شاعری احساسات و جذبات کی گل افشانی، بہتے چشمے کی روانی اور جذبہ محبت کی جاودانی سے عبارت ہے. ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کا مجموعہ کلام “”وشبو بولتی ہے‘‘ اُن کی سخن دانی اور ان کے فن کی لازوال نشانی ہے. اس سے قبل بھی ان کی اُردو اور پنجابی شاعری کے مجموعہ ہائے کلام قارئین کی داد و تحسین سمیٹ چکے ہیں. حالیہ کتاب دراصل ان کا غزلیہ مجموعہ کلام ہے جس میں پچھتر غزلیات شامل ہیں.
کتاب معنوی اور صوری دونوں حسن سے مالا مال ہے. ایسےکئی مجموعہ کلام دیکھنے کا اتفاق ہوا جن کی طباعت کا معیار اعلٰی ترین ہے البتہ اس میں موجود شاعری ابتدائی درجے میں معلوم ہوتی ہے. جب کہ ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کا یہ مجموعہ ہر اعتبار سے اعلٰی تصنیف ہے جو پڑھنے والے پر گہرا تاثر قائم کرتا ہے. ڈاکٹر نے اس مجموعہ میں جدید غزل کے رنگ کچھ اس انداز سے سمو دیے ہیں کہ اس گلدستے کی رونق دو چند ہو گئی ہے:
یہ کیسی فکر یہ کیسی تری پرواز ہے آخر
ہوائے درد میں اڑتی رہی ہے دختر ہوا
ولیم ورڈز ورتھ کی مانند ان کی غزل میں فطرت کی عکاسی بھی نظر آتی ہے:
یہ کوئل جب بھی کوکو بولتی ہے
نظر کے بھید سارے کھولتی ہے
کبھی اس کی صدا دل چیر ڈالے
کبھی کانوں میں بھی رس گھولتی ہے
ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کی شاعری میں پائے جانے والے فطرت کے کچھ اور رنگ دیکھیے:
اترے رنگ بہاروں پہ
برف پڑی کوہساروں پہ
اجلا اجلا ہر منظر
نکھرے پھول چناروں پہ
ان سب کے باوجود ڈاکٹر زاہد کی غزلیات کا غالب حصہ کلاسیکی غزل کے رنگ میں رنگا ہوا ہے:
ہونٹوں سے دل کی بات کا اظہار نہ ہوا
یہ جھوٹ ہے کہ اس سے مجھے پیار نہ ہوا
ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کی غزلوں کا دامن بہت وسیع ہے. اس میں عصرِ جدید کے مسائل کی عکاسی بھی ہے، فطرت کی دل آویزی بھی اور کلاسیکی غزل کے موضوعات بھی. کتاب کی غزلیات سے یہ اندازہ کرنا چنداں دشوار نہیں کہ ان کے لب ولہجہ انفرادیت چونکا دینے والی ہے. ان کے کلام میں پائی جانے والی موضوعاتی وسعت معاصر شعراء سے انہیں ممتاز کرتی ہے. ان کی شاعری میں ایامِ گزشتہ کا لاجواب تذکرہ ناسٹیلجیا کا رخ عیاں کرتا ہے:
آپ سنتا ہوں کہانی اپنی
یاد آتی ہے ہے جوانی اپنی
خود میں رکھتا تھا سمندر کوئی
ایک طوفاں تھی روانی اپنی
ڈاکٹر صاحب وقت سے شکوہ کناں بھی دکھائی دیتے ہیں، جس کے ہر موڑ پر رنج و الم کے خار شاعر کا دامن تار تار کرتے محسوس ہوتے ہیں، مگر ان کی شاعری کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ مجموعی طور پر دور جوانی خوب گزرا ہے:
عمر گزری ہے یوں بہاروں میں
جیسے جگنو جلے شراروں میں
وقت معذور کر گیا مجھ کو
اپنی باتیں رہی سہاروں میں
شاعر یاسیت و ناامیدی کو ایسے اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں کہ ایک ایک حرف نوحہ خواں نظر آنے لگتا ہے:
دل بجھ گیا تو کیسی وہ چاہت وصال کی
اب کچھ خبر نہیں ہے تمہارے خیال کی
ڈھونڈا اپنے شہر کی گلیوں میں جابجا
لیکن دوا ملی نہ دلِ پُر ملال کی
زیرِ تبصرہ مجموعہ غزل میں شامل غزلیات پڑھنے کے قابل ہیں. کیوں کہ ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کی غزل دورِ جدید میں سانس لیتی ہے اور کلاسیکی رنگ سمیٹے ایک دلربا زاویوں سے آشنا کرتی ہے.
قوی امید ہے کہ ان کا شعری سفر مزید بلندیوں کی جانب جاری رہے گا اور اُردو ادب کا دامن بیش بہا نگینوں سے مزین ہوتا رہے گا. ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروف عمل لوگ ہی دراصل معاشرے میں اعلٰی رویوں کو پروان چڑھانے میں اصلی کرادر ادا کر رہے ہیں.