کالاسر کی جھیلیں:
ہنس راج سے کالا سر راستہ کچھ مشکل ہے۔ پر کیا کریں جی…
اوکھے پینڈے، پتھریلیاں راہواں عشق دیاں…
جانا ہے، ضرور جانا ہے کالاسر دیکھنے جانا ہے۔ کیوں کہ یہ تو ہم عہد کر چکے تھے۔ ہنس راج سے نکلے تو تین پنڈی بوائے بھی کالاسر کی طرف جا رہے تھے مگر ان کی حالت کچھ نازک تھی اور ان کا ایک ساتھی بھی بہت سست چل رہا تھا۔ تینوں نے ساتھ جیکٹیں وغیرہ لانے کا تردد ہی نہی کیا تھا صرف شرٹس پہن کر وہ ٹریک پر نکلے ہوئے تھے۔ کچھ دیر وہ میرے ساتھ چلتے رہے اور میں بھی ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ جلد ہی ہمت چھوڑ گئے اور واپسی کی راہ لی. حالاں کہ میں نے کافی کوشش کی تھی مگر…
ہم پتھروں میں چلتے جارہے تھے اور مارموٹ کی اٹکھیلیوں اور سیٹیوں سے لطف اندوز ہوتے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چڑھائی شروع ہوئی اور سانس کا بے ربطگی کا احساس بھی۔۔۔ میں ایک مناسب راستہ دیکھ کر چل رہا تھا کہ ساجد بھائی کو اچکن آئی اور جناب نے بالکل سیدھی چڑھائی کو پکڑ لیا جو آگے جاکر اتنی سیدھی ہوئی کہ جناب کو دو پہیوں سے چار پہیوں پر چلنا پڑا (مطلب ٹانگیں اور دونوں ہاتھ استعمال کرنے پڑے) مگر یہ اوپر پہنچ گئے۔ اور اب ہمیں ورغلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہیں سے آؤ! چوں کہ ہم شیطان کے علاوہ کسی اور کے بہکاوے میں نہیں آتے، سو ہم اپنے راستے پر ہی چلتے آرام سے وہاں پہنچے۔ ساری ٹیم آگے اور میں پیچھے پیچھے۔۔۔ کہیں ویڈیوز بناتا تو کہیں تصاویر۔۔۔ چلتے چلتے ایک وقت یہ آیا کہ میں ایک منظر کی ویڈیو گرافی میں اتنا کھویا کہ سر اٹھا کر دیکھا تو سارے غائب۔۔۔ مطلب وہ اتنا آگے نکل گئے کہ اب نظر ہی نہی آرہے تھے۔ اب وقت تھا سپیڈ پکڑنے کا کیوں کہ میرے آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ میں بالکل اکیلا، پھولوں کے میدان میں بیٹھا ہوا تھا. بس یہی وقت میرا تھا، جس میں مَیں اکیلا بیٹھا قدرت کے نظاروں کے درمیان، قدرت کو محسوس کرتا ہوا، اپنے آس پاس کی خوب صورتی کو اپنے اندر اترتا محسوس کر رہا تھا. کیا خوب وقت تھا، کیا خوب نظارہ تھا! جہ چاہتا تھا کہ یہاں پر ایک دو دن کے لیے کیمپ کر لیا جائے۔ مگر وہ کہتے ہے ناں!
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ۔۔۔
کب تلک بیٹھے دیکھتا، آگے بھی جانا تھا، کیوں کہ باقی ٹیم بہت آگے چلی گئی تھی۔
نیچے زمین اور اوپر آسمان
کرے بھی کیا اکیلا انسان
سو اب تیزی دکھائی اور اندازے سے ہی جھیل کی طرف چل دیا. کچھ ہی دیر میں جھیل پر پہنچ گیا، جہاں باقی دوست بیٹھے ہوئے تھے۔
کالاسر 1:
جھیل پر پہنچ کر کچھ آرام کیا اور کچھ کھایا پیا تاکہ توانائی بحال ہو۔ یہاں کنارے کافی دیر بیٹھے اور کچھ تصاویر بنائیں. یہ ایک چھوٹی جھیل ہے جیسے چھوٹی رتی گلی. مگر یہ اس سے کچھ بڑی ہے۔۔۔ خوب صورتی میں بہت لاجواب. پانی میں پہاڑوں کا عکس بہت شاندار لگ رہا تھا. جیسے جیسے ہم جگہ بدل رہے تھے، جھیل بھی رنگ بدل رہی تھی۔ یہ جھیل رنگ برنگی اور مختلف عکس کے ساتھ حیران کر رہی تھی۔۔ جھے اس کے رنگ دیکھنے کے لیے جھیل کا طواف ہی کرنا پڑا اور مختلف جگہوں سے اسے مختلف رنگ میں ہی پایا۔
کبھی آؤ تو سہی ملنے
مل بیٹھ کر جھیل کو دیکھیں
باتیں کریں اس گزرے وقت کی
یاد کریں گے وہ سہانا وقت
جو کہ اب لوٹ کر نہیں آئےگا۔۔۔
جو کہ اب لوٹ کر نہیں آئے گا!
کافی دیر یہاں گزرانے کے بعد اگلی جھیل کالا سر 2 کی طرف چل دیے، جو کہ زیادہ دور نہیں تھی۔ یہی کوئی تین چار منٹ کے فاصلے پر موجود. کالاسر 2 ایک بڑی جھیل ہے جس میں اس موسم یعنی ستمبر میں بھی بہت برف موجود تھی۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے دوپہر کا وقت ہو چکا تھا اور دھوپ پورے جوبن پر تھی مگر بلندی، برف اور جھیل کے پانی کی وجہ سے یہاں کافی سردی تھی۔ کچھ دیر رُکے اور پھر واپسی کی راہ لی کیوں کہ شام سے پہلے واپس بیس کیمپ پہنچنا تھا۔ بڑی جھیل سے چھوٹی جھیل کے پاس پہنچے تو اس چھوٹی جھیل کو ایک اور رنگ میں ہی پایا۔
جھیل کنارے کافی پرندے گھوم رہے تھے جو کہ اس ماحول کو جادوئی رنگ دے رہے تھے۔ چلتے چلتے زمین پر ایک چڑیا نظر آئی جو ہمارے پاس آنے پر بھی نہیں اُڑی. دراصل وہ مر چکی تھی اور اب اس کا جسم گلنے سڑنے کے عمل سے گزر رہا تھا… کچھ دنوں میں کیڑے اسے ختم کر دیں گے، جیسے یہ کبھی یہاں تھی ہی نہیں. یہی زندگی کی حقیقت ہے. مرنے کے چند دنوں کے اندر اندر یہ جسم، جس پر ہم اور آپ اتراتے ہیں، ختم کر دیا جائے گا۔۔۔
تھکاوٹ حاوی ہورہی تھی مگر اب صرف واپسی اختیار کرنا تھی. شام سے پہلے بیس کیمپ تک پہنچنا تھا جہاں لذیز کھانا انتظار کر رہا ہوگا۔۔۔ آرام سے واپسی کا ٹریک پکڑا اور دھیمے دھیمے واپس چل دیے کہ اچانک فراز بھائی کو پتا نہی کیا بات سوجھی، مجھے ایک نئے راستے کے چکر میں الگ راستے پر لے گئے اور۔۔۔
تقریباً دس منٹ کی پیدل مسافت کے بعد پتا چلا کہ وہ راستہ آگے جاکر ختم ہوگیا ہے اور ایک سیدھی گہری کھائی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔۔۔
ایک تو پہلے تھکاوٹ سے حال برا اور اوپر سے یہ ۔۔۔ مرتے کیا نا کرتے، واپسی کی راہ لی اور پھر سے درست سمت پر چلتے ہوئے ہنس راج کو کراس کرتے، رتی گلی بیس کیمپ کے پاس پہنچ گئے۔ رتی گلی بیس کیمپ سے ہنس راج جھیل تک کے ٹریک کے ساتھ میری بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں. سب سے خوبصورت یاد یہ ہے کہ ایک یا دو سال پہلے مجھے اس ٹریک پر ایک دلیر مارموٹ ملا تھا۔ مارموٹ شرمیلا جانور ہے، انسان دیکھتے ہی شرم سے بھاگ جاتا ہے (بھاگتا وہ ڈر سے ہی ہے.) اس مارموٹ نے مجھے دیکھ کر بھی بھاگنے کی کوشش نہی کی بلکہ مجھے ایک شاندار پوز دیا تصویر کے لیے، جو میں نے موبائل کیمرہ میں محفوظ کر لیا تھا۔ میں اس بار بھی اسے ہی تلاش کر رہا تھا، یہ سوچ کر کہ وہ شاید مجھے پہچان کر پھر سے تصویر کے لیے پوز دے دے. اور میری قسمت کھلی بھی اور نہیں بھی۔۔۔ کیوں کہ ایک ایسا مارموٹ مجھے نظر آیا جو بہت پرسکون انداز میں بیٹھا تھا مگر مسئلہ یہ تھا وہ جہاں بیٹھا تھا وہاں روشنی بہت کم تھی. تصاویر کھینچیں مگر زیادہ واضح تصاویر نہیں آئیں۔ وہ کافی دیر تک بیٹھا رہا اور میرے بہت زیادہ نزدیک آنے پر ہی بھاگا۔۔ مگر اس ٹریک سے محبت بڑھانے کو یہ ایک اور یاد ساتھ آگئی.
شام ڈھل رہی تھی
روشنی کم ہورہی تھی
سورج پہاڑوں کی اوٹ میں جا رہا تھا اور ہم بیس کیمپ کے پاس پاس پہنچ گئے تھے۔
مست ملنگ جا کیتا ای
ڈھادا دل تنگ جا کیتی اے
دے تو پیار مے کو یار سوہنا
ماہی میرا سوہنا
یار میرا سوہنا، سوہنا
یہ گانا گاتے ہوئے ہم بیس کیمپ کی طرف پیش قدمی کرتے رہے. اب یہ نا سوچیے گا کہ یہ گانا میں نے کیوں گایا۔۔۔ مجھے یہ گانا پسند ہے اسی لیے گاتا جارہا تھا کہ اچانک ایک چڑھائی چڑھتے ہی ہمیں اپنی منزل نظر آئی. وہاں سے اٹھتا دھواں نظر آیا اور تخیل میں بیس کیمپ پہنچ کر کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گیا تھا کہ اچانک فراز بھائی نے آواز دی۔۔۔ یہ آواز مجھے واپس ٹریک پر لے آئی اور ہم چلتے چلتے بیس کیمپ کے پاس پہنچ گئے۔ آبشار والا نالہ جس کا پانی رتی گلی سے آتا ہے، اسے پار کیا اور آخر اپنے کیمپ پہنچ ہی گئے۔
کیمپ پہنچ کر حیرانی ہوئی کہ عثمان بھائی وہاں کھڑے تھے حالاں کہ انہیں اس وقت دواریاں یا نیلم سے مظفرآباد کی گاڑی میں ہونا چاہیے تھا مگر وہ یہاں؟؟؟
پہلے سوچا کہ شاید وہم ہے کیوں کہ میں نے انہیں صبح رکنے کا کہا تو انہوں نے بتایا کہ جانا بہت ضروری ہے، چھُٹی نہی کرسکتے اور اب اس وقت یہاں موجود تھے۔۔۔ مگر جب انہوں نے سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا اور سلام دعا ہوئی تو یقین ہوا کہ یہ تو حقیقت میں موجود ہیں۔
پھر اسرار بھائی اور خضر بھائی بھی آگئے تو پتا لگا ہنس راج سے واپسی پر وہ غلط راستے پر چلے گئے تھے اور پھر ٹھیک ٹھاک چلنے کے بعد وہ رتی گلی جھیل پہنچے اور شام کو ہمارے پہنچنے تک ہی وہ واپس پہنچے۔ تینوں دوستوں کی حالت گھمبیر تھی کیوں کہ یہ سب ٹریکر نہیں تھے اور نا ہی جسمانی طورپر زیادہ فعال. ان کیلئے ہنس راج ہی مشکل ہوچکا تھا اور اوپر سے راستہ بھول کر جو پہاڑوں نے ان سے محنت کروائی وہ ان کا حال برا کر چکی تھی۔ بیس کیمپ پہنچ کر پتا لگا کہ سیف اللہ بھائی بھی واپس نہیں گئے اور اس وقت جھیل پر گئے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم بوٹ اتار ہی رہے تھے کہ سیف اللہ بھائی بھی پہنچ گئے۔ بیس کیمپ پر پہنچ کر ایک بائیک نظر آئی. پہلے دل میں آیا کہ جاکر اس بائیکر سے ملنا چاہیے مگر میں نے اس خیال کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کیمپ میں جاکر آرام کو ترجیح دی تاکہ کچھ تازہ دم ہوا جائے۔ کیوں کہ تھکاوٹ بہت تھی اور رکنے کی ہمت بالکل بھی نہیں تھی. کچھ ہی دیر میں اسرار بھائی ایک خوب صحت مند بندے کے ساتھ کیمپ میں داخل ہوئے اور اس سے تعارف کروایا کہ یہ سعد بھائی ہیں، مظفرآباد سے اور یہ بائیکر ہیں مزید یہ کہ یہ بائیک پر ہی اوپر آئے ہیں۔۔۔ سعد بھائی (جٹ رائڈر) سے یہ میری پہلی پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے فیس بک پر میں ان کو جانتا تھا۔ سعد بھائی نے ہمیں کچھ وقت کے لیے چھوڑا کہ آپ آرام کر لیں اور پھر بیٹھتے ہیں۔
شام ہو چکی تھی۔ رئیس انقلابی بھائی کو ایک جیپ کے لیے کہا گیا تو انہوں نے ایک نہیں کئی جیپیں حاضر کردیں۔ جس پر مرضی بیٹھو اور دواریاں پہنچ جاؤ۔
ہوا کچھ ایسا کہ مظفرآباد جیپ کلب والے اپنی جیپیوں کے ساتھ ایک ریلی کی شکل میں رتی گلی آئے اور وہ واپس جا رہے تھے، تو رئیس انقلابی بھائی نے چاروں کو ان جیپوں میں بٹھا کر دواریاں روانہ کر دیا اور ہم اپنے کیمپ میں بیٹھے کھانے کا انتظار کرنے لگ گئے، جو کہ کچن میں تیار تو ہورہا تھا مگر ہم نے اس کا اتنا انتظار اس سے پہلے کبھی نہی کیا تھا، جتنا آج کر رہے تھے۔۔۔
کھانا آیا، پیٹ بھر کر کھایا اور چائے پی کر کچھ دیر کے لیے لیٹ گئے۔ رات کچھ جوان ہوئی تو سعد جٹ اور شہزاد اعوان بھائی بھی کیمپ میں آگئے۔ یہ دونوں چٹہ کٹھہ جھیل سے واپس آئے تھے اور کچھ دل بہلاوے اور آرامکی خاطر رتی گلی پہنچ گئے۔ سعد بھائی کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ جب یہ ہم سے ملنے کیمپ تک آئے تو سانس پھولا ہوا تھا مگر یہ اسی ہیوی ویٹ جسم کے ساتھ چٹہ کٹھہ جھیل سے پیدل ہو آئے تھے. جو کہ بہت ہی زیادہ ہمت والا کام ہے کیوں کہ میں یہ سب بھگت چکا ہوں۔ کچھ سال پہلے میں 115 کلو وزن والے وجود کے ساتھ مشک پوری ٹاپ پر گیا تھا اور جو مجھ پر بیتی وہ میں ہی جانتا ہوں. مگر آپ کی ہمت اور ضد آپ سے یہ مشکل کام کروا لیتی ہے۔ جب ذہن میں یہ سوچ لیا جائے کہ جانا ہی جانا ہے تو آپ ضرور جاتے ہیں. اگر آپ ہمت چھوڑ دیں گے اور ذہن میں یہ سوچیں گے کہ یہ مشکل کام نہیں ہونا، تو آسان کام بھی مشکل ہوجائے گا۔
سعد بھائی ایک زبردست بائیکر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ مظفرآباد سے بائک پر گوادر کا سفر کر چکے ہیں۔ ہم نے ان سے أس سفر کے بارے میں بھی کافی کچھ سنا اور اس کے علاوہ بھی بہت سے قصوں کا تبادلہ ہوا کیوں کہ جب آوارہ گرد مل بیٹھیں تو اپنی ہڈ بیتی سنانی کے لیے بیتاب رہتے ہیں اور دوسروں کی سننے کے لیے بھی.
یہ محفل رات دیر تک جمی رہی، بہت دیر تک. بہت باتیں ہوئں. جب باتیں کر کے تھکے تو کچھ سونے کا سوچا گو کہ باتیں تو ابھی بھی باقی تھیں.
رتی گلی اور گٹیاں جھیلیں:
رات کو بہت مزیدار پرسکون نیند آئی اور صبح کچھ دیر سے ہی آنکھ کھلی۔ دن تو پوری آب و تاب سے چڑھ چکا تھا اور دھوپ بھی تیز تھی۔ نیا دن تھا نیا ٹریک تھا اور ہم تھے دوستو… جتنی دیر میں ہم نے ناشتہ کیا اتنی سی دیر میں رئیس انقلابی بھائی نے گائیڈ کا انتظام کر دیا۔ خواجہ فاروق ہمارے ساتھ گائیڈ کے طور پر چلنے کو تیار ہوگئے۔ ہم بھی اب جلدی نکلنے کے چکر میں تھے تاکہ شام سے پہلے واپس آئیں اور ہوسکے تو دواریاں جاکر رات گزاری جائے۔ بیس کیمپ سے نکلتے ہی چڑھائی شروع اور ہمارا امتحان بھی شروع۔۔۔ رتی گلی کو اوپر سے سلام کیا اور سر جھکائے گٹیاں جھیل کی طرف چل دیے۔
آج میری رفتار پہلے سے بھی سست تھی۔ ساری ٹیم آگے ہی نہیں بلکہ بہت آگے تھی اور میں ان سے بہت پیچھے، ہولے ہولے چلتا ہوا، رکتا ہوا، سانس بحال کرتا ہوا، جارہا تھا۔ جیسے جیسے ہم اوپر کی طرف چلتے جارہے تھے، رتی گلی ہم سے دور ہوتی جارہی تھی۔ رتی گلی اس ذاویہ سے الگ اور خوبصورت نظر آرہی تھی۔ اس نے بھی ہم سے کافی چھپن چھپائی کھیلی۔ کبھی مکمل عیاں ہوتی اور کبھی صرف تھوڑا سا پانی دکھا کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہی۔ ہر چڑھائی امتحان لیتی رہی اور ہم اسے پاس کرنے میں لگے رہے یہاں تک کہ گٹیاں پاس دور سے نظر آنے لگا ”پاس‘‘ کو پاس دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوا۔
یہاں ایک واقعہ ہوا جس کو مزیدار سمجھ لیں یا نا سمجھیں، مرضی آپ کی۔۔۔
سارا راستہ اوپر نیچے تھا. اترائی آتی اور ہم ابھی کچھ سکون محسوس کرتے کہ ساتھ ہی چڑھائی ہمیں منہ چڑھا رہی ہوتی۔ بس کبھی اوپر پھر تھوڑا نیچے، اور پھر اور اوپر۔۔۔ ایک چڑھائی پر ہمارا فوجی ٹریکر مجھ سے آگے آگے تھا میں اس کے پیچھے۔۔۔ کہ ایک چٹان پر چڑھتے ہی آفتاب نے آگے پھر سے کھائ دیکھ کر کہا:
اوئے!
اس اوئے نے مجھے کافی کچھ سمجھا دیا۔۔۔
کیوں کہ آفتاب جلدی گھبراتا نہیں اور نا ہی ساتھ چھوڑتا ہے. میرا اس کے ساتھ بہت سفر رہا، کبھی اس بندے نے ہمت نہیں چھوڑی۔ ایک مرتبہ صرف میں اور آفتاب ایک عمودی ڈھلوان پر پھنس گئے. نیچے آبشار تک جانا تھا۔ میں نے انکار کردیا کیوں کہ میرے جوتے سلپ کرتے تھے اور اترائی بہت زیادہ تھی اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا مگر آفتاب نے مجھے کہا:
زین تُو جائے گا اور میں بھی جاؤں گا، واپسی کا راستہ نہیں ہے اور پھر جناب نے مجھے آبشار تک پہنچا کر ہی چھوڑا۔ اور واپسی پر پہلے میرے لیے پاؤں رکھنے کی جگہ بناتا اور یوں سہارا دے کر اوپر تک لے آیا۔
خیر ہم سارے چھوٹے چھوٹے وقفوں کے ساتھ گٹیاں پاس کے بالکل نیچے پہنچ گئے۔ اب آخری چڑھائی تھی اور آخری چڑھائی بھی پورا امتحان لینے کے موڈ میں تھی۔ اس آخری چڑھائی سے پہلے یہی سوچا تھا کہ ایک ہی بار میں اوپر تک جانا ہے مگر چڑھائی چڑھتے جب سانس تتر بتر ہوا تو پچھلی باتوں کو نظر انداز کر کے آرام سے ایک پتھر دیکھا اور بیٹھ گئے. کچھ دیر بعد جب سب چل پڑے تو مجھے بھی ہمت کرنا ہی پڑی۔ مگر کچھ چڑھائی کے بعد نظر گھمائی تو پیچھے دور کہیں رتی گلی ایک الگ اور خوبصورت انداز میں نظر آئی اور مجھے پھر سے بیٹھ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اور اس ہوا سے ہلتے رنگ برنگے جنگلی پھول، ماحول کو جادوئی رنگ دے رہے تھے۔ ایک سکون طاری تھا، خاموشی تھی اور قدرت کے بکھرے رنگ تھے اور میں ان سب کے درمیان بیٹھا خود کو بہت خوش قسمت گردانتا ہوا۔۔۔ یہ میرے رب کی مہربانی کہ میں ان نظاروں کو دیکھنے کے قابل ہوا۔ اچانک ایک آواز نے طلسم توڑا اور مجھے واپس دنیا میں لا پھینک دیا۔ یہ آواز ہمارے گائیڈ فاروق بھائی کی تھی جو دیکھنے آئے کہ میں اتنی دیر سے کہاں بیٹھا ہوا ہوں کیوں کہ سارے لوگ اوپر بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ ایک بار پھر سے چلنا شروع کیا اور ٹیم کے پاس جاکر بریک لگائی۔ کچھ کھانے پینے کا معاملہ کیا اور اب گلی بلکل سامنے تھی۔ درمیان میں چھوٹا سا گلیشیر، جو پار کرتے ہی ہم گلی تک پہنچ گئے۔
گٹیاں ٹاپ اور جھیلیں:
کسی اونچی جگہ سے نظارہ ہمیشہ خوب صورت ہوتا ہے مگر یہ تو خوب صورتی سے بھی بڑھ کر کچھ تھا۔ ٹاپ سے نیچے ایک گلیشیر اور بالکل سامنے والے پہاڑ پر ایک جھیل نظر آتی تھی اور اسی پہاڑ کے ایک طرف سر والی پیک اور دوسری طرف قاتل پہاڑ اور اپنی خوب صورتی میں بے مثال نانگا پربت نظر آرہا تھا۔ بہت صاف اور شاندار نظارہ تھا۔ مرزاغالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو
نانگا پربت بہت سے سیاحوں کے لیے مرشد کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کا نظارہ جہاں سے بھی ہو، آپ کا دل موہ لیتا ہے. چاہے آپ فیری میڈو سے، ترشنگ سے، قراقرم ہائے وے جگلوٹ سے یا قسمت اچھی ہوتو مشک پوری اور ٹھنڈیانی سے… ہر جگہ سے اس کا نظارہ قاتلانہ ہے.
کچھ دیر رکنے کے بعد آگے جانے کے لیے مشورہ ہوا، کیوں کہ یہ صرف ٹاپ تھا اور جھیلوں کے لیے ٹاپ سے نیچے اترنا پڑنا تھا جو کہ اتنا مشکل نہیں جتنا واپسی آنا مشکل لگ رہا تھا۔ ایک بڑا گلیشیر راستے میں حائل تھا۔گائیڈ فاروق بھائی نے راستے کو کھوجنے کی کوشش کی، مگر کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا. اس کے باوجود وہ ہمیں جھیلوں تک لے جانے پر بضد تھے۔ فراز، ساجد اور میں نے آگے جانے کے بجائے ٹاپ پر بیٹھنے کو بہتر جانا مگر آفتاب اور فاروق بھائی نے جھیلوں تک جانے کو بہتر مانا۔۔۔ اور وہ ٹھیک ہی کر رہے تھے کیوں کہ اتنی دور آکر جھیلوں تک نا جانا غلط تھا. مگر ہم یہ سمجھتے تھے کہ جو حالت ہماری تھی، جھیلوں تک جانا سنگین غلطی ہوگی. دونوں شہزادے کوشش کرتے ہوئے گلیشیر پر اتر گئے اور کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے دو تین بار پھسلے تو ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم نے درست فیصلہ کیا ہے۔ ہم ٹاپ پر بیٹھے کچھ تصاویر کھینچنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دیر بعد میں نے بوریا بسترا سمیٹا۔ جس میں بوریا بھی نہیں تھا اور بسترا بھی نہیں۔۔۔ صرف پاور بینک، موبائل اور کچھ کھانے پینے کا سامان تھا۔ سارا سامان سمیٹ کر ایک پتھر کی اوٹ میں لیٹ کر سکون سے سوگیا۔
میں ارتقائی مناظر کی اک نشانی ہوں
مجھے سکون سے جینے دو، سانس لینے دو
ابھی خوابوں میں کھویا ہی تھا کہ اچانک ایسا لگا جیسے کسی نے بہت زور سے ہلایا ہو. میں پورا ہلا اور ہڑبڑا کر اٹھا۔ دیکھا کوئی نہیں تھا، صرف ہوا ہی تھی جو اتنی تیز چل رہی تھی جیسے ابھی ہمیں اڑا کر پٹخ دے گی اور ہوا کا شور اتنا زیادہ جیسے طوفان آیا ہوں۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ بادل یا بارش کا امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ صرف ہوا ہی بہت تیز تھی۔
تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد جو دو لوگوں کی ٹیم جھیلوں تک گئی تھی وہ واپس آگئی. انہیں کچھ کھلایا پلایا اور اب فاروق بھائی نے ہمیں جھیلیں دکھانے کے لیے ایک نیا کام کیا۔۔۔ خود فلمی کردار کرش بنتے ہوئے دائیں ہاتھ کی چٹانوں پر چڑھتے گئے اور جاکر پتا نہی کیا دیکھا کہ بہت جوش سے نیچے آئے اور ہمیں بھی ساتھ اوپر لے گئے۔ اتنا اوپر جا کر کیا فائدہ؟ یہ ہم نے نا سوچا اور نا پوچھا. بس فاروق بھائی نے کہا اوپر چلو مزہ آئے گا! ہم بھی تعمیل کرتے چل دیے۔ اوپر جا کر دیکھا تو ایک حسین منظر ہمارے انتظار میں تھا۔ گٹیاں جھیلیں بلکل صاف شفاف طریقے سے ہمارے سامنے تھیں. گٹیاں جھیلوں کا یہ منظر بہت دل کش اور حسین تھا. جھیلیں پوری طرح سے نظر آرہی تھیں اور ان کا پانی ہمیں پاس بلاتا تھا. جو ممکن ہوتا تو ضرور دیکھ کر آتے اور ایک طرف نانگا پربت اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر۔۔۔ تھوڑی سی نظر گھماؤ تو سر والی چوٹی ایک الگ انداز میں آنکھوں کو ٹھنڈک دیتی ہوئی۔۔۔ یہ نظارہ شاید جھیلوں تک نا جا پانے کا بدلہ تھا قدرت کی طرف سے۔۔۔
جس جگہ سے یہ نظارہ نظر آتا تھا وہاں صرف ایک پاؤں رکھنے کی جگہ تھی اور میں پہاڑ کی دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑا جھیلوں کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرتا رہا جس نے مجھے خالی ہاتھ واپس نہی بھیجا تھا۔۔۔
ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخ تاباں پر نظر
دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے
کچھ دیر دیکھنے کے بعد،
رکنے کے بعد،
محسوس کرنے کے بعد،
اب وہ مرحلہ آگیا جو سب سے مشکل تھا، یعنی جدائی کا لمحہ! ان لمحات سے جدائی کا لمحہ اور یہاں سے واپس نفسا نفسی والے کاموں کی طرف جانے کا سفر۔ واپسی کا سفر پکڑا اور نیچے لال پھول اور نیلگوں پانی کی جھیل رتی گلی کی طرف چل دیے جس کو ہم دور سے سلام کر کے، کنی کترا کر نکل آئے تھے کیوں کہ بیس کیمپ سے گٹیاں زیادہ دور تھی اور ہمیں جانا بھی ضرور تھا اور رئیس انقلابی نے بھی یہی کہا تھا کے پہلے گٹیاں، پھر رتی گلی آکر وقت گزارنا۔ نیچے کا سفر ہمیشہ ہی تیز ہوتا ہے، چاہے پہاڑ کا سفر ہو یا زندگی کا۔ ہم بھی جلدی جلدی چلتے ہوئے بہت ہی تیز رفتار سے رتی گلی پہنچ گئے۔ رتی گلی پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور کچھ ہی دیر میں ہم رتی گلی کے کنارے پر بیٹھے جھیل کو دیکھ رہے تھےاور دیکھتے ہی جار ہے تھے۔
کبھی وقت ملے تو آ جاؤ
ہم جھیل کنارے جا بیٹھیں
تم اپنے سُکھ کی بات کرو
ہم اپنے دکھ کی بات کریں
اور ان لمحوں کی بات کریں
جو سنگ تمہارے بیت گئے
ہم شہرِخراباں کے باسی
تم چاند ستاروں کی ملکہ
کبھی وقت ملے توآجاؤ
ہم جھیل کنارے جا بیٹھیں
ان سبز رتوں کے دامن میں
ہم پیار کی خوشبو مہکائیں
ان بکھرے مست نظاروں کو
ہم آنکھوں میں تصویر کریں
پتھر پہ گرتے پانی کو
ہم خوابوں سے تعبیر کریں
اُس وقت کےڈوبتے سورج کو
ہم چاہت کی جاگیر کریں
پھراپنے پیار کےجادو سے
ان لمحوں کو زنجیر کریں
کبھی وقت ملے تو آجاؤ
ہم جھیل کنارے جا بیٹھیں
وقت کے گزرنے کا پتا ہی نہی چلا. ویسے بھی ایسے نظاروں کے درمیان وقت گزرنے کا پتا لگتا بھی کہاں ہے! سورج غروب کی جانب چل پڑا تو ہم بھی اپنے ٹھکانے کی جانب چل دیے۔ بیس کیمپ تک پہنچے تو عصر ہونے کو تھی۔ ہم نے رئیس بھائی سے جیپ کے لیے کہا اور سامان باندھ کر تیار ہو کے بیٹھ رہے۔ جیپ نا ملنی تھی اور نا ہی ملی۔
جیپ کا انتظار کرتے کرتے کب سو گئے پتا ہی نہیں چلا۔ کافی دیر بعد جب آنکھ کھلی تو رات بھی پورے جوبن پر تھی اور بھوک بھی۔ پہلے میں اُٹھا اور میرے دیکھتے دیکھتے سارے ہی ہوش میں آگئے،گھڑی بارہ بجا رہی تھی. باہر نکلے تو دیکھا کچن بند تھا۔
بیس کیمپ سو چکا تھا اور چاند کی روشنی میں ہم جاگ رہے تھے اور بھوکے بھی تھے۔۔۔ سامان میں کچھ کشمیری کلچے پڑے ہوئے تھے، انہیں پانی کے ساتھ کھا کر شکر ادا کیا اور ایک بار پھر سے سو گئے۔
آج کا دن واپسی کا دن تھا. شہر کی طرف، پریشانیوں کی طرف، مصروفیت بھری زندگی کی طرف۔۔۔ ابھی ناشتہ ہی کر رہے تھے کہ ایک جیپ نیچے جانے کے لیے مل گئی۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا اور رئیس بھائی سے حساب طے کیا اور نیچے دواریاں کی طرف چل دیے۔ دمِ واپسی ٹریک پر بہت دھول تھی جس نے ہماری حالت بہت خراب کی۔ میرے سامنے بیٹھے بندے دیکھتے ہی دیکھتے دھول کی وجہ سے سفید ہوگئے۔ میں نے خود کو دیکھنے کے لیے موبائیل کا فرنٹ کیمرہ چلایا تو دیکھا! نیلے رنگ کا سوٹ سفید ہوچکا اور بھنویں ایسی لگ رہی تھیں جیسے میں لکڑی کے آرے میں کام کر کے آیا ہوں۔
ہچکولے کھاتی گاڑی، بل کھاتی سڑک پر چلتی جارہی تھی۔ ہڈی پسلی ایک کروا کر گاڑی نے ہمیں نیچے دواریاں پل پر اتار دیا اور ہم مظفرآباد کی گاڑی کے انتظار میں پل پر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے۔
”بھائی جان گاڑی آدھے گھنٹے بعد آئے گی‘‘ ایک بندے نے گزرتے گزرتے خبر سنائی! جس کی تصدیق جیپ اڈے والے صاحبان نے بھی کر دی۔ اتنا وقت کیا کریں! یہ سوچ کر ہم نیچے ہوٹل کی طرف چل دئے تاکہ ہاتھ منہ دھو کر اپنی شکل کو پہچاننے کے لائق تو بنایا جا سکے۔ گاڑی تو آئی مگر گاڑی میں جگہ نہیں تھی۔ البتہ چھت خالی تھی تو ہم چھت پر چڑھ گئے۔ چھت پر کچھ اور لوگ بھی آگئے جن سے گپ شپ بھی کی اور بہت سی سیاسی و جغرافیائی معلومات کا تبادلہ ہوا اور ان سے بہت میٹھی ناشپاتی بھی کھائی جو وہ اپنے گھر سے اپنے لیے لے کر جارہے تھے. مگر وہ قسمت ہماری میں لکھی تھیں تو پہنچ گئئی ہمارے پیٹ میں.
گاڑی نے چھوٹے چھوٹے سٹاپ لگاتے ہمیں دوپہر تک مظفرآباد پہنچا دیا اور یہاں ہمیں اپنے ایک سجن عدنان منظور کشمیری سے ملنا تھا۔۔۔
جب نیلم کا سفر شروع کیا تھا تب عدنان بھائی سے بات ہوئی تو یہ راولاکوٹ جا رہے تھے۔ ان کو میں نے اپنے نیلم آنے کا بتایا تو یہ مجھے کہنے لگے میں ابھی واپس مظفرآباد آتا ہوں اور آپ میرے پاس ایک دن گزار کر جائیں۔ بہت مشکل سے عدنان بھائی کو راولاکوٹ جانے پر اور ابھی واپسی نا کرنے پر منایا اور یہ وعدہ کیا کہ جب ہم نیلم سے واپس مظفرآباد آئیں گے تو ان کے پاس رک کر دوپہر کا کھانا کھا کر ہی جائیں گے۔ سو اب وقت تھا وعدہ نبھانے کا، تو ہم نے مظفرآباد پہنچ کر فون کیا اور عدنان منظور کشمیری بھائی ہمارے لیے اڈے پر چلے آئے، کہ یہ ان کی محبت ہے۔
مظفرآباد سے راولپنڈی جانے والی گاڑی کی ٹکٹیں بُک کروا کر کھانے کے لیے پاس ہی موجود ایک ہوٹل کی جانب چل دیے، جہاں عدنان بھائی سے کافی گپ شپ لگی۔ کھانا کھایا، قہوہ پیا اور اتنی سی دیر میں گاڑی کا بھی وقت ہوگیا۔
ابھی تو محفل جمی تھی۔۔۔ ابھی تو باتیں شروع ہوئی تھیں۔۔۔ مگر وقت کی قلت! کشمیر اور کشمیری دوستوں سے اجازت لے کر ہم براستہ راولپنڈی، لاہور کی طرف چل دیے، جہاں گھر اور گھر والے ہمارے منتظر تھے۔ کام اور کام والے ہمارے منتظر تھے۔ ٹینشن اور ٹینشن دینے والے منتظر تھے۔ گرم ہوائیں ہماری منتظر تھیں۔۔۔
غم حیات کی کیلیں تھیں دست و پا میں جڑیں
تمام عمر رہے ہم صلیب پر لٹکے
اس سفرنامہ کا پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
بہت خوبصورت اور شاندار لکھی آپ نےاپنی آوارہ گردی کی داستان
جیسے آپ کے ساتھ ساتھ ہم بھی گوم رہے تھے