حسان احمد اعوان کا مجموعہ کلام ”آرائش‘‘ بلا شک و شبہ اسم بامسمیٰ ہے. اس کی ابتدا عشق رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مہکتے اشعار بصورت نعت جلوہ گر ہوتے ہیں:
لاکھوں باتوں کی ایک بات ہوئی ہے
مجھ سے میرے نبی کی نعت ہوئی ہے
ان نعتیہ اشعار ہی سے شاعر کے رموزِ سخن سے خوب آگاہ ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے.
نام حسان رکھ دیا گیا تھا
پس مری فکر فکر نعت ہوئی ہے
مجموعہ غزل کے اگلے صفحات پر ساٹھ سے زائد غزلیات حسان احمد کے طرز سخن کو بطریق احسن سامنے لے کر آتیں ہیں. ان کے کلام میں سوز گداز کا رنگ میر کے اسلوب کی یاد دلاتا ہے:
خیموں سے ابھرنے لگیں ماتم کی صدائیں
اور ہم سے خفا ہو گیا سجاد ہمارا
اسی غزل کے مقطع میں اس بات کی تصریح ہوجاتی ہے ملاحظہ کیجیے:
ہم قافیہ پیما نہیں شاعر ہوئے حسان
اور میر تقی میر ہے استاد ہمارا
وہ کلاسیکی شاعری کے دلدادہ ہی نہیں اس کے شاہ سوار بھی ہیں اور وہ خود ہی ایک غزل کے شعر میں یہ اقرار کرتے دکھائی دیتے ہیں:
جدید شاعری حسان کیسے راس آتی
کہ ہم تو میر کے دیوان میں بڑے ہوئے تھے
ان کی شاعری میں ہجر و فراق، رنج و الم، حسن و عشق کی فراوانی شاید اسی وجہ سے ہے:
اشک کی ایسی فراوانی پہ رشک آتا ہے
چشم نم تیری پریشانی پہ رشک آتا ہے
ایک اور غزل کا مطلع دیکھیں:
درد ثابت ہے سو انکار نہیں ہو سکتا
دل کسی طور نم آثار نہیں ہو سکتا
حسان احمد کی زندگی میں شاعری کو جس قدر اہمیت حاصل ہے اس کا کافی بہتر اندازہ ان کے مجموعہ ہائے کلام سے ہو جاتا ہے. ایک شاعر اسی وقت ہر دلعزیز بنتا ہے جب شاعری اس کی زندگی کے گوشے گوشے میں رچ بس جائے اور اس کی سوچ، تفکرات، خیالات، جذبات و احساسات کو شعر کی زبان مل جائے. اس تناظر میں ان کی شاعری کو پرکھنا یقیناً ایک نقاد کا منصب ہے ہم تو محض اس تاثر کی جھلک ہی دکھا سکتے ہیں:
آنے والے شعر پہ رائے باری باری بیٹھے گی
اب کے جو بھی نظم کہوں گا ذہن پہ سارہ بیٹھے گی.
ایک اور جگہ عرض کرتے ہیں:
شعر الہام نہیں ہوتا ہے ہر دم مجھ کو
شاعری وقت کے دھاری پہ پڑی رہتی ہے
اسی غزل کا آخری شعر میں توجہ طلب ہے:
مجھ کو حسان غزل دور سے یوں دیکھتی ہے
جیسے آنکھ جو پیارے پہ پڑی رہتی ہے
ایک اور مقام پر مطلع شاعری کے بارے میں ان کی فکر کچھ یوں سامنے لاتا ہے:
دل میں جو ہوک اٹھے کس سے بیاں ہوتی ہے
شاعری ہو کے بھی اب مجھ سے کہاں ہوتی ہے
ان کی شاعری میں میر تقی میر کا تذکرہ جابجا دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ان کے پکے ارادت کیش ہوں، ان کی شاعری سے واضح اظہار ہوتا ہے کہ وہ میر کو اپنا پیشوا و راہنما مانتے ہیں:
ہم ہیں مصروف فقط قافیہ پیمائی میں
زندگی میر کے شعروں میں بیاں ہوتی ہے
شعر ہوتا ہے کہ لفظوں سے دھواں اٹھتا ہے
مصرِع میر بھلا ہم سے کہاں اٹھتا ہے
مثل میر ان کا کلام بھی حسرت و یاس سے لبریز ہے. درد و رنج کی گہری گھٹا میں لپٹا ہوا ہے مگر ان کے اشعار میں امید کا قدرے دھیما رنگ بھی نظر آتا ہے:
دکھ میں محروم آس تھوڑی ہیں
میرے سب شعر یاس تھوڑی ہیں
حسان احمد نے داخلی اور خارجی کیفیات کا برملا اظہار کیا ہے. ان کی شاعری میں توزان ان دونوں کیفیات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے. وہ میر و غالب کو پیشوا ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کے حسن سخن سے مستفید ہوتے بھی دکھائی دیتے ہیں. وہ مسند شعر و سخن کی دل آویزی میں اہم کردار نبھاتے نظر آتے ہیں. ان کے اشعار جمالیاتی ذوق کے شاہ کار ہیں.
حسان احمد اعوان کا شمار عصر حاضر کے ان شعراء میں کیا جاتا ہے جو کلاسیکی اسلوب کے احیاء میں مصروف ہیں. ان کے کلام میں الفاظ و تراکیب، تشبیہات و استعارات کا بہترین چناؤ ان کے فنی رسوخ کی گواہی دیتا ہے. ان کی شاعری جدید عہد میں کلاسیکی اُردو شاعری کی تجدید کرتی معلوم ہوتی ہے.
مجموعہ کلام اعلٰی اور معیاری کاغذ پر طبع ہوا ہے. 1944 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت پانچ سو روپے ہے جو حرف زاد پبلی کیشنز، اسلام آباد سے حاصل کی جاسکتی ہے.