”کتاب گھر“ اور ملک غلام محمد کی خدمات – ثاقب محمود بٹ

کتابوں سے محبت رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو ”کتاب گھر، راولپنڈی‘‘ سے واقف نہ ہو. میں خود بھی کئی بار معیاری کتب کے حصول کے سلسلہ میں ”کتاب گھر‘‘ کا چکر لگا چکا ہوں. ایسی ہی محبت سے سرشار ایک روز میں پاکستان کے ترقی پسند اشاعتی ادارے ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ کی شائع کردہ کتاب ”بکھرتا سماج‘‘ کے حصول کے لیے ”کتاب گھر‘‘ پہنچا. یہ کتاب ہمارے پیارے بزرگ، دوست اور استاد فرخ سہیل گوئندی کی تحریر کردہ ہے. ”کتاب گھر‘‘ میں میری ملاقات وہاں کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب خالد مسعود سے ہوئی. ”کتاب نامہ‘‘ کے حوالہ سے میں نے خالد صاحب سے ان کے ادارہ کی تاریخ جاننا چاہی تو انہوں نے میری کم علمی پر مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ بہت لمبی کہانی ہے، کسی روز بیٹھ کر بات کریں گے. یوں وقتی طور پر بات آئی گئی ہو گئی. اس کے بعد بھی متعدد بار ”کتاب گھر‘‘ کے چکر لگتے رہے. نہ صرف راولپنڈی برانچ بلکہ اسلام آباد کے شہرِ کتاب میں ”کتاب گھر‘‘ بھی مسلسل جانا آنا رہا. ایک روز ہمت کر کے خالد صاحب سے تفصیلی ملاقات کا وقت لیا اور اتوار کا روز طے پایا.

ملاقات کے روز 11 بجے خالد مسعود صاحب کے دفتر پہنچا. اتفاق سے وہاں ان کے دونوں صاحب زادوں علی مسعود اور حسن مسعود سے بھی ملاقات ہو گئی جو اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بخوبی بٹا رہے ہیں. ملاقات کے دوران خالد صاحب نے ایک بہت بڑا ڈبہ منوایا جو آپ کے والد صاحب کی جانب سے شائع کردہ ناولوں سے بھرا پڑا تھا. خدا خدا کر کے ناول دیکھنے شروع کیے…

کیا وہ ”جاسوسی پنچہ سیریز‘‘ کے ”فرار‘‘، ”سانپوں کا بادشاہ‘‘، ”خونی بھنورا‘‘، ”خفیہ اوزار‘‘، ”موت کی شعاع‘‘ یا ”پیلی کوٹھی‘‘ ہوں یا ”کامران سیریز‘‘ کے ”خونین سالگرہ‘‘، ”خطرناک گروہ‘‘، ”خطا کا پتلا‘‘، ”پتھر کی انگوٹھی‘‘، ”کیمرے کا راز‘‘، ”زہر کی پُڑیا‘‘، ”جادو کی چابی‘‘، ”باڈی گارڈ‘‘، ”اسمالڈی کا ہار‘‘، ”آخری فیصلہ‘‘، ”ہیروں کی تلاش‘‘ یا ”سونے کے چوری‘‘ جیسے شہرہ آفاق تراجم…

ناولوں‌کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جادو کے اس ڈبہ سے جاری رہا. خالد مسعود صاحب خود بھی اس سلسلے کے کسی انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں. آپ ناول اٹھاتے جائیں اور خالد صاحب سے اس ناول کا حال پوچھتے جائیں. ناولوں کے تعارف کے ساتھ ساتھ خالد صاحب نے جو تعارف اور باتیں ہمیں بتائیں ان کی تفصیل کچھ یوں‌ ہے کہ کتاب گھر، راولپنڈی کے بانی پروپرائٹر محترم ملک غلام محمد صاحب ٹیکسلا کے علاقے خرم گجر میں 1918ء میں پیدا ہوئے. دور افتادہ پہاڑی علاقہ اور ماں کے سایہ کے بغیر بچپن اور نوجوانی گزری، اسی وجہ سے زیادہ تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے. ملک غلام محمد 1936ء میں برٹش انڈین آرمی کے میڈیکل کور میں بھرتی ہو گئے اور دوسری جنگِ عظیم میں سیلون (موجودہ سری لنکا) میں تعینات ہوئے. کچھ عرصہ بعد آپ کا تبادلہ محاذِ جنگ سے ایک صحت افزا مقام کینڈی (Kandy) کر دیا گیا. وہاں امن و امان کی صورتِ حال بہت بہتر تھی جس وجہ سے یہاں دورانِ ملازمت ملک صاحب کو فراغت کے مواقع میسر آئے. آپ نے فرصت کے ان لمحات کو ضائع کرنے کے بجائے ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے رفقائے کار سے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی.
1945ء میں دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو آپ کو ملازمت چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا. سیلون سے بذریعہ بحری جہاز بھارت، دہلی اور پھر بذریعہ ٹرین براستہ واہگہ، لاہور سے ہوتے ہوئے واپس اپنے گاؤں خرم گجر، ٹیکسلا پہنچ گئے. کچھ سال یہاں‌گزارے کہ غمِ روزگار کے سلسلے میں راولپنڈی منتقل ہو گئے اور نیا محلہ چوک میں ایک دکان 14 روپے ماہانہ کرایہ پر حاصل کر کے ”کتاب گھر‘‘ کے نام سے ایک بک سٹال قائم کر لیا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی بک سٹال لائبریری کی شکل اختیار کر گیا جہاں سے علم کی پیاس بجھانے والوں کو ناول اور کتابیں وغیرہ کرایہ پر مہیا کی جاتی تھیں.
یہ 1948ء کا ذکر ہے کہ جب لوگ تفریح اور ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے لیے سرِ شام لائبریریوں کا رخ کیا کرتے تھے کیوں کہ اس وقت گلی کوچوں میں‌جا بجا لائبریریاں موجود تھیں. ایسے میں ”کتاب گھر‘‘ کی مقبولیت بھی یقینی تھی.
اسی دوران ایک وقت ایسا آیا کہ ملک غلام محمد صاحب نے خود سے کتابیں شائع کرنے کا فیصلہ کیا. اس کی محرک یہ وجہ بنی کہ ملک صاحب کے ایک سابق رفیقِ کار اور دوست دیانند ورما نے دہلی میں اپنا اشاعتی ادارہ شروع کر رکھا تھا جس کے تحت ہر ماہ ”جاسوسی پنجہ“ سیریز کے دو ناول شائع کیے جاتے تھے. ان کی ایک ایک اعزازی کاپی ملک غلام محمد صاحب کو بھی بذریعہ ڈاک بھیج دی جاتی تھی. ان ناولوں کے مطالعہ کے بعد ہی ملک صاحب نے پاکستان سے ان کی اشاعت کا اہتمام کیا. 1952ء میں ملک غلام محمد صاحب نے ”کتاب گھر‘‘ کے زیرِ اہتمام ”ایثار“ اور ”جذبہ انتقام“ کے عنوان سے دو ناول شائع کیے. کچھ عرصہ بعد دوسرا سیٹ ”لغزش“ اور ”رنگین اندھیرے“ بھی بازار میں فروخت کے لیے پیش کر دیے گئے. اس طرح شاید چھ یا آٹھ ناول، گیارہ گیارہ سو کی تعداد میں شائع ہوئے. اسی دوران آپ نے اپنے دوست دیانند ورما کو قائل کر لیا کہ ”جاسوسی پنجہ“ سیریز دہلی سے شائع ہونے کے بعد پاکستان ایڈیشن کے طور پر راولپنڈی میں ”کتاب گھر‘‘ سے شائع کیے جانے چاہیں. یوں آپ نے ان ناولوں کو مقامی سطح پر، راولپنڈی سے شائع کرنے کے حقوق حاصل کیے. ایسے میں ایک دلچسپ بات یہ رہی کہ ان ناولوں کی ایک کاپی اور رنگین سرِ ورق دہلی سے ہی چھپ کر آتے تھے، جب کہ از سرِ نو کتابت کروا کر باقی چھپائی اور جلد بندی یہاں راولپنڈی میں مکمل کی جاتی تھی. یہ سلسلہ دس ناولوں اور دو سال تک ہی جاری رہ سکا. پاک بھارت سفارتی تعلقات میں تناؤ آنے کے باعث تجارت کے ساتھ ساتھ ڈاک کا نظام بھی متاثر ہونے لگا، جس کی وجہ سے دہلی سے ”جاسوسی پنجہ“ کے چھپے ہوئے رنگین ٹائٹل اور نمونے کی ایک کاپی میں غیر معمولی تاخیر ہونے لگی یوں ”جاسوسی پنجہ سیریز“ کو ہمیشہ کے لیے بند ہونا پڑا.
”جاسوسی پنجہ“ سیریز کے بعد ”کتاب گھر‘‘ سے طبع زاد رومانی ناول چھاپنے کا سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت کے نامور لکھاری ابنِ حیات کے تحریر کردہ تھے. یہ سلسلہ بھی دراصل لکھنؤ سے اُس وقت کے معروف سلسلہ ”رومانی دنیا“ سے متاثر ہو کر شروع کیا گیا تھا. ”رومانی دنیا“ سیریز کے ناول بھی ملک صاحب لکھنؤ، بھارت سے درآمد کرتے تھے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ناول بھی بذریعہ ڈاک آنا بند ہو چکے تھے. ابنِ حیات کے ناولوں نے خوب دھوم مچائی. حتیٰ کہ ہر ناول دو ہزار سے زیادہ کی تعداد میں چھپتا رہا. دس بارہ ناولوں کی اشاعت کے بعد مصنف کے نامناسب مطالبات کے باعث یہ سلسلہ بھی روکنا پڑا.

ان سب تجربات سے گزرنے کے بعد ملک غلام محمد صاحب نے خودمختار ہو کر کام کرنے کا سوچا اور فیصلہ کیا کہ عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی کہانیاں اُردو میں ترجمہ کروا کر، ایک سیریز کے تحت شائع کی جائیں. یوں ابنِ صفی کی ”عمران سیریز‘‘ سے ملتے جلتے نام ”کامران سیریز“ کے تحت ملک صاحب نے ناولوں کی اشاعت کا آغاز کیا. 1964ء میں ”کامران سیریز“ کا پہلا ناول ”عجیب مخلوق‘‘ کے عنوان سے گیارہ سو کی تعداد میں چھاپہ گیا لیکن اس کی فروخت تسلی بخش نہ رہی. دوسرے اور تیسرے ماہ مزید ایک ایک ترجمہ چھپ کر مارکیٹ میں پہنچ گیا. ان کی صورتِ حال بھی ویسی ہی رہی اور یہ ناول بھی زیادہ تعداد میں نہ بِک سکے. ایک نیا مسئلہ ان سب ناولوں کے ڈھیر کو سمیٹنے کا تھا کہ جن کی اشاعت مسلسل جاری تھی لیکن فروخت کا سلسلہ تسلی بخش نہ تھا. خالد مسعود صاحب بتاتے ہیں کہ ”کامران سیریز“ کی اشاعت کے چوتھے اور پانچویں مہینے سے صورتِ حال میں بہتری آنے لگی. نئے ناول نہ صرف زیادہ تعداد میں بِکنے لگے بلکہ گزشتہ ناولوں کی طلب بھی بڑھ گئی. یوں دوسرے سال میں‌ ”کامران سیریز“ نے خوب شہرت سمیٹی. اس کی بنیادی وجہ ممتاز عالمی مصنفین جیسے کہ سٹنلے گارڈنر، ڈان بیلانی، اگاتھا کرسٹی، کارٹر براؤن، رچرڈ ایس راتھر، ہیڈلے چیز، اے اے فیئر، برٹ‌ ہالیڈے اور مائیک بریٹ کی نامور تخلیقات اور سراج الدین شیدا، ایف ایم صدیقی، طاہر رانا اور نسیمِ سحر جیسے بہترین اور پیشہ ور مترجمین کی خدمات ٹھہری. ظاہر ہے ایسی شاہکار تخلیقات کو باذوق قارئین نے بھی ہاتھوں ہاتھ لینا تھا. ناولوں کی اشاعت بڑھنے سے مالی معاملات بھی بہتر ہونے لگے. ”کامران سیریز“ کی شہرت کو دیکھتے ہوئے کراچی اور لاہور سے نت نئے ڈائجسٹوں کا اک طوفان اُمڈ آیا. یہ سب ڈائجسٹ پہلی ترجیح کے طور پر ترجمہ شدہ یورپی اور امریکی کہانیاں شائع کرنے لگے. اسی وجہ سے ”کامران سیریز“ کی اشاعت اور طلب میں بھی واضح کمی ہونے لگی. ان حالات میں‌ ملک غلام محمد صاحب نے اپریل 1981ء میں ”کامران سیریز“ کی مزید اشاعت روک دی. البتہ ”کتاب گھر“ کے نام سے قائم شدہ اس ادارہ نے کتب کی فروخت کا کام جاری رکھا.

ان سب حالات کے دوران ہی ملک غلام محمد صاحب کے صاحب زادے ملک خالد مسعود (پیدائش 3 دسمبر، 1956ء) بھی اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ میدان میں‌اتر چکے تھے. آپ نے اپنے والد کے چلتے ہوئے کامیاب کاروبار کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اسے مزید کامیابیوں‌سے ہم کنار کر دیا.

کتب بینی کے فروغ میں‌نمایاں کردار ادا کرنے والے ملک غلام محمد صاحب نے 2012ء میں، 94 سال کی عمر میں وفات پائی.

اس وقت ”کتاب گھر‘‘ راولپنڈی اور اسلام آباد میں‌ کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہے. جناح سپر، اسلام آباد میں واقع ”شہرِ کتاب“ میں بھی ”کتاب گھر‘‘ کا اپنا ایک آؤٹ لٹ قائم ہے جس کی دیکھ بھال خالد مسعود صاحب کے بڑے بیٹے علی مسعود کے ذمہ ہے. جب کہ حسن مسعود ”بُک نیشن‘‘ کے نام سے اپنا آن لائن کاروبار بھی کر رہے ہیں.

”کتاب گھر‘‘ نے ملک میں اور بیرونِ ملک بھی کتابوں کے میلوں میں بھرپور شرکت کی ہے جن میں نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے میلوں کے علاوہ، شارجہ بُک فیئر، متحدہ عرب امارات اور کاکول اکیڈمی میں لگائے گئے میلے شامل ہیں. یہ ادارہ نہ صرف کتب کے فروغ میں کوشاں ہے بلکہ بہت سے کتب خانوں کو عطیہ کتب کے حوالہ سے بھی معتبر نام رکھتا ہے.