تحریر: عظمیٰ طور
مستنصر حسین تارڑ کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ کس لیے ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟ اور کیوں چاہتے ہیں؟ یہ سب بڑی اور گہری باتیں ہیں۔
میری تقریر تھوڑی لمبی ہے یعنی میرا بیانیہ ذرا طویل ہے اس لیے میں نے اسے قدرے سمیٹتے ہوئے چند نظمیں لکھ ڈالیں تاکہ خلاصہ ہوجائے اور مجھے لگی بندھی سی شاعری کرنے والی شاعرہ سمجھ کر اِدھر اُدھر نہ کردیا جائے۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ کتابیں لکھنے والوں کو “کتابی باتیں کرتے ہو!‘‘ اور شاعر لوگوں کے جذبات کو “جسٹ شاعری‘‘ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ میں نے کئی تقریریں، بیانیے لکھے، مٹائے۔ کیا لکھوں کیا نہ لکھوں؟ میں کچھ زیادہ باتیں نہیں بناسکتی۔ میں نہیں بتاتی، نہیں سناتی کہ مستنصر حسین تارڑ کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ کس لیے ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟ بس چار چھ نظمیں ان کے نام کرتی ہوں:
“ایک سوال‘‘
سنگلاخ چٹانوں میں
رستہ بناتے ترے قدم
منجمند کرتی بے سَمت ہواؤں میں
بے ثبات موسموں کی قسم کھاتی
تیری آنکھیں
خدا کے قرب کی متمنی
پہاڑوں کو سر کرتی تیری سوچ
جھیلوں کے سکوت کو محسوس کرتا
تیرا دل
برف کی سفیدی کی قسم کھاتی
تیری ہمتیں
اور
سمیٹ کر لائی گئیں تمام
کوہ نوردی کی یہ داستانیں
اپنے قلم سے کاغذوں کی زینت بنانے والے
دیس بدیس پھرنے والے
اے بنجارے بتا!
زندگی کیا ہے؟
“شناسائی‘‘
شناسائی کی سیڑھیوں کے ہر قدم پر
تمہارے قلم کی روشنائی سے
رنگے اِن صفحوں پر
کہ جن صفحوں پر میں نے
کئی پانی اترتے دیکھے ہیں
کبھی کسی صفحے پر میں نے
برف ہوتی ہوائیں بھی جھیلی ہیں
کہیں پہاڑوں سے گزرتے
بل کھاتے راستوں کی ادا پر
مَیں نے
تمہاری مسکراہٹ کو
صفحوں کی پھڑپھڑاہٹ میں
سنا ہے
تمہارے قدموں کی چاپ
پتھروں پر پڑتے ہی
دریاؤں کو بپھرتے بھی دیکھا ہے
مَیں نے
مَیں نے یہ بھی دیکھا ہے
درختوں سے لپٹی ہوائیں
جب پتے گراتی ہیں
تمہارے راستے پھر بھی چلتے ہیں
ہوائیں سمت بدلتی ہیں
برف پانی پگھلتے ہیں
سبھی ہمراہ ہوتے ہیں
منظروں کے چہرے نکھرتے ہیں
تمہاری آنکھ میں تصویر ہوتے ہیں
شناسائی کی سیڑھی پر
میں یہ محسوس کرتی ہوں
تمہاری تخلیق کی آنکھ
جو بھی دکھاتی ہے
اُسے سہنا پڑتا ہے
شناسائی اتنی بھی آسان نہیں تم سے
”زندگی کیا ہے؟‘‘
زندگی پہاڑ ہے؟
زندگی جھیل ہے؟
جھیل کا پانی ہے؟
یا پانی پہ چلتی ناؤ ہے؟
چپو ہے یا سیفٹی جیکٹ ہے؟
کوئی برفیلی چوٹی ہے؟
پھولوں میں سے ہو کر گزرتا رستہ ہے؟
زندگی جوگرز میں مقید سفر کی چاہ کرتے پاؤں ہیں؟
یا ہائیکنگ اسٹک ہے؟
زندگی خطرناک پُل سے گزرنے کے لمحے کو گزرنے دینے کا نام ہے؟
زندگی برف کی سفیدی ہے؟
برف کی ٹھنڈک ہے؟
یا برف کے موسم میں کسی مہربان کی سلگائی ہوئی آگ ہے؟
زندگی سبزے سے پھوٹتا گلاب ہے؟
زندگی نیلے رنگ کی طرح پھیلا باب ہے؟
زندگی گاڑی کا وہ پہیہ ہے جو زور پر گھسنے لگتا ہے؟
یا پھر نیچے اترتے ہوئے بریک کو کنٹرول کرنے کا ہنر ہے؟
زندگی کونسا گیئر ہے؟
زندگی بیک ویو مرر تو نہیں؟
زندگی گرم کمرے میں بیٹھ کر قلم کی سیاہی سے دامن بھرتے کاغذ کی پھڑ پھڑاہٹ ہے؟
یا ہاتھ میں پکڑی کتاب ہے؟
“یومِ تارڑ‘‘
آج تمہاری سالگرہ ہے
دیکھو ہم سب
تم سے ملنے آئے ہیں
تمہاری باتیں جو ہم پل پل دہراتے ہیں
اور کئی کئی بار پڑھی تمہاری تحریریں،
ہم کو ازبر ہوتی ہیں
گاہے گاہے تمہاری آنکھ کے جادو کا ذکر کرتے ہیں
اس جادو کا
جو جادو تم
اپنے صفحوں پر کئی کئی گھنٹے اتارنے میں صرف کرتے ہو
ہماری خاطر
اب کہ ہم پھر حاضر ہیں
اور جذبے ہمارے کورنش بجا لاتے ہیں
اور چاہتے ہیں
بھینٹ دو اتنی
اور
پہلے کی طرح
اس بار بھی
تم اپنی سالگرہ کا کیک ہمارے سنگ کاٹو!
اوہدے لفظاں نال
ٹر پیندیاں نیں اَکھاں میریاں
جِدروں جِدروں وی لنگھدا اے
ٹُر پیندے نیں منظر نال
سَاہ کِھچ لیندیاں نے راہواں ساریاں
قدماں نوں فیر بوسے دیندیاں
سینے اندر سمو لیندیاں نیں
ہوکے بھر بھر بلووندیاں نیں مڑ
او وی کملا ٹر پیندا اے
راہواں تے جَد پیر دَھردا اے
کملیاں ہو جاندیاں نیں ہواواں فیر
اوہدی اکھ نال تکن والے
جھلے کملے ہو جاوندے نیں
چَھڈ کے اپنا باغ باغیچہ
ٹُر پیندے نیں
پا لیندے نیں اوکھے پینڈے
فیر نیئں مڑدے
تُوں کیوں جَھلی ہوون لگی ایں؟
پچھلے پیری مڑ نیئں سکدی؟
ہن توں عظمیٰ پہلے وانگوں جڑ نئیں سکدی
ایک آخری نظم مندرجہ ذیل سطروں کی کیفیت کے نام
مشاہد کی آنکھیں بالکل خشک رہیں اتنی خشک کہ چبھنے لگیں، جیسے قحط زدہ زمین میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ شرؤڈ فاریسٹ میں بہت سارے قدیم درخت تھے۔ اُس نے ایسے درخت کا انتخاب کیا جس کے تنے کو وہ اپنے دونوں بازوؤں میں بخوبی سمیٹ سکتا تھا اور پھر اس کے گلے لگ کر رونے لگا۔ (اقتباس “راکھ‘‘، مستنصر حسین تارڑ)
“الجھن‘‘
میں کئی دن سے،
خود سے چھپ رہا ہوں
میری آنکھیں ضبط کے باعث
جلنے لگی ہیں
سرخ ڈورے
تمام راز افشا کر رہے ہیں
میں درد کی کاٹ دار چھلنی سے
خود کو گزرتے دیکھتا ہوں
لیکن کیا کروں؟
مَیں “مشاہد” نہیں ہوں
کہ جو
اپنی آنکھ کی دراڑوں کو بھرنے کی خاطر
اپنے بازوؤں کے ناپ کے کسی
قدیم درخت سے لگ کر
کچھ پل رو لوں!
ان تمام محبتوں کو سلام جو ”مستنصر حسین تارڑ‘‘ کی کتب سے پڑھنے والوں میں منتقل ہوئیں۔
(دلیل)