میرے حصے میں میرا کچھ بھی نہیں
اس سے مل جاؤں تو پاؤں خود کو
(نعمان شوق)
کتابوں کی ایک بہت خوب صورت حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ برسوں برس آنے والی نسلوں کے لیے فہم و فراست کے دروازے کھولے رکھتی ہیں۔ ہماری دنیا جیسے براعظموں، میں ملکوں میں، قوموں میں تقسیم ہے، ویسے ہی وہاں کا ادب بھی اسی طرح شہرت پاتا ہے، لیکن ادیب کی اور ادب کی اہمیت ایک ساتھ رہتی ہے. بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کوئی کتاب کسی ادیب کی پہچان بن جاتی ہے اور بعض اوقات کوئی ادیب کسی ادب کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن دونوں طرف مرکز وہ لفظ ہوتے ہیں جو شور کرتے ہیں، آپ کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، آپ کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ جس دنیا میں آپ رہتے ہیں اس کی وسعت تو اتنی ہے ہی نہیں جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ قارئین کرام! ’’مردہ خانے میں عورت‘‘ یہ کتاب ہندوستان کے مایہ ناز ادیب مشرف عالم ذوقی کے قلم کا ایک اور شاہکار ہے. یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جس میں شناخت کی جنگ ہے جو مسلسل ہے، ایک کرب، ایک مسلسل دکھ ہے جس کو ادیب نے محسوس کیا اور بڑی روانی سے اپنے قلم سے بہنے دیا۔ یہ کتاب بحث کرتی ہے، سوال کرتی ہے، یہ زندگی سے کہیں بھی نہیں ہارتی، طاقت ور اور کمزور کا بھی کوئی رشتہ ہوتا ہے بھلا؟ یہ شناخت کی جنگ دنیا میں کب شروع ہوئی؟ کیا انسان ہونا خود میں ایک شناخت نہیں ہے؟ یہ کہانی کب شروع ہوئی، مشرف عالم ذوقی نے ڈر سے سمہے لوگوں کو دیکھا اور کردار جیتے جاگتے سامنے آتے گئے یوں داستان شروع ہوگئی مردہ خانے میں عورت کی۔
یہ عنوان جیتے جاگتے درگور انسانوں پر بڑی مناسبت سے لکھا گیا لیکن ایسا نہیں ہے. یہ عنوان اس مردہ دنیا پر ہے جہاں سارے انسان سانس تو لیتے ہیں لیکن بولتے نہیں ہیں. گونگے ہیں اور اس وقت مزید گونگے ہوجاتے ہیں جب کسی کمزور پر کوئی ہجوم آکر اپنی طاقت کا اظہا ر کرتا ہے. یہ وہ مردہ خانہ ہے جہاں ایک حساس، ظلم پر آواز اُٹھانے والا پہنچ جاتا ہے. بر صغیر پاک و ہند کے لیے اور جہاں جہاں اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے، ان سب کے لیے یہ کتاب ایک بہتر ین ساتھی ثابت ہوگی۔ کچھ اقتباسات پیش کر نے سے پہلے، کچھ لازوال کردار ہیں اس کتاب کے، جو کہ مسیح سپرا اور گل بانو. ان دونوں کرداروں کے مکالمے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں. اس بات کا بخوبی اندازہ یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کرسکتے ہیں۔
’’زندگی آپ میں سے کچھ نہ کچھ خالی کر جاتی ہے، پیداائش سے موت تک یعنی آخری سانس تک روح کا باقی اثاثہ بھی آپ سے چھین لیتی ہے ۔‘‘ اور کہیں پر یہ کتاب سوال در سوال آپ سے کرتی چلی جاتی ہے جیسا کہ یہ سوال ’’ کیا مذہبی آدمی آئین اور دستور کا خیال نہیں رکھتا؟‘‘
کہانی آگے بڑھتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ ’’وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے
کیوں؟
کیوں کہ ہم نے انھیں خوف زدہ کر رکھا ہے.‘‘
داستان تو شروع ہو گئی تھی لیکن پھر کوئی عمارت آگئی بیچ میں، پھر مشرف عالم ذوقی اس عمارت کے ملبے کو کرید رہے تھے جہا ں ڈھیروں کہانیاں پڑی تھیں. کس کس کو سمیٹنا تھا؟ یہ مشرف عالم ذوقی سے بہتر بھلا کون جان سکتا ہے؟ لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ کو فراموش کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے.؟ کیا تاریخ کی کوئی اہمیت ہے.؟‘‘
’’ایک دن جب زمینیں کھودی جائیں گی، صرف مردہ گھر نکلیں گے۔ لیکن ہم ان مردہ گھروں کی شناخت نہیں کر پائیں گے.‘‘
’’ایک غیر محفوظ مستقبل تمہاری قو م کے لیے ۔‘‘
’’یہ تقسیم پرست ہیں اور گروہوں میں آباد ہیں اور اب یہ پھیل رہے ہیں، ناسور بن رہے ہیں۔ ان کے لہجے میں سختی ہے اور یہ موت فروخت کر رہے
ہیں۔‘‘
زندگی کیا ہے؟
واہمہ
خوف کیا ہے؟
جسم میں ہر لمحہ اُٹھنے والی سونامی لہر۔
موت کیا ہے؟
کہانی آگے بڑھتی ہے اور پھر اس نظام کو جو پوری ہی دنیا میں رائج ہے، اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’اور سنو۔ ان کی جیب بہت بڑی ہوگئی ہے۔
جیب؟ ہاں جیب! اس میں فلائی اوورز، نیشنل انٹرنیشنل بینک ہیں، عدلیہ ہے، ایجنسیاں ہیں، خانہ بدوش ہیں، مذہب ہے اور ہتھیار ۔ پھر باہر کیا ہے؟ موت۔‘‘
’’زندگی واہمہ ہے اور موت حقیقت۔ پھر نمائشی زندگی کیوں ضروری ہے؟‘‘
اس لیے بولو کہ زندہ ہونے کا احساس ہو۔
’’سب کچھ ویسا نہیں ہے، جیسا ایک اندھیری رات میں ہوتا ہے. جب ہم سوئے رہتے ہیں، آرام سے اپنے گھروں میں…
کچھ لوگ اس وقت بھی نیند میں چلتے ہو ئے ہمیں ہلاک کرنے آجاتے ہیں.‘‘
کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے او رموت کا سفر کمزور لوگوں کے سارے گھر وں تک پہنچ جاتا ہے۔
’’تم میں کرشمہ ہے۔ یہ وہم ہے۔ وہم نہیں کرشمہ۔ اس کرشمے کو زندہ رکھو۔ مگر کیسے؟ آزادی ایک سز ا ہے۔‘‘
’’ہم نے اپنے دیوتاؤں کو ناراض کردیا۔ پرانی دنیا، پرانے دستور، پرانے کاغذات‘‘ کہانی یہاں جنم در جنم لیتی ہے. قارئین کرام کہانیوں کا رشتہ جیتے جاگتے انسانوں سے جڑا ہوتا ہے، انسان اور آج کی دنیا جہاں آج بھی بہت سارے فرق پائے جاتے ہیں اور انھیں وہ امتیاز قرار دیا جاتا ہے جس میں دوسری قوموں سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اس غلامی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’غلامی ایک سانپ ہے، جس کے سر کو کچلنا ضروری ہے. غلامی ایک خوف ہے، ایک گیس چیمبر ہے، جس سے آزادی چاہیے.‘‘
قومیں کیسے بنتی ہیں؟ اور پھر آزاد قومیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟ آزادی کے لیے سب بغیر کسی امتیاز کے حصہ لیتے ہیں، پھر کیوں کچھ کم تعداد والے افراد کو غلام بنا لیا جاتا ہے؟ کیوں ان سے ان کے ہو نے کا احساس چھین لیا جاتا ہے؟ یہ اس زمین پر رہنے والے تمام قوموں کا المیہ ہے کہ ہم نے طاقت وروں سے ظلم کرنے کا ہر طریقہ سیکھا لیکن ہم نے اپنے انسان ہونے کا احساس کھو دیا. آج یہ دنیا جو ایک عالمی تجارت گاہ بن چکی ہے، وہاں انسانوں کی ہی بولی لگتی ہے اور انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے لیکن یہاں پر پھر جب قوم موت کے دہانے پرکھڑی ہوتی ہے مشرف عالم ذوقی کسی منصف کے فیصلے کو لکھ دیتے ہیں کہ مایوس نہیں ہونا، ظلم کی رات بہت طویل ہوتی ہے، لیکن ختم ہوتی ہے، یہ بات طے ہے. لیکن مشرف عالم ذوقی اس کتاب میں ظالموں کی ایک وصف بتاتے ہیں کہ وہ کیلنڈر سے تاریخ تک مٹا دیتے ہیں! لکھتے ہیں: ’’وہ ہزاروں کی تعد اد میں آرہے ہیں۔
کون؟
وہ ظلمتوں والے، تاریکی والے، گھٹاؤں والے۔
میں ان کی آہٹ سن رہی ہوں۔
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں، لہو کا سراغ‘‘
قارئین کرام یہ کتاب آپ کو اب پاکستان میں بھی دستیاب ہے، آپ سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور سے رابطہ کرسکتے ہیں. آپ کے ذاتی کتب خانہ میں مشرف عالم ذوقی کی کتابیں نہیں ہیں تو یقین مانیے آپ کی لائبریری ادھوری ہے۔ ادیب کا یہ خاصہ ہوتا ہے کے وہ بنی نوع کی فکر میں گھلتا رہتا ہے اور مشرف عالم ذوقی کا شمار بھی انہی ادیبوں میں ہوتا ہے، جو قلم سے محبت اور انسانیت کا پر چار کرتے ہیں اور جہاں ظلم ہوا، وہاں مشرف عالم ذوقی کا قلم کبھی خاموش نہ ہوا۔
زندگی اب سنسان راہوں پر
زندگی اب سنسان سڑکوں پر
زندگی اب سنسان گھروں پر
اب ایک بدروح کی طرح راہ گیروں کو صدائیں دیتی ہے۔
تو زندگی کی اب کوئی صدا نہیں سنتے ہیں۔۔۔(جاوید اختر ذکی خان)
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ