انٹر نیشنل فائر فائٹرز ڈے – ثاقب محمود بٹ

عالمی دن کے موقع پر خصوصی معلوماتی کہانی

شفق کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک پمفلٹ تھا جو اُس نے بابا جان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’بابا جان، ابھی کچھ لوگ آئے تھے اور یہ پمفلٹ دے کر چلے گئے ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ 4 مئی کو  فائر فائٹرز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور ہم اِسی سلسلے میں آگاہی مہم کے طور پر عوا م میں یہ پمفلٹ بانٹ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سب بچے اس دن خصوصی واک میں بھی شرکت کریں۔ بابا جان یہ فائر فائٹرز کون ہوتے ہیں اور اُن کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟‘‘

بابا جان جو کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے، کتاب کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے: ’’پیاری بیٹی! وہ بہادر جوان جو اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر دوسروں کے جان و مال کو بھڑکتی آگ سے بچانے کے لیے بے خوف و خطر آتش میں کود پڑتے ہیں، دُنیا انہیں فائر فائٹرز کے نام سے جانتی اور مانتی ہے۔ ہر سال 4 مئی کو فائر فائٹرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پرآگ میں کود کر زندگیاں بچانے اور آگ بجھانے والے ان جاں باز سپاہیوں کی قربانیوں کے اعتراف میں، اُن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔‘‘

کمرے میں بیٹھا احمد بہت غور سے یہ باتیں سن رہا تھا، فوراً بولا: ’’بابا جان، عالمی فائر فائٹرز ڈے کیسے منایا جاتا ہے؟‘‘

بابا جان ذرا مسکرائے اور احمد کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولے: ’’بیٹا اس دن فائر ریسکیورز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملک بھر میں مختلف آگاہی پروگرام، فلیگ مارچ، سیمینار اور آگاہی واکس منعقد کی جاتی ہیں تاکہ ان ہیروز فائر ریسکیورز کو، جنہوں نے فرائض کی سرانجام دہی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یا زخمی ہوئے، کی قربانیوں کا اعتراف کیا جاسکے۔ اس دن کا بنیادی مقصد عوام الناس کو فائرسیفٹی سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہوتاہے تاکہ کمیونٹی کو آگ لگنے کے دوران ان کے اہم کردار سے متعلق آگاہی دی جا سکے اور آگ لگنے کے حادثات کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔

اس آگاہی مہم کے دوران لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں جن پرآگ کے خطرات کے حوالے سے مختلف ہدایات درج ہوتی ہیں اور جن پر عمل کر کے آگ کے ممکنہ خطرات سے بچا جا سکتا ہے۔ مختلف ریسکیو اداروں کی جانب سے کیمپس بھی لگائے جاتے ہیں جن میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو آگ بجھانے والے آلات استعمال کرنے کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔

ساتھ ہی اس روز کیے جانے والے عملی مظاہرہ میں آگ لگ جانے کی صورت میں گھِرے ہوئے لوگوں کو ریسکیو کرنا، آگ بجھانے اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنا شامل ہوتا ہے۔ آگاہی واک میں مختلف اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ عام شہریوں، تعلیمی اداروں کے طلبا اور محافظ ریسکیورکی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ شرکاء فائر فائٹرزکی خدمات کے اعترافی اور فائر سیفٹی سے متعلق بینرز اٹھا کر واک کرتے ہیں۔ اس دن آگ بجھانے اور لوگوں کو ریسکیو کرنے والے ریسکیورز کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ سالانہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے فائر ریسکیورز کو ایوارڈز اور تعریفی اسناد سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس نیک مشن میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے لیے دعا بھی کی جاتی ہے۔‘‘

اتنی مفید باتیں سن کر فاطمہ سے نہ رہا گیا اور اپنی ڈرائنگ کی کاپی بند کرتے ہوئے بولی: ’’بابا جان پھر تو یقیناً اس دن کی کوئی تاریخی اہمیت بھی ہو گی؟

باباجان سر کو اثبات میں ہلاتے ہوئے گویا ہوئے: ’’بالکل بیٹی، ایسا ہی ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1999ء سے ہوا۔ تب سے ایک سال قبل یعنی 1998ء میں آسٹریلیا کے شہر لنٹن کے جنگلات میں آگ لگ گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ آگ نہ صرف پھیلنے لگی بلکہ مزید شدت اختیار کر گئی۔ اس بڑھتی ہوئی خراب صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحولیات اور قدرتی وسائل کے شعبہ اور آسٹریلیا کی فائر اتھارٹی کے اہلکاروں نے آگ بجھانے کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔جنگلات میں لگنے والی اس آگ کو بجھاتے ہوئے 5فائر فائٹرز جان کی بازی ہار گئے۔ یہ یقینا انسانیت کے لیے ایک دکھ اور افسوس کاواقعہ تھا۔ ان پانچ فائر فائٹرز کے انتقال کے بعد پوری دنیا میں یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ آگ پہ قابو پانے کی کوشش کرنے والے بہادر سپاہیوں کی اہمیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مہم شروع کی گئی اور یوں اگلے برس یعنی 1999ء سے اس دن کو باقاعدہ طور پر منانا شروع کیا گیا۔‘‘

اب کی بار شفق بولی: ’’بابا جان، یہ فائر فائٹرز آگ پر قابو کیسے پالیتے ہیں؟‘‘

باباجان نے جواب دیا:’’ بیٹی، کچھ دہائیوں سے دنیا بھر میں مختلف مقامات پر بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ہزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس لیے فائر فائٹنگ یعنی آگ بجھانے کا شعبہ کسی بھی ملک، شہر اور مقام کے لیے ناگزیر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے دنیا کے ہر خطہ میں آگ بجھانے والا محکمہ قائم ہے۔ فائر فائٹرز کو آگ پہ قابو پانے کے حوالے سے نہ صرف خصوصی تربیت فراہم کی جاتی ہے بلکہ ان کی حفاظت کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً فائرفائٹرز کے لیے ریفرشر کورسز کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے اور انہیں جدید حفاظتی طریقہ کارسے آگاہی دلانے کے علاوہ نئی ایجادات سے بھی متعارف کرایا جاتا ہے جن کے مناسب استعمال سے فائر فائٹرز کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ آگ پر قابو پاسکیں۔‘‘

احمد کچھ سوچتے ہوئے بولا: ’’بابا جان، پھر تو یقیناً پاکستان میں بھی ایسا کوئی محکمہ قائم ہو گا؟‘‘

بابا جان بولے: ’’کیوں نہیں بیٹا۔ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بھی آگ بجھانے کے حوالے سے مختلف اداروں میں خصوصی شعبہ جات قائم ہیں۔ سول انتظامیہ سے لے کر پاک فوج تک، ہر ادارے کے پیشہ ورانہ تربیت یافتہ اہلکار، کسی بھی حادثہ کی صورت میں، اہلِ وطن کی مدد کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ یہ فائر فائٹرز مشکل صورتِ حال میں بھی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔

ریسکیو 1122 حکومتی سطح پر پاکستان کی پہلی تربیت یافتہ ایمرجنسی، ایمبولینس، ریسکیو اینڈ فائر فائٹر سروس ہے۔ اس سروس کے ذریعے تمام قسم کی ہنگامی صورت حال، جن میں حادثات، آگ لگنا، عمارتوں کا منہدم ہونااور دیگر ناگہانی آفات سے نبرد آزما ہونے کاایک باقاعدہ نظام موجود ہے۔ یہ سروس کسی بھی ناگہانی آفات میں عوام کے جان ومال کی حفاظت کا فریضہ احسن طریقے سے بجا لا رہی ہے اور اس کے اہلکار 24 گھنٹے شہریوں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس لیے کسی بھی حادثہ کی صورت میں فوراً ریسکیو 1122 کو کال کی جا سکتی ہے اور متعلقہ اہلکار کچھ ہی دیر میں حادثہ کی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ اس ادارے کے اہلکاروں کو جدید خطوط پر تربیت فراہم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں اور عوامی خدمت کی یہ سہولیات ہر علاقہ تک فراہم کی جارہی ہیں۔ ریسکیو 1122 کے قیام کے بعد فائرفائٹنگ کے شعبے پر خاص توجہ دی گئی ہے اور محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کیا جا رہا ہے۔ آگ لگنے سمیت کسی بھی ہنگامی صورت میں شہریوں کے جان و مال کا ہر ممکن تحفظ فائر فائٹرز کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ فائر فائٹرز کے عالمی دن پر شہر شہر میں تقریبات، سیمینارز کا انعقاد اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ عوام میں کسی بھی حادثہ کی صورت میںاس سے نمٹنے کاجذبہ اور شعور پیدا کیا جا سکے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کسی جگہ آگ لگنے کے بعد، سائرن بجانے پر لوگ آگ بجھانے والی گاڑیوں اور ایمبولینسوں کو راستہ دیں۔ شہر کے اطراف کے علاقوں میں آگ لگ جائے تو وہاں پہنچنے میں وقت لگ جاتا ہے، اور آگ بجھانے کے لیے مطلوبہ مقام تک پہنچنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ شہر وں میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے ٹریفک کے بھی بہت مسائل ہیں۔ شہر کی سڑکیں تنگ ہیں اور گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے، اس پر لوگوں نے تجاوزات بھی قائم کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو راستہ ملنے میں مشکل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں فائر فائٹرز کو وسائل اور سہولیات کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے۔ اس صورت میں بھی عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کی بہت ضرورت محسوس کی گئی ہے۔

فائر فائیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین اپنی زندگی لوگوں کی حفاظت کرنے کے نام کر دیتے ہیں اور ہر قسم کی ہنگامی صورتِ حال میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہریوں کے جان و مال کو محفوظ بناتے ہیں، اس لیے عوام کا بھی یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ بھی اس ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے فائر فائیٹرز سے تعاون کریں۔

آگ میں کُود کر شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنے والے ان فائر فائٹرز کو اگر بہتر سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ جاں باز مزید بہتر انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں اور ہم آگ سے محفوظ پاکستان کے تصور کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

پیارے بچو! آئیں ہم فائر فائٹرز کے عالمی دن کی مناسبت سے اس عزم کا اعادہ کریں کہ پاکستان ہمارے آباو اجداد کی عظیم قربانیوں سے حاصل ہوا ہے، اس لیے ہم اس کی عزت و آن اور شان میں کسی قسم کا حرف نہیں آنے دیں گے اور ملک و قوم کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔‘‘

سب بچوں نے یک زبان ہو کر کہا: ’’جی بابا جان۔‘‘