو وہاں دنوں تک کون مکتوب کا منتظر رہے.
خطوط گذشتہ نے اب ایک تاریخی حیثیت اختیار کر لی ہے. جناب احسان فیصل کنجاہی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے زہیر کنجاہی کے خطوط کا مجموعہ ترتیب دیا ہے.
اس مجموعے میں جناب احسان، فیصل کنجاہی نے زہیر کنجاہی کی جانب سے لکھے گئے 165 مکاتیب شامل کیے ہیں جو ان کو لکھے گئے تھے.
ان خطوط کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ جناب زہیر کنجاہی کافی منظم انداز میں زندگی گزارنے کے قائل تھے. بقول مولف، کتاب ھذا انہوں نے اپنے گھر میں خطوط نویسی کا باقاعدہ رجسٹر بنا رکھا تھا جس میں خط سے متعلق وہ بہت سی تفصیلات درج کیا کرتے تھے ان کے تمام خطوط پر سلسلہ نمبر ہوا کرتے تھے.
اس رجسٹر کی مدد سے زہیر کنجاہی کی مکتوب نویسی کا تقریباً پورا ریکارڈ مل جائے گا. اُردو ادب میں ان کے بے مثال کام کے باعت ان کے خطوط نہایت اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ان کے تمام خطوط کا شایع ہونا کی ضروری ہے. امید ہے کہ وہ دیگر افراد جن کی زہیر کنجاہی سے خط و کتابت رہی ہے اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں تامل نہیں کریں گے.
احسان فیصل کنجاہی نے یہ مجموعہ مرتب کر کے بہت بڑا کام کیا ہے ان کے ادبی کارناموں میں ایک اور اعلی کارنامے کا اضافہ ہوا ہے. ان کے قلم سے نکلے مزید اعلٰی ادبی شاہکار یقیناً قارئین کی توجہ کا باعث ہوں گے، انشاء اللہ.
218 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو کامرانیاں پبلیکیشنز، گجرات نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے.
