جن لوگوں کی علمیت کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں، اُن میں جناب م۔ص۔ایمن سرِ فہرست ہیں۔ مختلف موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور تقریباً اتنی ہی’’پائپ لائن‘‘میں رکھتے ہیں۔ مزاح کے شعبے میں ان کی دست درازیوں کا اندازہ ان کی کتابوں کے ناموں سے لگائیے:
’’کنگلے کا بنگلہ‘‘، ’’وفا کی وفات‘‘، ’’ہنس بے، توفیق‘‘ اوراب ’’سنگِ بے بنیاد‘‘۔ آخر الذکر (زیرِ تبصرہ) کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات دیکھیے:
’’بیت الخالا‘‘، ’’عید کے کِیڑے‘‘، ’’پہاجی‘‘وغیرہ۔ ایمن صاحب بات سے بات، کاٹ سے کاٹ اور گھات سے گھات نکالنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ’’سنگِ بے بنیاد‘‘ (جسے مصنف نے خود ’’اُوٹ پٹانگ‘‘ قرار دیا ہے) موضوعات کے لحاظ سے کسی ایک خانے میں ’’فِٹ‘‘ نہیں کی جاسکتی۔ مصنف نے طنزومزاح کے تین چوکھٹے بنا دیے:
ذکاوتِ حس، طنزیات اور طنزیہ و مزاحیہ افسانے۔ انھوں نے ایک چوتھا خانہ ’’نصفانے‘‘ کا بھی بنایا ہے۔ آپ اس کتاب کو جہاں سے بھی شروع کریں گے، یہ وہیں سے آپ کے ساتھ ہوجائے گی۔ آپ کہیں ہنسیں گے، کہیں جھنجلائیں گے، کہیں قہقہہ لگائیں گے اور کہیں فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہوجائیں گے لیکن کتاب سے رشتہ (کم ازکم متعلقہ مضمون کے اختتام تک) قائم رہے گا۔ یہی نہیں، آپ کچھ نہ کچھ سیکھتے بھی جائیں گے۔ ’’پیازی انجلش‘‘ میں تو انھوں نے انگریزوں کو خود ان کی زبان سکھادی ہے۔ ایسے ایسے نکتے نکال کر لائے ہیں کہ انگریزی کا بابائے لغت سیموئیل جانسن (Samuel Johnson) زندہ ہوتا تو ان کو سامنے بٹھا کر اپنی لغت پر نظرثانی کرتا اور پھر وہ اس کا انتساب اُن ہی کے نام کر دیتا۔ اسی قسم کی چھیڑچھاڑ انھوں نے اُردو لغت کے ساتھ بھی کی ہے۔ مثلاً اس کتاب کے ایک مضمون ’’یہ گالی نہیں ہے‘‘ میں ایک ترکیب کا ذکر ہے جسے لغت ’’دشنام‘‘ (گالی) قراردیتی ہے، مگر ان کے نزدیک وہ بے ضرر ہے۔ المختصر، یہ ایک دلچسپ اور علم افروز کتاب ہے جس کے بعض مضامین بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
(نوائے وقت)
نامور ادیب م ص ایمنؔ اکتوبر 1958ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1976ء میں پاک فوج میں ملازمت اختیارکی اور ساتھ ہی اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اُن کا بنیادی تعلق ہری پور سے ہے۔ آپ کے والد 1938ء میں کراچی چلے گئے تھے اور پاکستان آرمی میں ملازمت ملنے کی وجہ سے وہیں کے ہو رہے۔ م ص ایمنؔ کو مطالعے اور لکھنے لکھانے کا شوق بچپن سے ہی تھا، اپنے وقت کے ممتاز رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ م ص ایمنؔ کے قلمی نام سے سب سے پہلے اخبارِ خواتین میں لکھنا شروع کیا۔ ’’سات آٹھ‘‘ کتابوں کے مصنف ہیں ۔چار پانچ یوں کہ ان کی دو کتابیں ایک ہی جلد میں ہیں۔ آج کل ’’ہڑتال ‘‘ کے نام سے پر مزاح ناول لکھ رہے ہیں۔ کئی ہنر جاننے کے باوجود اپنی جزوقتی لائبریری میں انہوں نے خود کو علم کی ترویج کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ 1983ء سے ایمن لائبریری کے انصرام میں مصروف ہیں۔ 2002ء میں انہوں نے قبل از وقت ریٹائر منٹ لے لی اور تصنیف وتالیف کی سمت مکمل طور پر رُخ کیا۔ م ص ایمنؔ ہنسانے کے ساتھ ساتھ رلا دینے والی تحریریں لکھنے پر بھی قادر ہیں، یعنی بیک وقت سنجیدہ نگار بھی ہیں اور مزاح نگار بھی۔ افسانے، ڈرامے، خاکے، کہانی اور ناول سب پر طبع آزمائی کی ہے۔ تحقیق، تاریخی، مذہبی، سماجی عناوین پر بھر پور گرفت رکھتے ہیں۔ غرض وہ سب خوبیاں جو ایک ادیب میں ہونی چاہیئیں، م ص ایمنؔ میں موجود ہیں۔ آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں، اس کے متعلق ایسی ایسی جہتیں تلاش کرتے ہیں کہ قاری کے مطمئن ہونے تک اس موضوع سے نہ خود نکلتے ہیں نہ قاری کو نکلنے دیتے ہیں. غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں خواہ ناول ہوں یا مضامین، نایاب معلومات سے لبریز ہوتی ہیں۔ اب تک ان کی آٹھ کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ کتاب کی کمپوزنگ، ڈیزائننگ اور پیج میکنگ خود ہی کرتے ہیں، حتیٰ کہ کتاب کا سرورق بھی خود ہی بناتے ہیں. اسی لیے ان کی کتابوں میں دلکشی بھی پائی جاتی ہے۔ ادب میں شان الحق حقی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی صاحب کو استاد تسلیم کرتے ہیں۔ ان کوادبی دنیا میں روشناس کروانے والے مرحوم ضیاء الحق قاسمی ہیں۔ م ص ایمنؔ بچوں کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ آپ کی کئی کہانیاں بچوں کے رسائل میں شائع ہوکر داد پاچکی ہیں۔ سنجیدہ افسانے بھی لکھتے ہیں لیکن ان میں بھی مزاح کی چاشنی ضرور شامل ہوتی ہے۔ تیکنیکی تحریریں لکھنے میں بھی انہیں ید طولیٰ حاصل ہے۔
بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔’’کتاب نامہ‘‘ کی 9 دسمبر 2012ء کی اشاعت میں م ص ایمنؔ کے فن اور شخصیت کے حوالہ سے تفصیلاً بیان کیا گیا تھا. آپ کی شائع شدہ کتب میں ”ہاؤس فُل 2001‘‘ (2000ء)، ”گلوبل عید‘‘ (2004ء)، ”کنگلے کا بنگلا (ناول – 2010ء)، حسبِ توفیق (2014ء)، ”عالمی حماقت کا جوتوں سے علاج‘‘ (2014ء)، ”وفا کی وفات‘‘ (ناولٹ-2018ء)، ”عالمی ورثہ‘‘ (2020ء)، اور ”سنگِ بے بنیاد‘‘(2021ء) شامل ہیں.