معروف صحافی راجہ انور کی کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ ستر کی ابتدائی دھائی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں گزارے گئے یاد گار دنوں کی بپتا ہے۔ اس کتاب کو جسے ناول کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اس میں انسانی جزبات و احساسات کو لطیف پیرائے میں موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود اس کتاب کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ یہ ناول، بپتا اور ناکام محبت کی داستان ہے جو جوانی کے دنوں کی یاد گار کے طور پر ہمارے اذہان کے نہاں خانوں میں آج بھی جھلمل کرتی ہے۔
آج برسوں بعد ’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ کو جب چند نشستوں میں ہی پڑھ ڈالا تو شد و مد کے ساتھ راجہ انور کی وہی تصنیف کے دھارے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ ذہن کے مقفل خانوں سے اُمڈ اُمڈ کے ضو فشاں ہوئے۔ انداز و اسلوب تو دونوں کا جدا جدا ہی ہے مگر دونوں کتابوں میں محب اور محبوب کے خطوط کو حصہ بنا یا جانا ایک قدرے مشترک تھی۔ اس کے سوا یہ بھی کہ دونوں کہانیاں محبت کی ناکامی پر منتج ہوئیں جن کا انجام ایک صورت میں دولت کی چکاچوندی ہے جس کے سبب محبت کی آنکھیں چندھیا کر اندھی ہو گئیں۔ دوسری کہانی میں اپنی ناموس کی خاطر اپنی اولاد کے جذبوں کا قتل کیا گیا۔ فرسودہ اقدار جیت گئیں۔ اقدار کا عَلم محبتوں بھرے دلوں کو کچلتا ہوا ایسا بلند ہوا کہ اس کی نوک پر لگی انّی سے محبت کرنے والی کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے اندھی کر دی گئیں۔
’’پہل اس نے کی تھی‘‘ ایک المیہ داستان ہے، محبت بھرے دلوں کی کسک ہے، سسکتی ہوئی یادیں ہیں، دم توڑتی ہوئی التجائیں ہیں، بے نام تمنائیں ہیں، بے نام حسرتوں کے جنازے ہیں جو سر عام نکلے چلے جاتے ہیں۔ اس المیے کا اصل مجرم دراصل ہماراگھٹن زدہ معاشرہ ہے۔ وہ نا ہموار معاشرہ جو غیر فطری اصولوں کے کھوکھلے ستونوں پہ قائم ہے۔ اسی غیر فطری معاشرے میں جب دو محبت کرنے والے غنچے چٹکتے ہیں تو اسی غیر فطری معاشرے کے نام نہاد اصول محبت کرنے والے دلوں کے مابین دوریوں کی فصیلیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ یوں محبت کرنے والی کلیاں بن کھلے مرجھا جاتی ہیں، بن چٹکے مسخ ہو جاتی ہیں۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب محبوب کو محبوبہ کی جانب سے سپردگی کی لذت آفرینیوں کے بعد کبھی کسی بھی صورت میں رد کر دیا جاتا ہے تو محبوب آشفتہ سری کا شکار ہو کر اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ یہی آشفتہ سری بڑھ کر خود سوزی کی صورت پر منتج ہوتی ہے یا پھر دنیا و ما فیھا کی نعمتوں سے مکمل مایوس ہو کر بقیہ زندگی ایک مجاور کی طرح گزار دیتا ہے۔ اچھا تو یہ ہوا کہ جبار مرزا نے مذکورہ کوئی بھی صورت اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسا حوصلہ کس عاشقِ نامدار میں ہوگا جو اپنے رقیب کی بارات کے راستے میں کھڑا ایک طرف تو اپنے ارمانوں کا خون ہوتا دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف دل میں کہیں کسی فلمی سین کا منتظر بھی ہے کہ کہیں سے کوئی کرشمہ سر اٹھائے اور دولہا بدل جائے مگر شومئی قسمت کہ ایسا نہ ہوا۔ یہ منظر لکھاری کی انسان دوستی اور دوسری طرف عورت کی بے بسی کی بھی عمدہ مثال ہے جو اس معاشرے کو مردوں کا معاشرہ ثابت کرتا ہے۔
محبت میں ناکامی نے مصنف (جبار مرزا) کی شخصیت کو ٹوٹنے کے بجائے نکھارا۔ ان کے ہر ہر روپ میں محبت سلامت روی، انسان دوستی، اعلیٰ اخلاقی معیاراور شدید بخارِ محبت میں گرفتار ایک نوجوان نہایت متوازن انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس نوجوان محبوب نے جو اس وارداتِ عشق (کے دوران ایک منجھا ہوا شاعر بھی تھا) کی وجہ سے انسانی مسائل پر غور و فکر اور اس کے تناظر میں کھڑے ہونے والے انسانی مسائل پر غور و فکر کیا اور اُس دور کے تناظر میں حالات و مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔ مصنف نے ایک بھرپور عائلی زندگی گزارنے کے باوجود دروغ گوئی سے کام نہیں لیا۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے مگر جبار مرزا نے معاملات عشق میں اس مفرضے پر عمل نہیں کیا اور اپنے قلبی رشتے کے اعلیٰ معیاروں کی عظمت کو برقرار رکھا۔
’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ کے دونوں مرکزی کردار روایتی عشّاق کی طرح نہیں ہیں جو اپنے جذباتی لگائو میں بہہ کر اپنے قصے کو ایسے بھونڈے انداز سے طشت از بام کریں کہ جہاں دونوں خاندانوں کی عزت خاک میں مل جاتی۔ سلسلہ عشق میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ان دونوں کی محبتوں کے قصص محض ان دونوں گھرو ںکے چند افراد تک ہی محدود رہے۔ دونوں جوان سال کرداروں نے اک دوجے کا ہونا چاہا. شرافت سے، پاکیزگی سے اور باہمی اعتماد اور ایجاب و قبول کے ذریعے سے مگر جب اس نیک اور پاک رشتے میں نہ بندھ سکے تو ناکامی کی صورت میں چپ سادھ لی اور صبر اور برداشت کو اپنا اپنا نصیبہ بنا لیا مگر کسی سے کوئی حرف شکایت نہ کی۔
کتاب کی ہیروئن چوہدرانی نے اخلاقی حدود کو زیر نظر رکھ کر اپنے دل کی بات اپنے والد سے جن حروف وسطور میں بیان کی وہ سنہری جلدوں میں لکھنے لائق ہے۔ ایک طرف زبان کی شائستگی ہے تو دوسری طرف الفاظ کا محتاط چناؤ جو ایک غیرت مند باپ کے بھی شایانِ شان ہے اور فرماں بردار اولاد کی بھی غماز۔ اپنے والد سے حجاب اور پاس وضع داری بھی برقرار اور اپنے دل کے شگفتہ خانوں میں پھیلنے والی معطر ہواؤں کا تذکرہ بھی۔ باپ سے مکاملے میں چوہدرانی نے ہوش مندی اور شعور کا صحیفہ بھی یکجا کیا تو دل کے بیکراں سمندر میں اٹھنے والے طوفانوں کو سمیٹ کر عرضِ حال بیان کرنے والی سحری انگیزی بھی شامل کی۔ ’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ کی چوہدرانی کی گفتگو اور تحاریر انسانی رشتوں کی نزاکت کی آئینہ دار ہیں۔ اس کی تحریر میں یہ سچ بار بار سر اٹھاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہنوز عورت بے بس ہے۔
’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ میں نہ تو مرکزی کردار کو محلہ بدر ہونا پڑا اور نہ چوہدری صاحب کی ’’پگ‘‘ تار تار ہوئی۔ البتہ اس کا المناک پہلو یہ ہے کہ چوہدری صاحب کو اس قدر سخت رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے تھا جو دو دِلوں کے قتل کا موجب بنا۔ چوہدری صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے رویوں نے ہماری معاشرتی زندگی کے اس اہم عقدے کو پھر سے وا کیا کہ والدین ہمیشہ شادی کے سلسلے میں اولاد سے ہی قربانی مانگتے ہیں۔ کبھی تو ماں اپنے دودھ کی قسم دے کر اور کبھی والد اپنی ’’پگ‘‘ کی قسمیں دے کر۔ یہی سب کچھ ہمیں ’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ میں نظر آیا جب اولاد نے اپنے والدین کے لیے قربانیں دیں۔
’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ ایک ادبی سانحہ ہے. اس سانحے میں ادبی رنگ نمایاں ہے۔ حقیقی کہانی کو افسانوی انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ جذباتی رشتوں اور احساسات کے باوجود فیصلے عقل و فراست سے کیے گئے۔ ضابطوں اور اصول پرستی کی کما حقہ پاسداری ’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ کے خوب صورت پہلو ہیں۔ بظاہر ناکام رہنے والی محبت کی یہ داستان اس لحاظ سے کامیاب ادبی کہانی ہے۔
’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ ایک شاعر، کالم نگار اور ایک سچے محقق کے قلم سے پھوٹنے والا وہ ادب کا شہ پارہ ہے جسے اگر اسلوب اور تکنیک کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ ایک خود نوشت بھی ہے، ایک ناول بھی، شاعری کا تڑکا بھی ہے اس کہانی میں اور ساتھ ہی ساتھ خطوط نویسی کی دم توڑتی ہوئی صنف کا بھی ادب پارہ۔ کوئی بھی ادب کا طالب علم جب ’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ کا مطالعہ کرے گا تو اسے اپنے اپنے انداز اور قرینے سے کوئی نام دے گا۔ ایک بات بہرطور طے ہے کہ ’’پہل اُس نے کی تھی‘‘ کی ادبی زندگی یقیناً طویل ہوگی۔