فخرالدین کیفیؔ صاحب کی ”تُک بندیاں‘‘ کچھ عرصہ پہلےشائع ہوئی تھی۔ اس سے کافی عرصہ پہلے آپ نے چیدہ چیدہ لوگوں کو یہ کتاب برقی شکل میں بھجوا دی کہ اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کر دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو جو تبصرہ انہیں موصول ہوگا، بھلے موافقت میں ہو یا مخالفت میں، چاہے کڑی نکتہ چینی کی گئی ہو، اس کو کتاب کا حصہ بنایا جائے گا، لکھنے والے کی تصویر بھی شامل اشاعت کی جائے گی۔ (آپ نے جو کہا اس پر عمل بھی کیا۔ کتاب میں وہ سب تبصرے موجود ہیں جو اس پر کئے گئے)۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جن کو یہ برقی کتاب بجھوائی گئی۔ تھوڑی نالائقی، کچھ سستی، بہت سا غم روزگار کہ کرونا نے جہاں بہت سے لوگوں کو ”کاٹا‘‘، میں بھی اس کے ہاتھوں کٹنے والوں میں شامل تھا۔ ان حالات میں میں کیفیؔ صاحب کو کچھ بھی لکھ کر نہ بھیج سکا، ایک حرف تسلی بھی نہیں۔ اب جو کتاب ہاتھ میں آئی ہے تو میں تو اس کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایسی دیدہ زیب کتاب، ایسی خوب صورت کتاب، ایسی دل کش کتاب، ایسی من موہنی کتاب۔ جس جس نے یہ کتاب نہیں دیکھی وہ جان لے کہ یہ کتاب اپنے اندر ایک ایسی خوب صورتی، دلکشی اور جاذبیت رکھتی ہے جو اسے دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی ہے۔ سچ پوچھیں تو میں نے زندگی میں بے شمار کتابیں پڑھی اور دیکھی ہیں، مگر جو حسن و دلکشی اس کتاب میں ہے ویسی کہیں نہیں دیکھی۔ اس کی جسامت اور ضخامت انتہائی موزوں، جلد دیدہ زیب اور بامعنی، ساری کی ساری کتاب روغنی کاغذ پر چھپی ہوئی، کمپوزنگ شاندار، پھر رنگوں کا حسین امتزاج، کتاب کو پڑھنے سے پہلے دیکھنا پڑتا ہے، بار بار دیکھنا پڑتا ہے، رہ رہ کے دیکھنا پڑتا ہے، تادیر دیکھنا پڑتا ہے، گویا کہ ایک دلہن ہے جسے دیکھتے ہی چلے جانے کو دل کرتا ہے، آدمی سوچتا رہتا ہے کہ ہاتھ لگاؤں یا نہ لگاؤں، کہیں ہاتھ لگانے سے میلی نہ ہو جائے۔
یہ کتاب مجھے اپریل کے اوائل میں ملی تھی۔ کتاب کے آنے کے چند دنوں بعد ہی مجھے کرونا نے آ کاٹا، اس کے بعد جو کچھ مجھ پر گزری وہ میں ایک الگ تحریر میں لکھ چکا ہوں، قصہ مختصر یہ کہ لگ بھگ ایک ماہ اس کتاب کو نہ دیکھ سکا۔ بہر حال کرونا کے ہاتھوں بچ نکلنے کے بعد یہ کتاب ہاتھ میں آئی، اور پھر،
”وہ آیا، اس نے دیکھا اور اس نے فتح کر لیا۔‘‘
کتاب کو پہلی بار دیکھنے سے لے کر اب تک کیفیؔ صاحب اور اس کتاب کے بارے میں جو کچھ سوچا ہے جو کچھ لکھنے کا سوچا ہے، اگرمیں وہ سب لکھ دوں تو ایک کتاب مرتب ہو جائے۔ مگر اپنی کم مائیگی پر نظر پڑتی ہے تو اس خیال سے باز آ جاتا ہوں، اب بس اتنا ہی لکھوں گا جتنا آپ ایک نشست میں پڑھ سکیں اور پڑھنے کے بعد ہضم کر سکیں۔
کیفیؔ صاحب کے بارے میں ایک دو باتیں کر دوں۔ کیفیؔ صاحب سے جو چیز مجھے وابستہ کرتی ہے وہ ان میں ”میرا‘‘ پایا جانا ہے۔ ان کے خیالات، ان کا انداز، اس کو پیش کرنے کا طریقہ، ہلکی پھلکی نوک جھونک، طنز و مزاح ، شاعری اور سب سے بڑھ کر ان کی حب ا لوطنی اور پاکستانیت۔ کیفیؔ صاحب کو دیکھنے اور پڑھنے کے بعد مجھے آئینہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ بے شمار مرتبہ کسی موضوع پر سوچا کہ کچھ لکھوں اچانک نظر پڑی تو کیفیؔ صاحب کی تحریر نظروں کے سامنےموضوع وہی اور مجھ سے کہیں بہتر، مہذب، کٹیلے اور چبھیلے انداز میں جس کے بارے میں جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں اور میں نے تو یہ دیکھا ہے اظہار خیالات میں مجھ سے کوسوں آگے، کہیں بہتر۔
وہ شخص میں ہی تھا یہ بچھڑ کر پتا چلا
جس کی محبتوں میں زمانے بتا دیے
میرا ایک شاگرد تھا، وہ کشور کمار کے گائے ہوئے نغمے بڑے رساؤ اور چاؤ سے گایا کرتا تھا۔ بہت خوش گلو تھا، آواز میں بھی سُر تھا، ہمیشہ گانے سے پہلے کہتا تھا، پیارے دوستو میری آواز اور انداز میں کشور کمار کو مت ڈھونڈیں میں فیصل قاسم ہوں، مجھے سنیں، مجھے دیکھیں۔ جب وہ یہ کہ کر اپنا گانا شروع کرتا تو ایک سماں بندھ جاتا۔
کیفیؔ صاحب کے کلام میں کیفیؔ کو ہی دیکھنا چاہیے، اس میں آپ اقبال، غالب، فیض یا اکبر الہ ابادی کو دیکھنے کی کوشش کریں گے تو مایوس ہو جائیں گے، کیفیؔ کو دیکھیں گے تو خوشی کی انتہا پر پہنچ جائیں گے۔
اچھا جس کلام کو کیفیؔ صاحب تُک بندی کے نام پر پیش کر رہے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ بعض بڑے بڑے شاعروں کا کلام بھی اسی طرح کی تُک بندی ہوتا ہے مگر چوں کہ ان کے فین کلب نے ان کو شاعر مشہور کروا دیا ہوتا ہے اس لیے وہ شاعر ہی سمجھے جاتے ہیں۔ میرے ایک رفیق کار تھے فرہاد علی قمر راز، پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج کے سند یافتہ تھے، ایک بار جب وہ سٹیج پر کھڑے ہو کر اپنا کلام سنا رہے تھے تو تادیر ہم سمجھتے رہے کلام کی تمہید باندھ رہے ہیں. وہ تو جب سٹیج سے اتر آئے تو پتا چلا کہ وہ کلام پیش کر چکے ہیں۔
اس کے بعد ایک دو اور اورینٹل کالج کے فارغ التحصیل ”شاعروں‘‘ کو سنا تو پتا چلا کہ وہاں بچوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ تم اُردو ادب میں سند یافتہ ہو، جو کچھ بھی کہہ دو گے وہ شاعری ہوگی۔ پھر وہ تاعمر اپنے اساتذہ کے کہے کا مان رکھتے رہتے ہیں۔ پھر جب وہاں کے کچھ اساتذہ سے ملاقات ہوئی تو ان کی باتوں سے اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔
کیفیؔ صاحب کی ”تُک بندیوں‘‘ میں بڑے بڑے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، معاشرے کے رستے ناسوروں کی نشان دہی کی گئی ہے، بڑے بڑے تلخ موضوعات کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا گیا ہے۔
اچھا میں یہاں کیفیؔ صاحب کا کوئی کلام پیش نہیں کر رہا، ان کا کلام ہے وہ خود پیش کریں۔ اگر آپ کیفیؔ صاحب کے باقاعدہ قاری ہیں تو وہ وقتاً فوقتاً اپنا کلام، اپنی دیوار پر (فیس بُک وال پر) سجاتے رہتے ہیں، وہاں پڑھ لیں۔ زیادہ اچھا ہے آپ کتاب خرید لیں، اگر آپ محض اپنی بک شیلف میں کتابوں کے آخری دور کی ایک کتاب سجانا چاہتے ہیں تو یہ کتاب 1500 روپے کی ہے. اگر آپ کیفیؔ صاحب کو اپنے باذوق ہونے کا یقین دلا دیں تو صرف 1000 روپے کی ہے، اگر آپ یورپ میں ہیں اور منگوانا چاہتے ہیں تو 10 یورو کی ہے اور اگر آپ کیفیؔ صاحب کے میرے جیسے دوست ہیں تو…
دل کی قیمت اک نگاہ ناز ہے
آگے جو آئے ترے ایمان میں
نوٹ: مضمون کے مصنف پروفیرسلیم ہاشمی، تحریک نفازِ اُردو، لاہور کے روحِ رواں ہیں.