کتابوں کا خزانہ – م الف عباس

ایک شخص کی ملکیت میں کتنی کتابیں ہونی چاہئیں؟
یہ تو ایسا ہی ہے جیسے پوچھا جا رہا ہو کہ تنخواہ کتنی ہونی چاہیے۔ بھئی وہ تو جتنی بھی ہو کم ہی لگتی ہے۔ تنخواہ بڑھا بھی دی جائے تو چند ماہ بعد کم محسوس ہونے لگتی ہے۔
بالکل یہی معاملہ کتابوں کا بھی ہے. جتنی زیادہ ہوں اتنی کم معلوم ہوتی ہیں۔ جب میں سکول میں تھا تو میرے پاس فقط چار ناول تھے اور میں چاہتا تھا کہ میرے پاس الماری بھر کر ناول ہوں یا گھر کے کسی کونے میں میرا چھوٹا سا کتب خانہ ہو، اور آج میری خواہش ہے کہ کتب خانے کے کسی کونے میں میرا چھوٹا سا گھر ہو۔

آپ کہیں یہ گمان نہ کر بیٹھیں کہ میرے پاس لاکھوں کتابیں ہوں گی، میرے پاس تو فقط چند سو کتابیں ہیں مگر کتابیں خریدنے کی جس وبا کا میں شکار ہوں، کچھ بعید نہیں کہ میری ذاتی ملکیت میں لاکھوں کتابیں بھی جمع ہوجائیں، مگر بس ایک خیال مجھے بہت پریشان کرتا ہے کہ روئے زمین پر انسان کی اوسط عمر 70 سال ہے، اور اس مختصر زندگی میں پڑھنے کو اتنی ڈھیر ساری کتابیں ہیں، یہ خیال بہت تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے مگر پھر سوچتا ہوں کہ اس میں بھی ایک حکمت پوشیدہ ہے، اگر انسان ہزاروں سال زندہ رہے گا تو زمین پر چلنے پھرنے کو جگہ ہی باقی نہ رہے گی اور ہر طرف بس کتابیں ہی کتابیں ہوں گی۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں تو ای کتاب نے مشکل آسان کر دی ہے اور اب کتابوں کے انبار جمع کرنے کے لیے کئی کئی ایکڑ اراضی وقف نہیں کرنی پڑتی. مگر گزرے زمانوں میں باقاعدہ دوسرے ممالک سے افواج طلب کی جاتی تھیں کہ وہ آئیں اور آکر کتابیں جلادیں تاکہ نئی کتابیں رکھنے کی جگہ بن سکے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا ہر انسان کتابوں سے عشق کرتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ ابھی تک ارتقائی عمل میں اٹکا ہوا ہے اور پوری طرح انسان نہیں بن سکا ہے۔


م۔ا۔عباس پیشے کے لحاظ سے نیٹ ورک انجینیر ہیں اور سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ کتابیں پڑھنا آپ کی روح کو تسکین پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس خوش گوار سفر میں کتاب سے محبت کرنے والوں کو اپنے سنگ لیے چلتے ہیں. اسی سلسلے میں م۔ا۔عباس نے یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بُک اور ساؤنڈ کلاؤڈ پر ”لوحِ دل‘‘ کے نام سے صفحہ بھی بنا رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں