یونیسکو نے 1995 ء سے 23 اپریل کو کتابوں کا عالمی منانے کا آغاز کیا۔اس کے بعد سے یہ دن کتب کے شوقین افراد کے لیے طمانیت کا باعث رہا ہے کیوں کہ جو شخص کتاب سے لو لگاتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے بھی اس لت میں مبتلا ہوجائیں۔ لہٰذا یہ دن ایسی کوئی نہ کوئی حکمت عملی ضرور اختیار کرتا ہے کہ مطالعہ سے شغف نہ رکھنے والے فراد بھی اس طرف مائل نظر آتے ہیں۔اس کی زیادہ مثالیں آپ کو ترقی یافتہ ممالک میں ہی ملیں گی۔ پاکستان میں کتاب ملازمت سے فراغت پانے والے حضرات یا چند گنے چنے لوگوں تک ہی محدود ہے۔ یہاں ایک طرف کتاب چھاپنے کے لیے کوئی باقاعدہ اصول و ضابطہ نظر نہیں آتا تو دوسری طرف مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
گلگت بلتستان اس معاملے میں ابھی بھی پسماندہ ہے۔ یہاں لوگوں کی کثیر تعداد اپنے ذہن میں تیار شدہ خاکے کے مطابق ہی کتب بینی کا رجحان رکھتی ہے۔ ان سے ہٹ کر کتاب پڑھنا گویاشجرِ ممنوعہ ہے۔ روایتی تعلیم عام ہونے کے باوجود وسعت نظری، شعور اور تجزیاتی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین اس معاملے میں مزید پیچھے ہیں۔ ان کی ایک کثیر تعداد کے لیے مطالعہ کرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل فون کو فوراً گلے لگانے والی خواتین کتابوں پر آکر ’’مصروف‘‘ ہو جاتی ہیں اور انہیں اس کے لیے وقت نہیں ملتا۔ گھر میں ہر قسم کا کاٹھ کباڑ وہ برداشت کرتی ہیں لیکن کتابوں میں ہی انہیں سب سے زیادہ گند نظر آتا ہے۔ کتاب دشمنی پر مائل خواتین کے اس طرز عمل کی وجہ یہ ہے کہ شروع سے بچیوں کو گھروں پر مطالعے کی طرف رجحان رکھنے والا ماحول فراہم نہیں کیا جاتا۔ ہوش سنبھالتے ہی انہیں گھر سنبھالنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ دیگر اہم معاملات کو پس پشت ڈال کر محض معمول کے کاموں پر ان بچیوں کا وقت ضائع کرنا ان کے ساتھ ظلم ہے۔ امورِ خانہ داری سیکھنے کے لیے سالہا سال ہانڈی چولہا سنبھالنا گئے وقتوں کی بات ہے۔ آج کی بچی پہلے کی نسبت ہوشیار اور سمجھدار ہے۔ اس میدان میں اس کی مدد کے لیے مختلف ذرائع دستیاب ہیں جن کی مدد سے محض چند مہینوں میں وہ گرہستی بن سکتی ہے لیکن اگر تعلیم کا وقت گزر گیا تو اس کا ازالہ بہت مشکل ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی دور کیجیے کہ تعلیم کا حصول محض درسی کتب کے ذریعے ہی ہوتا ہے بلکہ ان سے متعلق دیگر کتب کا مطالعہ کیا جائے تو علم نکھرتا اور پختہ ہوتا ہے۔ یوں پڑھنے کی طرف رجحان پیدا ہوگا اور گھر بیٹھے بیٹھے بچی ایک کامیاب عورت بننے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے گی۔ البتہ اس کے لیے ہمارے معاشرے کی خواتین خصوصا ماؤں کو چاہیے کہ پہلے تو وہ اپنے گھروں میں کتب بینی کو فروغ دیں۔ اپنی توجہ آرائش و زیبائش کی طرف راغب کرنے کی بجائے ان کی دلچسپی کتابوں کی طرف موڑدیں۔ کتب بینی کو ایک فالتو مشغلہ نہ سمجھیں۔ بچیوں کو کتابوں کے انتخاب اور خریداری میں ان کی مدد کیجیے۔ کتب خانوں تک ان کی رسائی آسان بنائیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مخصوص معاشرتی ماحول کی بناء پر نہ بچیوں کو کتب کے انتخاب و خریداری کے بہترمواقع میسر ہیں نہ گھروں میں کتب بینی کو خوش دلی سے قبول کیا جاتا ہے۔ والدین بچوں کو حقیر سے حقیر چیز کی خریداری کے لیے بازار لے کر جاتے ہیں لیکن لابئریری لے جانا ان سے بھی اہم ہے۔ بعض والدین شکوہ کناں ہیں کہ بچے اپنی مرضی کی ہر چیز تو حاصل کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مجبور بن جاتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ بچوں کی فرمائش کی جانے والی اشیاء کی ترغیب انہیں میڈیا بڑے شاطرانہ انداز میں سکھارہا ہے لیکن آپ کا بحثیت والدین فرض ہے کہ علمی مواد کی طلب اور تڑپ پیدا کرنے کے لیے اپنے گھروں کے ماحول کو اس میں ڈھالیں۔ آج کتنے والدین ہیں جو بچوں کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ اخبار، رسالے اور کتابیں لاتے ہیں۔ ہر گلی میں الم غلم چیزیں بڑی آسانی سے دستیاب ہیں اور کتابوں کا حصول کس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی مطالعہ کی تشویق کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ملک کی معروف ادیبہ بیگم ثاقبہ رحیم الدین کہتی ہیں: ’’نویں اور دسویں جماعتوں کی عادات زندگی بھر بچوں کو قیدی بنائے رکھتی ہیں لہٰذا انہی دنوں اساتذہ بچوں کے دل و دماغ میں کتاب دوستی کی شمع روشن کریں گے تو وہ تمام عمر مطالعہ کے شوقین رہیں گے.‘‘ لیکن اگر ایسا کوئی موقع نہ مل سکا تو اس غلطی کے ازالے کے لیے ایک دا نشور کا کہنا ہے: ’’اگر تم مطالعہ سے مانوس نہیں تو پہلے طبیعت پر جبر کر کے ہی شروع کرو۔پھر وہ خود تمھیں اپنا گرویدہ بنا لے گا.‘‘
مغرب میں سامانِ تعیشات، سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف رجحان اور ان کا غلبہ ہم سے کہیں زیادہ ہے لیکن وہ جہاں بھی جائیں اپنے ساتھ کتاب رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ذرا سا وقت ملا، کتاب کھولی اور پڑھنے بیٹھ گئے۔ بہت کچھ حاصل کرنے کے باوجود وہ ایک منٹ بھی ضائع کرنے کے روادار نہیں. لیکن ہم جہاں جائیں، جب بھی وقت ملے، تمام مشاغل اپنائیں گے ماسوائے کتب بینی کے۔ پورے سکردو میں ایئرپورٹ سے ہسپتال تک ہو آئیں، بازاروں کا چکر لگا آئیں، شاید ہی آپ کو کسی کے ہاتھ میں پڑھنے کے لیے کوئی کتاب نظر آئے۔ کبھی کبھار کتابوں کی دکان پر دکاندار حضرات کو (وقت گزاری کے لیے) کچھ پڑھتے ہوئے دیکھنا نصیب تو ہوتا ہے لیکن اس مطالعے سے خود ان کی عملی زندگی پر کوئی اثرات کا نظر نہ آنا اس سے عدم دلچسپی کا عین ثبوت ہے۔ چند دکاندار زبردستی دیا یا لیا گیا اخبارات پڑھتے نظر آتے ہیں، جن کا مطالعہ محض بحث کے لیے ہوتا ہے یا پھر بوریت دور کرنے کے لیے۔ مطالعے کے اصل روح کا حصول یہاں بھی مفقود نظرآتا ہے۔ اب خواتین کی طرف آئیے۔ گھروں کی سجاوٹ، صفائی، ستھرائی، کھانے پکانے میں غرق خاتون کے لیے کسی کتاب کا مطالعہ وقت کا ضیاع ہے۔ کچھ خواتین کا رجحان اس طرف ہوتا بھی ہے، لیکن گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے یہ خوبصورت شوق بھی دب ہی جاتا ہے۔ ایسے میں اگر میں وہ روزانہ کتب و اخبار بینی کے لیے مختصر ہی سہی، ایک وقت مختص کرلیں یا جب بچے پڑھنے بیٹھ جائیں تو ان کے ساتھ یہ بھی اپنا مطالعہ جاری رکھیں تو نہ صرف یہ کہ آہستہ آہستہ یہ ایک پختہ عادت بن جائے گی بلکہ بچے بھی ماں کو قریب ہی مطالعہ کرتے دیکھ کر تعلیمی عمل میں دلچسپی بڑھائیں گے لیکن ایسا کوئی ماحول میسر نہ ہونے کی بناء پر بچے پڑھائی کے دوران پرسکون ماحول سے محروم ہوجاتے ہیں۔ آپ جہاں جائیں پورا گھرانہ ٹی وی یا موبائل فون پر نگاہیں مرکوز کیے بیٹھا ہے۔ بچے ساتھ ساتھ پڑھائی کا عمل کیے ہوئے ہیں۔ ماں ہر آنے والے سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ ایسے میں بچے کے سیکھنے کا عمل کیوں کر پختہ ہوسکتا ہے۔ وہ محض لکھنے پر اکتفا کرتا ہے اور آموزش کا عمل کسی سمجھ بوجھ کے بغیر ہی انجام پاتا ہے۔ یوں بچہ دھیرے دھیرے مطالعہ میں لذت کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اور امتحانوں میں کامیابی کے لیے ایسے شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتا ہے جو اسے سمجھنے اور ذہن میں پختہ کرنے کے عذاب سے نجات دلاسکے۔ لیکن اسے یہ احساس دلانا ہوگا کہ مطالعہ کی بدولت وہ ہر تعلیمی میدان میں بہتر کاکردگی کا مظاہرہ کر سکے گا۔ اضافی مطالعہ کے بغیر وہ نہ صرف اپنے تعلیمی معاملات میں کمزور رہے گا بلکہ ملازمت کے حصول کے سلسلے میں بھی اسے مشکلات پیش آئیں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مطالعے کا عادی انسان حال میں رہتے ہوئے ماضی اور مستقبل دونوں کا بیک وقت اندازہ لگا سکتا ہے جو اس کے عملی زندگی کے کئی معاملات میں آسانی پیدا کر سکتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود بچہ صرف اسی وقت ہی کتاب سے دوستی کرے گا جب اسے والدین یا اساتذہ کی طرف سے اس طرف تشویش دلائی جائے یا رہنمائی کی جائے ۔ البتہ اسے یہ سمجھا دینا بھی ضروری ہے کہ ایسی کتاب کا کوئی فائدہ نہیں جو ذہن کو کنفیوز کردے۔
معاشرے کے بڑھتے ہوئے غلط رسم و رواج اور ضرورت سے بڑھ کر لوگوں کی بیرونی سرگرمیوں نے معاشرے اور گھروں کی مرکزیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ والدین خصوصاً باپ کے نزدیک اپنے اہل خانہ اور بچوں کی طرف توجہ سے زیادہ، کمانا اہمیت رکھتا ہے۔ گھر میں روزانہ ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے مختص کرلے تو یہ عادت ان میں یہ سوچ ضرور پیدا کرے گی کہ جس قدر محنت کرکے وہ کما رہا ہے اس کی اولاد اللے تللوں میں اڑادے گی۔ پھر کیوں نہ حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دی جائے جس کا ازالہ اس کے ادا کرنے میں ہی ہے۔ اہلِ خانہ کے لیے آسائشات سے زیادہ وقت اور توجہ ان پر فرض ہے۔ اس طرح ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد روپے پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور یہ آیت کسی کو یاد نہیں رہی کہ ’’یہ دنیا تو محض ایک کھیل تماشہ ہے.‘‘ گویا آپ اپنے سارے فرائض کھیل تماشے کی نذر کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ دنیا سے ہی قطع تعلق کر لیں۔ دنیاوی معاملات کو فطری انداز میں نبھانا بھی عین عبادت ہے۔ بلکہ کچھ طور طریقے ایسے ہیں جنہیں اپنا کر ہم نہ صرف دنیامیں سرخرو ہوسکتے ہیں بلکہ یہ ہماری آخرت کے لیے بھی زادِ راہ بن سکتے ہیں۔ جنوری 2017ء میں امریکہ، جرمنی اور برطانیہ کے محققین گزری اور موجودہ صدی کے 100 کامیاب ترین لوگوں پر اپنی ڈھائی سالہ تحقیق کے بعد جس نتیجے پر پہنچے کہ حیرت انگیز طور پر ان میں جو گیارہ خوبیاں مشترک تھیں، ان خوبیوں میں ایک یہ تھی کہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ کمال کا تھا۔
یاد رکھیے مطالعہ ایک ایسی کھاد ہے جس کے استعمال سے ذہن میں عقل و دانش کے پھل لگتے ہیں اور یہی وہ صفت ہے جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ کتاب دوستی کیجیے تبھی آپ انسان کہلانے کے قابل ہیں۔
