عثمانی مسافر – محمد اکبر خان اکبر

ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں کہ ”سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔ اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آپ بیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح لکھے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی.‘‘
سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی طور پر سفرنامہ بیانیہ ہے جو سفرنامہ نگار سفر کے دوران میں يا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب کرتا ہے.
سعود عثمانی اعلٰی اور منفرد شاعر کی حیثیت سے معروف تو ہیں مگر وہ اتنے بڑے سفرنامہ نگار بھی ہوں گے، اُردو ادب کے اکثر قدر دان اس حقیقت سے لاعلم تھے. ان کا یہ سفرنامہ ”مسافر‘‘ بہت ہی خوب صورت نثر نگاری کا منہ بولتا ثبوت ہے. وہ اپنے سفرنامے کی بابت لکھتے ہیں کہ
”یہ سفر ایک سمت کا نہیں تھا، سیاحت تو سفر کا محض ایک رخ تھا. اصل سفر تو اس کے اندر جا کر شروع ہوتا ہے جو دیکھنے میں ایک محل تھا. اس کے اندر محلات در محلات تھے، تاریخ، جغرافیہ، تہزیب، تمدن، زبان، ادب و ثقافت اور ان سب سے بڑا ایوان دل کا جہان.‘‘
سعود عثمانی صاحب نے اپنے دل کا جہاں سفرنامے میں اس انداز سے سمویا ہے کہ ان کے جذبات و احساسات کی رنگینی، ان کی تحریر کے حرف حرف سے ہویدا ہو رہی ہے. اس سفرنامے کے مداحوں سے معاشرے کا ہر طبقہ لبریز دکھائی دیتا ہے. معروف عالم دین مولانا تقی عثمانی صاحب اس سفرنامے کی بابت فرماتے ہیں:
”ادبی شہہ پاروں کے اس گلزار میں زبان کی گھلاوٹ بھی ہے مشاہدے کی وسعت اور گہرائی بھی تشبیہات اور استعاروں کا حسن بھی ہے.‘‘
تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پاکستان، ترکی، ایران، انگلستان، امریکہ اور تھائی لینڈ کے اسفار کا احوال اس دل آویزی اورعرق ریزی سے تحریر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے.
کتاب کی ابتدا میں ڈاکٹر خورشید رضوی، مستنصر حسین تارڑ اور معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے خیالات تحریر فرمائے ہیں. ان کے مستند اور دل نشین الفاظ سے سفرنامہ پڑھنے کا بے انتہا شوق ایک بپھری ہوئی ندی کی مانند جوش مارنے لگتا ہے.
”قوس‘‘، ”بارش‘‘ اور ”جل پری‘‘ جیسے لازوال شعری مجموعوں کے خالق سے ایسے ہی اعلٰی سفرنامے کی توقع کی جارہی تھی. ان کے شعری محاسن کا ایک زمانہ معترف تو تھا، اب ان کی دلربا نثر نگاری کا بھی معتقد ٹھہرا. سات ممالک کا یہ سفرنامہ قوس قزح کی طرح سات رنگوں سے آشنا کرتا ہے.
سعود عثمانی کا اسلوب نگارش عمدہ، رواں اور بوجھل پن سے مکمل طور پر پاک ہے. ایک ایک جملہ ادبی چاشنی میں ڈبو کر لکھا گیا ہے. یقین کامل ہے کہ ان کے جملوں کی مٹھاس ہر قاری کو ضرور متاثر کرے گی. اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کی تحریر کی یہ چاشنی اور روشنی اُردو ادب کے ہر پروانے تک پہنچے.

اپنا تبصرہ بھیجیں