جب ہم اللہ کی تخلیق کردہ اس عظیم الشان کائنات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو قوت کشش احسن الخالقین کے تخلیق کردہ ہر فن پارے میں نمایاں ترین انداز میں سامنے آتی ہے. یہ ابدی کشش جن اجزاء ترکیبی سے نمو پاتی ہے وہ کسی بھی حساس دل میں بدیہی طور پر موجود ہوتے ہیں. کہنے کو شاعر معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہے مگر فی الحقیقت اس طبقے کی حساسیت کی پرتیں کاملیت سے سامنے نہیں آسکی ہیں.
ایک حساس شاعر کا تخلیقی سیاق جو اشعار کی صورت میں ہویدا ہوتا ہے، وہ اس کے احساسات کی کاملیت سے ترجمانی نہیں کرتا. البتہ شاعر دھیرے دھیرے اپنی داخلی و خارجی کیفیات کی پرتیں کھولتا چلا جاتا ہے اور یوں اس کے اشعار کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے.
خیبر پختون خوا پاکستان کا سب سے خوبصورت صوبہ ہے جو بے مثال قدرتی نظاروں سے مالا مال ہے اور اس صوبے کے ادباء و شعراء بھی بے مثل ادبی ذوق کے حامل ہیں. انہی میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر عمر قیاز قائلؔ صاحب ہیں اور آج ذکر ہے آپ کی ہی ایک کتاب ”محبت عام کرنا چاہتا ہوں‘‘ کا.
عمر قیاز قائلؔ صاحب کا تخلیقی شعور فہم و ادراک کے نئے زاویے روشن کرتا ہمارے سماج کے مختلف رخ دکھلاتا ہے. ان کا کلام رواں، شستہ و رفتہ ہے:
چاند مانگا تو ستارے ہی مرے نام لکھے
اس نے بے کار سہارے ہی مرے نام لکھے
جن کو اک پل کبھی موجوں نے ابھرنے نہ دیا
اس نے غرقاب کنارے ہی مرے نام لکھے
ڈاکٹر عمر قیاز قائلؔ کی شاعری رجائیت سے بھرپور ہے. وہ محض غم و اندوہ کی کیفیات کو دل آویز انداز میں نظم کرنا نہیں جانتے بلکہ امید کا دامن تھامے بھی دکھائی دیتے ہیں:
تلخیء گردش حالات بدل سکتے ہیں
ہم جو چاہیں تو یہ دن رات بدل سکتے ہیں
وہ ماضی کے کربناک لمحات کو یاد کر کے لمحہ موجود کو تباہ نہیں کرنا چاہتے. یہی تاثر ان کے اشعار میں جابجا جھلکتا ہے.
اب نہ گزرے ہوئے ماضی کو صدائیں دینا
اس دبی آگ کو ہرگز نہ ہوائیں دینا
ڈاکٹر عمر قیاز قائلؔ کی شاعری داخلی و خارجی کیفیات اور احساسات و جذبات کی فراوانی سے عبارت ہے وہ ایام رفتہ کا ذکر کرتے ہوئے قاری کو گہری سوچ میں مبتلا کرتے معلوم ہوتے ہیں:
شب تاریک کے گھر سے مرے ڈیرے نہ گئے
روز خورشید جلے پھر بھی اندھیرے نہ گئے
جب ان کا تخلیقی شعور اشعار کی صورت جلوہ نما ہوتا ہے تو ان دیکھی دنیا میں ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جہاں انسان حقیقت سے آشنائی پاتا ہے، احساسات کا سمندر اسے بلاتا ہے اور وہ رمز حیات سے آشنا ہوتا چلا جاتا ہے.
”محبت عام کرنا چاہتا ہوں‘‘ ڈاکٹر عمر قیاز قائلؔ صاحب کا پہلا مجموعہ کلام ہے. ابتداء ہی میں جس انداز سے وہ مسند سخن پر جلوہ افروز ہوئے ہیں، وہ چونکا دینے والا ہے. آپ کی شاعری کا تاثر نہایت گہرا ہے اور اس بات میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خیبر پختون خوا سے اُردو ادب کی ایک توانا آواز کے طور پر سامنے آئے ہیں.
شاعر، ادیب، محقق اور نقاد ڈاکٹر عمر قیاز خان قائلؔ 3 اگست، 1980ء کو کراچی میں پیدا ہوئے. آپ نے گریجوایشن تک تعلیم بنوں سے حاصل کی. 2002ء میں، شعبہ اُردو، جامعہ پشاور سے اُردو ادب میں ایم اے کی ڈگری، دوسری پوزیشن لے کر حاصل کی. 2012ء میں قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیرہ اسماعیل خان کے شعبہ اُردو سے ”پروفیسر محمد طہ خان، شخصیت و ادبی خدمات‘‘ کے موضوع پر تحقیقی و تنقیدی مقالہ لکھ کر ایم فل میں پہلی پوزیشن حاصل کی. بعد ازاں ڈاکٹر عمر قیاز خان نے 2016ء میں، شعبہ اُردو، جامعہ پشاور سے ”شہزاد احمد کی علمی و ادبی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ کے موضوع پر ایک ضخیم مقالہ لکھ کر پہلی پوزیشن کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. آپ 2003ء سے گورنمنٹ ڈگری کالج، بنوں میں بطور پروفیسر شعبہ اُردو، علمی و ادبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. اب تک آپ کے دو درجن سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں. 2019ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی منصوبے ”پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے تحت ڈاکٹر عمر قیاز خان قائلؔ کی تحریر کردہ کتاب ”’پروفیسر محمد طہ خان، شخصیت اور فن‘‘ شائع ہو چکی ہے.