یہ سفر نامہ رتی گلی اور اس کے آس پاس کی جھیلوں کے متعلق ہے جو کے ہم پانچ دوست دیکھ پائے۔ پانچوں کا تعارف کچھ یوں ہے کہ زین العابدین (بقلم خود)، آفتاب احمد عرف فوجی، ساجد خان، ہمارا شرمیلا ٹریکر، فراز الحسنین، جوان جذبہ والا آدمی اور محمد اسرار، ایک حوصلہ مند بائیکر…
سب سے پہلے تو اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر کہ جس نے ہمیں دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے نوازا اور ہمیں یہ ہمت عطا فرمائی کہ ہم زمین پر اس کی بنائی گئی جنت نظیر جگہوں کو دیکھ پائے۔ نا صرف دیکھ پائے اور محسوس کر پائے بلکہ بہت سی حسین یادیں سمیٹ کر واپس آئے.
اسرار بھائی ہمارے سفرہ منصوبہ میں شامل نہیں تھے، یہ عین وقت پر شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ چاروں نے احباب نے گرم آب و ہوا کو چھوڑ کر کچھ دن کے لیے ٹھنڈی ہواؤں میں جانے کا ارادہ کیا۔ دراصل سیر کے ایسے کئی ارادے تو پہلے بھی بنے اور عین وقت پر منسوخ بھی ہو چکے تھے مگر اس بار میں سوچ چکا تھا کہ اکیلے بھی جانا پڑا تو جاؤں گا کیوں کہ گذشتہ تین ماہ سے میرے ایسے کئی ارادے منسوخ ہو چکے تھے. ایک بار تو عین گھر سے نکلتے وقت اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر اس کے دکھ میں کئی دن گزرے۔ مگر اس بار میرے ساتھ ساجد اور آفتاب بھائی نے بھی پکا وعدہ کیا کہ اب جانا ہی جانا ہے، چاہے کہیں بھی جائیں تاکہ یہ ٹونا جو سفر روک بیٹھا ہے، اسے توڑا جائے. ساتھ ہی فراز بھائی کو میں نے رضامند کر لیا۔ ممتاز ترین ترقی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطانپوری کا شعر کہ:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اب ہمارا گروپ تیار اور نکلنے کو بیتاب…
جس شام کو نکلنا تھا، اِسی دوپہر کو محمد اسرار بھائی کا فون آیا اور باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے ”عالمی یومِ سیاحت‘‘ کی تقریب کی تیاریوں کے لیے مظفر آباد جارہے ہے تو میں نے انہیں بھی ساتھ آنے کا کہا مگر وہ بائیک پر جانا چاہ رہے تھے اور میں لوکل ٹرانسپورٹ پر سو فیصلہ یہ ہوا اسرار صاحب بائیک پر جائیں گے اور باقی لوگ گاڑیوں پر، اور ملاقات ہو گی مظفرآباد جاکر. بقول افتخار عارف:
ہم اہلِ دل ہیں مُحبت کی نِسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں!
اب پہلا کام مظفرآباد پہنچنا تھا مگر لاہور سے ہمیں کوئی سیدھا مظفرآباد لے جانے کو تیار نہیں تھا…
نکلے تری تلاش میں اے بس
اور ہر اڈے پر پہنچ گئے
مگر۔۔۔ اب صرف دو آپشنز تھیں، راولپنڈی جایا جائے یا مانسہرہ۔ رات دس بجے کا وقت تھا تو سوچا سیدھا مانسہرہ جایا جائے. ایک تو مان سنگھ کے شہر مانسہرہ سے کچھ محبت زیادہ ہے اور دوسرا وہاں کچھ بہت اچھے دوست رہتے ہے جن سے شمالی علاقوں کے سفر بہانے ملاقات ہو جاتی ہے۔
چار لوگ، چار ٹکٹیں، چار سیٹیں
چھ گھنٹے، سیدھا مانسہرہ،
آسان سا کام۔۔۔
لیکن ٹھہریے!!!
ہر بار ایسا نہیں ہوتا اور ہر بار جو آپ سوچیں، وہ پورا نہیں ہوتا۔ سفر کی شروعات کچھ ٹھیک نہیں رہیں۔۔۔
جو گاڑی ہمیں ملی، اس کی سیٹیں انتہائی گندی تھیں اور ان کو بار بار کہہ کر صاف کروایا گیا. پھر سیٹوں کے درمیان میں جو جگہ بچتی ہے وہاں پر مُوڑہے لگا کر بندے بٹھا دیے گئے، جس سے آس پاس بیٹھے لوگ بہت تنگ ہو رہے تھے. سواریوں نے شور مچایا مگر کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔
ایک مثال ہے کہ ”گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی چاہیے‘‘ تو جب سیدھے طریقے سے بات نہیں سنی گئی، پھر اس کا علاج ٹیڑھی انگلی سے کیا گیا اور وہ یوں کہ مُوڑہوں پر بیٹھے لوگوں سمجھایا کہ عملہ نے آپ سے پیسے تو پورے لیے ہیں مگر آپ کو سیٹ نہیں دی، لہٰذا آپ اُن سے اپنے آدھے پیسے واپس لیں یا ان سے سیٹ کا مطالبہ کریں. سیٹ چوں کہ کوئی خالی نہیں تھی اور پیسے وہ کم کرنا نہی چاہتے تھے تو اضافی سواریوں نے اپنے پورے پیسے واپس لے کر نیچے اترنا مناسب سمجھا. یوں ہم زرا آرام سے بیٹھ گئے۔
8 ستمبر 2019ء کی صبح گیارہ بجے چلنے والی گاڑی ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ اڈہ سے نکلی اور ہم چل پڑے شمال کی جانب۔ راولپنڈی تک سب ٹھیک ہی رہا مگر راولپنڈی سے روانہ ہوتے ہی گاڑی ہچکولے کھانے لگی اور بہت مشکل سے ہمیں ہری پور تک پہنچایا۔ ہری پور میں رُک کر گاڑی ٹھیک کی گئی اور پھر سے سفر شروع ہوگیا… مگر چند کلومیٹر کے بعد پھر سے وہی حالت… پھر سے ٹھیک کیا گیا اور روتے دھوتے حویلیاں تک پہنچ گئے… مگر اب گاڑی کہے کہ نا بھائیو نا۔۔۔ ہُن تسی گڈی دی جان چھڈ دیو۔۔۔ سواریوں نے کافی شور ڈالا تو ڈرائیور جو بہت دیر سے گاڑی کی منتیں کر رہا تھا، اُس نے اپنی فن کاریاں چھوڑ کر ایک مستند مکینک کی خدمات حاصل کیں۔۔۔ جس نے تھوڑے ہی وقت میں گاڑی کو چلا دیا مگر اس تاکید پر کہ اسے ایبٹ آباد جاکر مکمل ٹھیک کروا لیا جائے۔۔۔ اب سفر پھر سے شروع ہوا اور بالآخر ہم ایبٹ آباد پہنچ ہی گئے۔
ایبٹ آباد سے ایک کوسٹر ہائر کر کے ہمیں دی گئی جس نے ہمیں مانسہرہ پہنچا دیا۔۔ دن کے گیارہ بج چکے تھے اور ناشتے کی طلب بھی محسوس ہو رہی تھی مگر ہمیں جلد مظفرآباد پہنچنا تھا کیوں کہ اسرار بھائی تین گھنٹے سے مظفرآباد میں ہمارا انتظار کر رہے تھے۔۔۔تو بھوکے پیٹ ہی مظفرآباد کے لیے نکل پڑے. راستے میں کئی بائیکرز نظر آئے اور ایک غیر ملکی سائیکلسٹ بھی نظروں سے گزرا مگر ہم ایک لوکل گاڑی میں بیٹھے تھے جو میری مرضی سے رُک نہی سکتی تھی، تو انہیں دور سے سیلوٹ کیا اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی انہیں دیکھتے رہے۔ دن ایک بجے ہم مظفرآباد اڈے پر پہنچ گئے اور اگلے سفر کی تیاری شروع کی۔ مظفرآباد پہنچ کر اسرار بھائی سے ملے اور کچھ ضروری سامان، جو کم تھا، وہ خریدا گیا. ساتھ ساتھ ناشتہ کی جگہ پر برنچ کر کے پر تکلف ضیافت کے طور پر پانچ بندوں نے دو درجن کیلے کھا ڈالے. الحمداللہ میری ٹیم بہت صبر کر لیتی ہے۔۔۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں آپ بغیر کچھ کھلائے، جتنا مرضی سفر کروالیں، آپ کو کھانے یا آرام کے لیے بلکل بھی تنگ نہیں کرتے ہی وجہ ہے کہ میں بھی عموماً ان کا بہت زیادہ امتحان لیتا رہتا ہوں.
مظفرآباد میں پر تکلف لنچ کرنے کے بعد اسرار بھائی اور میں بائیک پر نکل پڑے اور باقی سب کو گاڑی میں لوڈ کیا اور دواریاں کی طرف روانہ کر دیا۔ پٹہیکا کے پاس جاکر بائک میں نے سنبھال لی اور اسرار بھائی کو کچھ آرام دیا کیوں کہ انسانی جسم کا تقاضا ہے کہ وہ تھکتا بھی ہے اور آرام بھی مانگتا ہے۔ کچھ دیر سفر کے بعد میں نے اسرار بھائی کو سمجھا بجھا کر گاڑی پر بیٹھنے کے لیے آمادہ کیا اور گاڑی سے فراز بھائی کو بائیک پر بٹھا لیا اور پھر سے چل پڑے۔۔۔ دھانی واٹرفال سے پہلے نماز کا وقت آیا تو سڑک کنارے ایک مسجد نظر آئی۔ مسجد باہر سے تو پکی دیواروں والی عام سی حالت میں نظر آئی، مگر اندر جا کر مسجد کی حالت اور انتظامات دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ یہاںہر چیز کا انتظام بہت شاندار تھا۔ مسجد میں لکڑی کا استعمال بہت نفاست سے کیا گیا تھا۔ صاف ستھری اور خوبصورت مسجد۔۔۔ بد قسمتی سے میرے موبائل سے کچھ ڈیٹا ڈیلیٹ ہوگیا اور اس میں مسجد کی تصاویر بھی تھیں۔ خیر نماز پڑھ کر پھر سے بائیک سنبھالا اور نکل پڑے دواریاں کی طرف۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد دھانی واٹرفال تک پہنچ گئے ۔ واٹرفال پر کچھ تصاویر بنائیں اور پھر سے بائیک کو جگایا اور نکل پڑے۔ کچھ ہی دور ایک ہوٹل پر اپنی کوسٹر نظر آئی جو کہ کھانا اور چائے کے لیے رُکی ہوئی تھی. وہاں سے فراز بھائی کو گاڑی میں بٹھا کر آفتاب بھائی کو بائیک پر شفٹ کر لیا اورسفر پھر سے شروع ہوگیا۔
دیدار کی طلب کے طریقوں سے بے خبر
دیدار کی طلب ہے تو پہلے نگاہ مانگ
میں تو لوکل گاڑی پر جارہا تھا مگر بائیک مل گئی تو میں نے بھی پورا فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی. جہاں جی چاہتا، رک کر نظاروں کے مزے لیے اور پھر اگلے نظاروں کے لیے نکل پڑتا۔۔۔ اسی طرح گھومتے گھامتے کنڈل شاہی تک پہنچ گئے. کچھ دیر کے لیے یہاں رکے، تصاویر بنائیں اور منہ ول دواریاں شریف کر کے بائیک سٹارٹ کی کہ اب کہیں رکنا نہیں تھا کیوں کہ شام کا وقت قریب تھا اور اندھیرا چھانے سے پہلے پہلے دواریاں پہنچنا لازمی تھا۔
مگر کیا کریں جی ابھی اٹھمقام نے آنا تھا اور گاڑی نے زہادہ دیر ٹھہرنا بھی تھا سو اسے برداشت کرتے ہوئے وہاں پر کافی وقت ضائع کیا. اٹھمقام میں رک کر بریڈ وغیرہ خرید لی کہ ناشتے میں ذائقہ بدل لیں گے مگر مجھے حیران کرنے والی بات یہ تھی وہاں رانی جوس خریدا تو 60 روپے کا ملا جب کہ وہی جوس جب لاہور سے خریدو تو 80 روپے میں ملتا ہے جب کہ وہاں سامان پہنچانا کچھ مشکل ہے۔ صاف مطلب کہ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ کرپشن کرتا ہے۔ ویسے کہتے ہے شریف وہی جس کا داؤ نہی لگتا۔۔۔ اور بالکل درست ہی تو کہتے ہیں۔
نکلے تو تیرے لیے اے دواریاں
مگر رکتے ہم ہر جگہ پر رہے
اٹھمقام سے بائیک کی سواری پھر بدلی گئی، اب اسرار بھائی بائیک چلا رہے تھے اور میں پیچھے بیٹھا سفر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اٹھمقام سے آگے کئی بائیکرز گروپ بھی ملے مگر مجھے صرف ڈاکٹر عمر صاحب اور اُن کی ٹیم یاد ہے. باقی سب کواسرار بھائی ہی جانتے تھے. مجھ سے ان کا تعارف نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو فیس بک کے توسط سے پہلے ہی جانتا تھا، اب ملاقات بھی ہو گئی اور یاد اس لیے رہ گئے کے وہ 110 سی سی، چائنہ کی بائیک کو لوات کے آف روڈ پر ڈالنے کی غرض سے لائے ہوئے تھے۔ چائنہ کی بائک اور وہ بھی آف روڈ… شاید اسی لیے کہتے ہیں بائیک نہی جاتی رائڈر جاتا ہے.
کچھ ہی دیر میں ہم دواریاں پہنچ گئے. دواریاں کے پل سے نیچے ایک ہوٹل کے پاس سیف اللہ کشمیری بھائی کی بائیک کھڑی نظر آئی تو اسرار بھائی کی بائیک بھی اسی جگہ کھڑی کی۔۔۔۔ اور جیپ کا بندوست کرنے لگے۔
ہم پانچ لوگ تھے اور کوشش کر رہے تھے کے جیپ سواری کے حساب سے مل جائے کیوں کہ ہماری واپسی فوراً یا اگلے دن نہیں تھی۔ ہم نے دو دن بعد آنا تھا اور تبھی ہماری ملاقات خضر شاہ اور عثمان بھائی سے ہوئی. یہ لوگ فیصل آباد سے آئے تھے اور آئے بھی ہماری کوسٹر میں ہی تھے. مزید وہ بھی جیپ کے لیے کھڑے تھے۔۔۔ ہم نے انہیں بھی ساتھ ملایا اور ایک مکمل جیپ کروا کر رتی گلی کی طرف نکل پڑے…
کشمیر کی چاندنی راتیں:
چاندنی رات میں ہماری جیپ اوپر کی طرف چلتی جارہی تھی اور اپنی ہِل جُل سے ہمارا پر تکلف شاہی ناشتہ جو کہیں کچھ بچ گیا تھا، اسے ہضم کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جیپ کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا سر چھت سے ٹکراتا اور آگے بیٹھے لوگ ڈرائیور سے ٹکراتے۔ درمیان میں بیٹھے بھی آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ہڈیاں پسلیاں تڑوانے کے نزدیک ہی تھے کہ جیپ پانی کے لیے رُک گئی اور ہماری ہڈیوں پسلیوں کو کچھ دیر کے لیے آرران نصیب ہوا.
اب یہ تھوڑی دیر کی لیے جیپ کو آرام کروایا گیا یا ہمیں؟ ابھی سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ اسرار صاحب گرما گرم پکوڑے لے کر آ گئے۔ جن کے ساتھ پورا انصاف کرنا پیٹ کا تقاضا تھا۔ تازہ دم ہو کر جیپ پھر چل پڑی اور ہم دوبارہ سے خواب ناک خوب صورتی میں کھو گئے۔ چاندنی رات کا نظارہ بہت خوب صورت تھا۔ چاند کی روشنی اس قدر تھی کہ ہر چیز واضح طور پر نظر آرہی تھی. چاند کبھی پوری شکل دکھاتا اور کبھی درختوں کے پیچھے سے جھانکتا، جیسے پرانے زمانے کی فلم میں ہیروئن، ہیرو کو دیکھ کر کبھی کھڑکی سے جھانکتی اور کبھی کھڑکی کی اوٹ میں چھپ جایا کرتی تھی.
جیپ کا منہ ول بیس کیمپ رتی گلی شریف تھا کہ اچانک ایک موڑ پر جیپ رک گئی. رکنے کی وجہ سامنے سے آنے والی جیپ کے ڈرائیور کا اناڑی پن تھا جس نے اپنی گاڑی کو پھنسا لیا تھا۔ ظالم خود تو پھنسا ہی تھا ہمیں اور ہمارے پیچھے آنے والوں کو بھی پھنسا چکا تھا۔ اب یہ جیپ نکلے تو آپ کہیں جا سکیں اور ہم میں اب برداشت بھی ختم ہو رہی تھی کیوں کہ ہم پچھلے 18 سے 20 گھنٹے سے سفر میں ہی تھے۔ اتنی دیر میں ہماری جیپ کے ڈرائیور کو غصہ اگیا اور جناب نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی جیپ کو بند کیا اور جاکر اگلی جیپ کی کمان سنبھال کر اسے کسی طریقے سے نکالا اور اسے ڈرائیور کے حوالے کیا۔ مزید زیرِ لب پتا نہی کیا کیا کہتے ہوئے اپنی جیپ کو پھر سے چلانا شروع کر دیا۔ جیپ جیسے جیسے بیس کیمپ کے نزدیک جارہی تھی، ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی جو آپ کو بیس کیمپ نزدیک ہونے کا بتا رہی تھی اور رات بڑھنے کا بھی پتا دے رپہ تھی۔ خیر ایک دوسرے میں لگتے، ٹکریں کھاتے بیس کیمپ تک پہنچ ہی گئے اور جیپ سے باہر نکلتے ہی تیز ٹھنڈی ہوا نے پہلے جب کہ رئیس انقلابی اور سیف اللہ کشمیری صاحب نے بعد میں استقبال کیا.
رئیس انقلابی صاحب کا بیس کیمپ پر کیمپنگ سیٹ اپ ہے اور بہت بہتر سروسز فراہم کررہے ہیں۔ سیف اللہ کشمیری صاحب اپنے کلین اینڈ گرین پاکستان کے سفر پر رتی گلی پہنچے ہوئے تھے۔ کلین اینڈ گرین پاکستان ایک ایسا کام ہے جس پر سب کو عمل کرنا چاہیے ۔ درخت لگاؤ، آلودگی بھگاؤ، صفائی رکھو، صحت مند زندگی جیو۔۔۔
سیف اللہ بھائی سے لاہور سے نکلتے وقت بات ہوئی تو پتا چلا وہ رتی گلی بیس کیمپ پر موجود ہیں اور آگے کیل کی طرف نکلنے کی تیاری میں ہیں مگر ان کی محبت میں یاد رکھوں گا کہ جب انہوں نے میرے آنے کا سنا تو مجھے میسج کر دیا کہ اب آپ سے مل کر ہی جاؤں گا اور ہمارے آنے تک بیس کیمپ پر ڈیرہ لگا لیا. سیف اللہ بھائی اللہ آپ کو آپ کے مشن میں کامیابی عطا فرمائے، آمین.
ہمیں ایک بہت بڑا کیمپ دے دیا گیا جس میں ہم نے جلدی سے بسترے پکڑے، خود کو گرم کرنے کے لیے رضائی بھی ڈبل کرلی۔۔۔
خضر شاہ صاحب اور عثمان بھائی سے کچھ گھنٹے پہلے ہی تو ملاقات ہوئی تھی اور وہ ابھی تک ہم سے گھل مل نہی پائے تھے۔ دونوں صاحبان نے الگ کیمپ لینے کا فیصلہ کیا مگر الگ کیمپ میں تو سردی زیادہ لگنی تھی اس لیے وہ الگ کیمپ دیکھ کر واپس ہمارے ساتھ ہمارے کیمپ میں آگئے اور پھر جب کھانے اور باتوں کا دور چلا تو وہ ہمارے ساتھ گھُل مل ہی گئے۔ سیف اللہ بھائی نے ہمارے ساتھ کافی گپ شپ لگائی اور اپنی مہم کلین اینڈ گرین پاکستان کے بارے میں سب کو آگاہی دی۔ رات کو گیارہ بجے ایک ایک کپ چائے پی کر سب نے اپنے اپنے بسترے سنبھالے اور پورے دن کی تھکاوٹ اتارنے کو بستر پر گرتے ہی سو گئے.
صبح آنکھ کب کھلی یہ تو یاد نہیں مگر سورج نکل چکا تھا اور کافی روشن بھی تھا۔ اور یہ دن ویسا ہی تھا جیسا مجھے چاہیے تھا۔۔۔
ہوا میں خُنکی تھی اور چلچلاتی دھوپ مزہ دے رہی تھی۔۔۔ جیسے سردیوں میں پنجاب کی دھوپ۔۔۔ بس ایک چیز کی کمی تھی، مالٹے اور کالا نمک! اگر وہ مل جاتت تو مزہ آجاتا اور لاہور کی سردیوں والا احساس زندہ ہو جاتا.
بس جی ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دَم نکلے…
ہاتھ اور منہ دھو کر جلدی جلدی ناشتہ کیا. آج ہم نے اپنے منصوبے کے مطابق ہنس راج اور کالا سر کی طرف جانا تھا۔ اسرار بھائی نے آج ہی واپس نکلنا تھا اور اگلی شام تک راولپنڈی پہنچنا تھا، تو ان کو اپنے ساتھ ہنس راج تک چلنے کا کہا اور ساتھ واپسی پر رتی گلی دیکھنے کا مشورہ ہوا۔ تاکہ دو جھیلیں تو دیکھی جا سکیں۔ خضر شاہ اور عثمان بھائی نے بھی آج ہی واپس جانا تھا تو ان کو بھی اسرار بھائی والا ٹریک سمجھا دیا اور وہ بھی راضی ہوگئے۔ ہم نکلنے لگے تو سیف اللہ صاحب نے کہا کے ایک انٹرویو لائیو چلانا ہے تو آپ کچھ وقت رک جائیے حالاں کہ ہم نے انٹرویو تو کبھی نوکری کے لیے بھی نہی دیا تھا پھر یہ انٹرویو۔۔۔ خیر سیف اللہ بھائی نے کچھ سوالات کیے اور ہم نے جوابات دیے (کھرے کھرے تو بالکل نہیں.)
ایک سوال مجھے اچھی طرح یاد ہے. سیف اللہ بھائی نے پوچھا کہ آپ نیلم پہنچے. کوئی مسئلہ تو نہی ہوا؟ روڈ بند یا کہیں کوئی گولہ باری، کوئی جنگی حالات؟؟؟
میں نے بتایا کہ بالکل بھی نہیں. میں بہت سکون سے آیا ہوں. کوئی مسئلہ نہی ہوا۔ مگر یہ سوال کا مقصد سمجھ نہیں آیا۔۔۔ یہ سمجھ تب آیا جب واپس آکر فیس بک پر نیلم میں شدید گولہ باری کی خبریں دیکھیں۔۔۔ فیس بُک پر تو نیلم میں شدید جنگ چل رہی تھی مگر حقیقت میں نیلم میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا، لوگ اپنے کام کاج میں لگے ہوئے تھے اور ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔
اے فیس بُکی مجاہدو! کبھی پوسٹ کو شیئر کرنے سے پہلے تصدیق بھی کر لیا کرو، آپ کے جھوٹ سے بہت سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔
اس بار پولیس کا رویہ بھی بہت بہتر رہا جوکہ اس سے پہلے مجھے کبھی بھی اتنا اچھا نہی ملا تھا۔
ایک لایئو انٹرویو کے بعد ہم چل پڑے ہنس راج کی طرف ۔۔۔ رتی گلی بیس کیمپ کے ساتھ ہی آبشار ہے، وہاں سے نالہ گزار کر ہنس راج کی طرف جانا پڑتا ہے۔ آبشار تک ہمیں رئیس انقلابی چھوڑنے آئے اور نالہ پار کرواکر ہمیں ٹریک پر ڈال دیا۔ ہنس راج کا ٹریک بہت خوبصورت ہے۔ زیادہ راستہ سیدھا ہے اور چڑہائی بہت کم کم ہے۔ آپ کو کھلے میدان ملیں گے اور موسم کے حساب سے مختلف رنگ بھی. گھاس چرتی بھیڑ بکریاں اور گھوڑے اردگرد کے مناظر کو حسین سے حسین تر بنا دیتے ہیں اور مارموٹ کی جا بجا سیٹیاں آپ کو سننے کو بھی ملتی ہیں. رتی گلی بیس کیمپ سے ہنس راج جھیل تک بہت آرام سے ڈیڑھ سے گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔ ہمیں کتنا وقت لگا، یہ تو یاد نہیں مگر ہم خریت سے پہنچ گئے تھے، یہ بہت اچھے سے یاد ہے۔۔۔۔
سفر کا حساب نا رکھ
بس منزل کو یاد رکھ
ہنستے ہنساتے،گپیں لگاتے اور جگہ جگہ تصاویر بناتے ہم جھیل تک پہنچ ہی گئے۔ جھیل کنارے کافی وقت بیٹھے رہے۔ کچھ کھانا پینا بھی چلتا رہا۔ کچھ تصاویر اور ویڈیوز بنائی گئیں اور پھر بقول عابد ادیب:
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھُوٹ جاتے ہیں
اسرار بھائی، خضر بھائی اور عثمان بھائی نے یہاں سے واپس جانا تھا اور ہمیں بھی مزید آگے نکلنا تھا تو ایک گروپ فوٹو بنا کر انہیں واپسی کی راہ پر ڈالا اور ہم اپنے اگلے پڑاؤ کی جانب چل دیے۔۔۔
اس سفرنامہ کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
“وادی نیلم کے نگینے (پہلا حصہ) – زین العابدین شیخ” ایک تبصرہ