شازیہ اکبر شاعری کے میدان میں اپنی کامیابیوں کا سلسلہ سمیٹتے ہوئے آگے ہی آگے گامزن ہیں. حال ہی میں ان کا تیسرا مجموعہ کلام “چاک پہ رہنے دو مجھ کو‘‘ دیدہ زیب انداز میں طبع ہوا ہے. 112 صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں شاعرہ کی 51 عزلیں اور کچھ متفرق اشعار شامل ہیں.
ماورا پبلشرز، لاہور کی جانب سے کتاب اعلٰی کاغذ پر شایع کی گئی ہے اور طباعت کا معیار بھی نہایت ہی اعلٰی ہے.
شازیہ اکبر کے فنی سفر کا جب بھی جائزہ لیا جائے گا تو ان کی غزل گوئی کو اولیت حاصل ہوگی. ان کی غزل غنائیت اور روانی سے عبارت ہے جس میں جا بجا ان کی لاجواب سخن سرائی کے بے شمار رنگ دکھائی دیتے ہیں. عصر حاضر میں شعراء کرام کا فنی اعتبار سے اعلی کلام تو خوب دکھائی دیتا ہے البتہ ندرت خیال خال خال ہی پائی جاتی ہے. شازیہ اکبر کی غزل میں راونی، غنائیت اور ندرت خیال بھی پورے درشن کرواتی معلوم ہوتی ہے.
رات نے اپنی راکھ اٹھائی، دن رکھا دروازے پر
جمنے لگی تھیں کہر میں آہیں، کون رکا دروازے پر
اربوں لوگوں تک جانا تھا سب کا حصہ پہنچانا تھا
بوڑھا دن بھی خوب تھکا تو آن گرا دروازے پر
اکثر مقامات پر ان کے شعری اسلوب میں جذبات و کیفیات کا ابلاغ پوری قوت سے موجزن نظر آتا ہے. الفاظ کی بنت و پر مغز چناؤ آسانی سے اشعار میں ڈھلتا دکھائی دینے لگتا ہے. داخلی و خارجی کیفیات کی یہ رنگارنگی ان کی غزل سرائی میں کئی مقامات پر نمودار ہوکر قاری کو دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے.
آپ اپنا خسارا کرنا پڑتا ہے
ورنہ عشق دوبارہ کرنا پڑتا ہے
اور یہ بھی ملاحظہ ہو:
گرد ہجر کی دلدل لے کے چلے دریا
پریم کا پانی کھارا کرنا پڑتا ہے
ایک لمحے کی خوشی کی خاطر ساری عمر
کیا کیا روگ گوارا کرنا پڑتا ہے
شازیہ اکبر کی شاعری نسائی جذبات کی فراوانی اور خیالات کی روانی سے عبارت ہے وہ شعری عیوب و محاسن سے آگاہ اور اپنی بات کے اظہار کے فن سے بخوبی آشنا ہیں.
درد بنتا ہے فغاں اور جلن بڑھتی ہے
رات ہوتی ہے تو ماتھے کی شکن بڑھتی ہے
تری تصویر کسی اور کے پہلو میں رکھی
دیکھ لیتی ہوں جہاں دل میں جبھن بڑھتی ہے
بعض مقامات پر ان کی نکتہ آفرینی غالب معلوم ہوتی ہے.
خواب میں بھی وصل کا خیال رہے گا
تو نہ ملا تو بہت ملال رہے گا
بعد ترے زندگی میں عشق کا لمحہ
جو بھی رہے گا تری مثال رہے گا
ان کی حقیقت پسندی جس طرح ان کے اشعار میں جلوہ نما ہے اس سے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے وہ نا امیدی کے دور سے بھی گزری ہیں.
گئے دن لوٹ آئیں گے ستارے جھوٹ کہتے ہیں
مقدر جگمگائیں گے ستارے جھوٹ کہتے ہیں
نکل سکتے نہیں جو خود حریم ہجر سے باہر
ہماری سمت آئیں گے ستارے جھوٹ کہتے ہیں
وہ کہیں بھی ہو کبھی دور نہیں رہ سکتا
آسماں سے چلا آتا ہے ستارہ ہوکر
مزید دیکھیے:
جب سے دیکھا ہے تجھے دل میں اتر کر دیکھا
یعنی دیکھا ہی نہیں تجھ کو پرایا ہوکر
شازیہ اکبر پاکستان کی شاعرات میں ایک اہم مقام کی حامل ہیں. ان کا شعری سفر کامیابیوں سے عبارت ہے. مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ وطن عزیز میں سخن سرائی کی ایک توانا آواز ہیں اور ان کی سحر آگیں شاعری اُردو ادب میں اعلٰی اضافہ ہے.