ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں کہ ”سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔ اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آپ بیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح لکھے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی.‘‘
سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی طور پر سفرنامہ بیانیہ ہے جو سفرنامہ نگار سفر کے دوران میں يا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب کرتا ہے.
سعود عثمانی اعلٰی اور منفرد شاعر کی حیثیت سے معروف تو ہیں مگر وہ اتنے بڑے سفرنامہ نگار بھی ہوں گے، اُردو ادب کے اکثر قدر دان اس حقیقت سے لاعلم تھے. ان کا یہ سفرنامہ ”مسافر‘‘ بہت ہی خوب صورت نثر نگاری کا منہ بولتا ثبوت ہے. وہ اپنے سفرنامے کی بابت لکھتے ہیں کہ
”یہ سفر ایک سمت کا نہیں تھا، سیاحت تو سفر کا محض ایک رخ تھا. اصل سفر تو اس کے اندر جا کر شروع ہوتا ہے جو دیکھنے میں ایک محل تھا. اس کے اندر محلات در محلات تھے، تاریخ، جغرافیہ، تہزیب، تمدن، زبان، ادب و ثقافت اور ان سب سے بڑا ایوان دل کا جہان.‘‘
سعود عثمانی صاحب نے اپنے دل کا جہاں سفرنامے میں اس انداز سے سمویا ہے کہ ان کے جذبات و احساسات کی رنگینی، ان کی تحریر کے حرف حرف سے ہویدا ہو رہی ہے. اس سفرنامے کے مداحوں سے معاشرے کا ہر طبقہ لبریز دکھائی دیتا ہے. معروف عالم دین مولانا تقی عثمانی صاحب اس سفرنامے کی بابت فرماتے ہیں:
”ادبی شہہ پاروں کے اس گلزار میں زبان کی گھلاوٹ بھی ہے مشاہدے کی وسعت اور گہرائی بھی تشبیہات اور استعاروں کا حسن بھی ہے.‘‘
تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پاکستان، ترکی، ایران، انگلستان، امریکہ اور تھائی لینڈ کے اسفار کا احوال اس دل آویزی اورعرق ریزی سے تحریر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے.
کتاب کی ابتدا میں ڈاکٹر خورشید رضوی، مستنصر حسین تارڑ اور معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے خیالات تحریر فرمائے ہیں. ان کے مستند اور دل نشین الفاظ سے سفرنامہ پڑھنے کا بے انتہا شوق ایک بپھری ہوئی ندی کی مانند جوش مارنے لگتا ہے.
”قوس‘‘، ”بارش‘‘ اور ”جل پری‘‘ جیسے لازوال شعری مجموعوں کے خالق سے ایسے ہی اعلٰی سفرنامے کی توقع کی جارہی تھی. ان کے شعری محاسن کا ایک زمانہ معترف تو تھا، اب ان کی دلربا نثر نگاری کا بھی معتقد ٹھہرا. سات ممالک کا یہ سفرنامہ قوس قزح کی طرح سات رنگوں سے آشنا کرتا ہے.
سعود عثمانی کا اسلوب نگارش عمدہ، رواں اور بوجھل پن سے مکمل طور پر پاک ہے. ایک ایک جملہ ادبی چاشنی میں ڈبو کر لکھا گیا ہے. یقین کامل ہے کہ ان کے جملوں کی مٹھاس ہر قاری کو ضرور متاثر کرے گی. اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کی تحریر کی یہ چاشنی اور روشنی اُردو ادب کے ہر پروانے تک پہنچے.
ایک سو نادر و شاہکار کتابوں کے تعارف پر مشتمل ستار طاہر مرحوم کی تصنیف ”دنیا کی سو عظیم کتابیں“ – محمد عمران اسحاق
کسٹمز آفیسر، میڈیکل ڈاکٹر، سماجی کارکن اور ممتاز ادیب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا حجاز نامہ، ”رب رحمان کے مہمان“ – اسد اللہ
ممتاز شاعر طاہرؔ حنفی کا چھٹا مجموعہ کلام ”آوازِ گُم شُدہ“ – راشد منصور راشدؔ
”چراغ تلے روشنی“، معروف ادیب و صحافی ظہیر احمد سلہری کی اثر انگیز تحریریں – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز صحافی اور ادیب رؤف کلاسرا کی دلچسپ کتاب، ”جونا گڑھ کا قاضی، دکن کا مولوی“ – اسد اللہ
ممتاز برطانوی صحافی، مضمون نگار اور ناول نویس جارج اورویل کا شہرہ آفاق ناول ”اینمل فارم“ – محمد عمران اسحاق
ممتاز شاعر، نقاد، محقق و عروض دان، فیض الحسن ناصرؔ کا ’’شیریں سخن‘‘ – راشد منصور راشدؔ
ممتاز پاکستانی سکالر ابویحییٰ کی فکر انگیز کتاب، ”قسم اُس وقت کی“ – محمد عمران اسحاق
ممتاز شاعر و ادیب، مسلم انصاری کا افسانوی مجموعہ، ”کابوس“ – محمد عمران اسحاق
”مسافرانِ شوق“ کی کہانی – ذیشان رشید