وقت تیزی سے گزر رہا ہے. ہم نت نئی اشیاء سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے آج بھی ادب اطفال کے لکھاریوں، خاص طور پر نئے لکھاریوں کے بیشتر مسائل جو کہ حل ہو سکتے ہیں وہ جوں کے توں ہی برقرار ہیں۔
سب سے اہم ترین مسئلہ جو کہ کسی بھی نئے لکھنے کو ہو رہا ہے وہ ہے اُس کی کسی بھی تحریر ( کہانی/مضمون) کی اشاعت کے حوالے سے بروقت اطلاع نہ دینا ہے۔ ہمارے ہاں دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ اس حوالے سے چند ادارے ہی اپنی ذمہ داری بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریر کی اشاعت کے حوالے سے لکھاری کو آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ اُس تحریر کو کہیں اور بھیج دیتا ہے اور چند ماہ کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ وہی تحریر کسی اور بھی رسالے میں شائع ہو چکی ہے، یوں پہلے رسالے کے مدیر اور لکھاری کے درمیان تعلقات کشیدہ سے ہو جاتے ہیں۔
آج تک رسائل کے مدیران نے معلومات دینے کے لیے قواعد وضوابط تو رائج کیے ہیں مگر یہ افسوس ناک بات ہے کہ اس حوالے سے تمام رسائل نے ایک جیسی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ ہر رسالے کی انتظامیہ اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر لکھاریوں کو آگاہ کرتی ہے اور اس میں بھی کوتاہی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لکھاریوں کو تحریر کی اشاعت کے حوالے سے اطلا ع دینے کی مدت کم سے کم ایک ہفتے سے پانچ چھ ماہ تک کی ہے۔ اس دوران لکھاری کو آپ یوں کہیے کہ زندگی اور موت کی کشمکش جیسے رہتا ہے کہ کیا پتا اُس کی تحریر قابل اشاعت ہے یا نا قابل اشاعت ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مخصوص موضوعات پر لکھی گئی تحریریں ایک خاص وقت پر ہی شائع ہو سکتی ہیں اگر اُن کے حوالے سے بروقت اطلا ع نہ دی گئی تو پھر لکھاری کے پاس ماسوائے افسوس کے کچھ باقی نہیں رہتا ہے، اگر وہ تحریر کوئی رسالہ طویل عرصے کے بعد تک بھی شائع نہ کرے۔
اس حوالے سے اگر تمام رسائل کی انتظامیہ مل کر ایک لائحہ عمل طے کرلیں تو یہ ادب اطفال کے لکھاریوں کے لیے ایک انقلابی قدم ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف مقابلے کی فضا بھرپور ہوگی بلکہ بروقت آگاہی سے کئی لکھاری خود کو سنوارنے کے ساتھ عمدہ تحریریں رسائل کو بھیجا کریں گے۔ یہ خاص کر نئے لکھاریوں کو زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی بڑی وجہ اُن کا ’’ نیا لکھاری‘‘ ہونا ہے۔ اسی ’’ نئے پن‘‘ کی وجہ سے مدیران کی جانب سے کم ہی حوصلہ افزائی بھی وہ حاصل کر پاتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق لکھ بھی نہیں پا رہے ہیں، اگرچہ اس میں دیگر لکھاری بھی شامل ہیں لیکن یہ بڑی اہم وجہ ہے کہ’’ پروف ریڈنگ‘‘ نہ کرنا بھی اکثر لکھاریوں کو قابل اشاعت سے ناقابل اشاعت کی جانب لے جاتا ہے کیوں کہ اکثر مدیران غلطیاں سنوارنے پر کم ہی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل تعریف ضرور ہے کہ چند مدیران ازسر نو تحریریں لکھ کر بھی شائع کرتے ہیں اور لکھاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
دوسرا اہم ترین مسئلہ نئے لکھاریوں کو رسائل میں خاطرخواہ جگہ نہ ملنا بھی ہے ۔ چند بڑے نام مسلسل اشاعت کے لیے تحریریں ارسال کر رہے ہوتے ہیں، اس حوالے سے مدیران کو سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ نامور او ر نئے لکھاریوں کو متواتر مواقع ملنے چاہیں، یہ نہ ہو کہ پھر’’ نئی پود‘‘ سامنے ہی نہ آسکے۔ دوسری طرف خاص طور پر نئے لکھاریوں کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی بھی اُس طرح سے نہیں ہو رہی ہے جس طرح سے ہونی چاہیے۔ اکثر و بیشتر اُن کی جانب سے دبے لفظوں میں بھی شکایات راقم السطور تک پہنچی ہیں جس کی وجہ سے زیر نظر سطور لکھی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے بھرپور طور پر اقدامات کیے جائیں تاکہ نونہالوں کے لیے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی یوں ہو کہ وہ مزید نکھر کر سامنے آئیں۔ چند عناصر کی جانب سے مقابلوں میں شرکت کرنے پر نئے لکھاریوں پر تنقید یوں کی جاتی ہے کہ وہ ’’ تباہ وبرباد‘‘ بھی ہو جاتے ہیں۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا بھی بے حد ضروری ہو چکا ہے۔ اگر آپ حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے ہیں تو حوصلہ شکنی سے بھی گریز کریں۔
یہاں ایک تجویز دینا چاہوں گا کہ اگر نئے لکھاریوں کے لیے رسائل ہر سال کوئی تربیتی ورکشاپ رکھیں، جہاں چند مسلسل کی جانے والی اغلاط کی نشاندہی کریں اور بہتری کی جانب مائل کریں تو نئے لکھاری جلد ہی بہترین لکھنے کی جانب بھی مائل ہو سکتے ہیں، یہ ہر رسالہ اپنی طرف سے کرے، خاص کر اُن لکھاریوں کے لیے جو لکھنا چاہتے ہیں مگر اپنی غلطیوں کی وجہ سے مسلسل ناقابل اشاعت ہو رہے ہیں تو یہ بہترین اقدام ہو سکتا ہے، اس میں لکھنے کے شوقین بھی شرکت کرنا چاہیں تو اُن کے لیے بھی دروازہ کھلا رکھنا چاہیے. پرانے لکھاری بھی اصلاح کرنے کی خاطر شرکت کر سکتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر نہایت اہمیت کا حامل ہوگا کہ راقم السطور 2008ء سے مسلسل مختلف موضوعات پر لکھ رہا ہے اور اس دوران بارہا بار یہ مشاہدہ بھی ہوا ہے کہ نئے لکھاریوں کو مختلف طریقوں سے پیچھے دھکیلنے کی بھی کوششیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بددل ہو کر لکھنا چھوڑ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر چشم کشا حقائق بیان کیے جائیں تو یہ مضمون طوالت کا شکار ہو جائے گا مگر بس اتنا کافی ہوگا کہ اکثر ’’ ایوارڈ‘‘ تک اچھے لکھنے والے نئے لکھاریوں کی بجائے حق تلفی کرتے ہوئے دیگر لکھاریوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ نئے لکھاریوں کی لکھی تحریر میں ایسا ’’ تیزاب‘‘ ڈالا جاتا ہے کہ وہ قلم کو دور پھینک دیتے ہیں۔ دوسری طرف اُن کی لکھی تحریر پر اپنا ’’حق‘‘ بھی ڈال کر اپنے نام سے شائع کر لیا جاتا ہے. راقم السطور تک ایسی بہت سی کہانیاں پہنچی ہیں جس کی وجہ سے یہ انکشاف کیا جانا ضروری تھا تاکہ ’’ حساس لکھاری‘‘ حق تلفی پر ’’ قلم چھوڑ‘‘ ہڑتال کی جانب مائل نہ ہوں۔ یہ واقعات خا ص طو رپر مقابلوں کے لیے منگوائی جانے والی تحریروں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے مگر اب چونکہ سچ جھوٹ کو ثابت کرنے کے ذرائع زیادہ ہو چکے ہیں تب ہی یہ واقعات اب کم ہو رہے ہیں۔
اگر بات ہو اعزازی شمارے کی تو اس حوالے سے بھی نئے لکھاریوں کوبہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہ شکایت کم ہو رہی ہے مگر آج بھی چند رسائل اعزازی کاپی سے نئے لکھاریوں کو محروم رکھتے ہیں. یہی نہیں بلکہ وہ اعزازیہ بھی دینے سے قاصر ہیں۔ تاہم چندرسائل بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا اورجگنو، تعلیم و تربیت، ادبیات اطفال پاکستان، ہلال فار کڈز، ہمدرد نونہال، نوعمر ڈائجسٹ ، بچوں کا تنزیل، کرن کرن روشنی اور پیغام وغیرہ نئے لکھاریوں کو رسالے کی فراہمی اور اعزازیہ کو یقینی بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے نئے لکھاریوں کی اس حوالے سے شکایات کم سننے کو مل رہی ہیں۔ ایک بات کی جانب راقم السطور توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہے کہ لکھاریوں کو معاوضہ دیا جائے تو پھر وہ رسائل کو باآسانی خرید بھی سکتے ہیں یوں رسائل کی فروخت بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس جانب رسائل اپنے لیے خاطر خواہ اشتہارات حاصل کر کے یہ سلسلہ شروع کریں تو اُن کی مسلسل اشاعت بھی خوب ہوتی رہے گی۔
ادب اطفال سے وابستہ لکھاری چوں کہ مستقبل کی نسل کو سنوارنے کے لیے مختلف موضوعات پر لکھ کر اُن کی تعلیم وتربیت میں کوشاں ہیں، اس لیے اُن کے مسائل کو حل کرائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اپنا یہ فریضہ سرانجام دیتے رہیں۔ اس عمل سے یقینی طور پر ادب اطفال کی ترویج ترقی بھی خوب ہوتی رہے گی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آج کے نئے لکھاری کل کے نامور لکھاری ہوںگے تو آپ اُن کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں کہ کل کو اس بات کا شکوہ کریں کہ اُن کو پہلے وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ حق دار تھے۔
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق
بہت موثر تحریر !