ڈاکٹر اکرم خاور سے پہلا تعارف ان کی شاعری کے باعث ہوا. پھر ان کی کئی دیگر شعبوں میں تصانیف نظر سے گزریں. تاریخ، تحقیق، طب اور افسانہ نگاری ان کی متنوع شخصیت کے منفرد حوالے ہیں. سردست ان کی کتاب ”چاہتوں کے درمیاں‘‘ زیرِ تبصرہ ہے جو کہ کہانیوں اور افسانوں کا مجموعہ ہے.
افسانہ اُردو ادب کی اہم ترین اور مقبول ترین صنف ہے. قارئین کا طبقہ سب سے زیادہ افسانوی ادب سے اثر قبول کرتا ہے. ڈاکٹر اکرم خاور کی کہانیوں میں معاشرتی زندگی کے مختلف النوع رنگ دکھائی دیتے ہیں. ان کی کتاب میں افسانے کہانیاں اور افسانچے کے علاوہ کچھ انشائیے بھی شامل ہیں جنہیں ادب لطیف کے اعلٰی فن پارے کہا جا سکتا ہے.
ان انشائیوں میں کرن، گلاب، یاسمین، موگرا وغیرہ شامل ہیں… مکالماتی اسلوب کی حامل یہ ایسی تحاریر ہیں جو مصنف کے جذبات، احساسات و تاثرات کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں. ان کے اس مجموعے میں شامل بعض کہانیاں جذبہ محبت کی رنگارنگی اور معرکہ حسن و عشق سے عبارت ہیں. جیسے احساس، کامیابی کا راستہ، تشنہ لب اور دل کے ارمان… ان کہانیوں کا موضوع محبت اور اس لطیف احساس سے جڑے جذبات و واقعات کی خوشبو سے عبارت ہے. ڈاکٹر اکرم خاور کے افسانے، مسیحا میں محبت کی چاشنی اور مسیحائی کی دل آویزی کا لاجواب امتزاج دکھائی دیتا ہے.
کتاب میں شامل بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ مقصدیت بھی ان کی فکشن نگاری کا اہم ستون ہے جس پر وہ تاثرات و جذبات کی عمارت استوار کرتے دکھائی دیتے ہیں. ”سپاہی‘‘ اور ”وہ کون تھی؟‘‘ تجسس اور پر اسراریت کے پردوں میں لپٹی کہانیاں ہیں جن میں دلچسپی کا گہرا تاثر آخر تک برقرار رہتا ہے اور مصنف اپنے فن کی معراج پر متمکن معلوم ہوتا ہے. ان کی اس کتاب میں موجود کہانیاں ایک اور حوالے سے بھی منفرد ہیں کہ ان میں وادی کوئٹہ کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے. سبزل روڈ، یونیورسٹی، سرینا ہوٹل اور دیگر مقامات کا ذکر، اس مٹی سے ان کی جذباتی وابستگی کی واضح دلیل ہے.
ڈاکٹر اکرم خاور کا طرزِ نگارش سادہ، رواں اور تصنع سے پاک ہے. انہیں سہل عبارات لکھنے میں کمال حاصل ہے. ان کی کہانیوں کے کرادر ہمارے معاشرے سے اخذ کردہ ہیں وہ سماجی برائیوں کو پر لطف انداز میں پیش کرتے ہیں. ان کی تحریر ہر قسم کے بوجھل پن سے پاک اور متاثرکن ہے.
ان کی کہانی کاری کا ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ معاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے خلاف علم بردار بننے کی دعوت دیتی ہے. ان کی کہانیاں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی حقائق کی تصویر کشی بھی کرتی ہیں. آپ کے افسانے واقعاتی اور تخیلاتی عناصر سے مزین ہیں جن میں طبقاتی تفریق اور کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے. اس کتاب میں پلاٹ نگاری، کردار نگاری، منظر کشی اور افسانے کے دیگر لوازمات پر کمال گرفت دکھائی دیتی ہے. عصر حاضر کے قاری کو دلجمعی سے مطالعہ کی جانب راغب کرنا انتہائی دشوار ہے کیوں کہ اسے متوجہ کرنے کو کئی اور چیزیں موجود ہیں.
ڈاکٹر اکرم خاور کے افسانے قاری کی دلچسپی حاصل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں. ایک اچھا افسانہ نگار مشاہدے کی گہرائی، وسعت نظر، احساس کی بلندی کا حامل ہوتا ہے جس کا رنگ اس کی افسانہ نگاری سے چھلکتا ہے. اکرم خاور ایسے ہی افسانہ نگاروں کی صف میں ممتاز مقام پر براجمان دکھائی دیتے ہیں. وہ تجریدی اور علامتی افسانوں کے بجائے سیدھے سادے انداز میں کہانی آگے بڑھانے کے ماہر ہیں. وہ زبان و بیان کی باریکیوں سے بھی خوب آگاہ ہیں.

اکبر خان اکبر بہت نوازش آپکی محبتوں کا مقروض رہوں گا شکریہ