دو لفظ – پروفیسر علی احمد فاطمی

کہا جاتا ہے کہ عورت اور کہانی لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں کہ عورت اپنے آپ ایک پر سوز کہانی ہوتی ہے اور کہانی اگر پورے طور پر سج جائے تو وہ بھی اپنے آپ میں عورت ہی کی طرح خوب صورت تخلیق ہوتی ہے۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ عورت کہانی میں اور کہانی عورت کے ذریعے جنم لے تو ایک اور نئی کہانی کا جنم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی خیز انجذاب سے فلسفہء حیات کی ایک نئی شکل ابھر آتی ہے جو عموماً سہل طلب فکشن کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بقول لارنس ”فکشن جب تک فلسفے کی منزل پر نہ پہنچ جائے، بڑا فکشن کہلائے جانے کا حقدار نہیں۔‘‘
کچھ عجیب سا یہ بھی لگتا ہے کہ کہانی جس کی سادگی بھری شروعات پریم چند جیسے مرد نے کی تھی اس کو فلسفے سے بھرا قرۃ العین جیسی عورت نے۔ یہ سارے ایسوسیشن بظاہر کچھ عجیب سے لگتے ہیں لیکن بغور دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ عینی کے فلسفے میں بھی فکشن ہے اور پریم چند کے فکشن میں بھی فلسفہ۔ اِن دونوں کے مابین ایک نازک عمل یہ ابھرتا ہے کہ فلسفہ کی خواہ کوئی بھی شکل ہو، اسے تخلیق کے بطن میں تحلیل ہو کر اُبھرنا چاہیے، بالائی کی طرح بالا بالا تیرنا نہیں چاہئے۔ یہاں عینی پریم چند سے پیچھے چلی جاتی ہیں۔ جب کہ پریم چند ایک صنف کا آغاز کر رہے تھے اور عینی کو بے پناہ تجربات کے بعد یہ مضبوط صنف ہاتھ لگی تھی۔
عشرت معین سیما کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے نجانے کیوں اور کیسے یہ تمہیدی کلمات از خود قلم سے باہر آگئے۔ عشرت کا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ایک عمدہ شاعرہ ہیں بلکہ شاعرہ ہی ہیں۔ اسی لیے جب شعر کے سائے میں افسانے کا جنم ہوگا تو شاعرانہ نثر کے وجود میں آنے سے کون روک سکے گا۔ بہتے ہوئے دھارے کو روکنا کسی طرح مناسب نہیں، خاص طور پر اُس وقت جب یہ دھارے تخلیق کی شان ہو اور تخلیق کار کی پہچان۔
ملاحظہ کیجئے ”دیوارِ ہجر کے سائے‘‘ افسانے کو، اس کی دلکش شروعات کو. عنوان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی افسانے کا کم کسی نظم کا عنوان زیادہ ہے۔۔۔ پھر افسانے کا آغاز۔۔۔ پھر کسی آزاد جذبے اور خواہش کے سر اُٹھانے کی ابتداء۔۔۔ کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ کسی حقیقی افسانے کی یہ رومانی زبان موافق و مناسب نہیں۔ یہ اعتراض ایک قاری کی طرف سے ہوسکتا ہے. لیکن یہ بھی کہ ایک تخلیق کار کو ہر طرح سے آزادی ملنی چاہیے۔ لیکن یہ آزادی خوب صورت حدوں کے اندر ہے تو تہذیبِ تخلیق کا اپنا بھی ایک دفاعی کردار بنتا ہے۔
عشرت معین سیما ایک مشاق اور گہری سوجھ بوجھ والی فنکار ہیں۔ انہیں اس بات کا علم و شعور ہے کہ کب رومان حقیقت میں تبدیل ہوتی ہے اور کب حقیقت وجدان میں تبدیل ہوتی ہے۔ مستزاد یہ کہ اُن کی دو بین نگاہوں نے بڑی دنیا دیکھی ہے۔ اُن کے پاس مشاہدات کا انمول خزانہ ہے۔ نظریہ اور فلسفہ کے درمیان ڈولتے ہوئے تجربات ہیں۔ اس لیے کہیں فکری اور کہیں فطری پن کے ساتھ ان کے افسانوں کی زبان شاعری کی سرحد کو چھونے لگتی ہے۔ لیکن وہ سنبھلتی اُس وقت ہے جب دونوں کے درمیان تجربے کی آنچ کہانی کے سرمئی غازہ کو پگھلانے لگتی ہے اور چمکتا ہوا فکر کا سورج طلوع ہوکر اپنی بصیرت افروز شعاعوں سے قاری کی قراءت کو منور کردیتا ہے اور زندگی کا ایک روشن باب آنکھوں کے راستے دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے۔ اسی عنوان کے تحت کہانی میں کرسٹیان اور مارٹینا کی دوستی، ضرورتوں کی ہماہمی، تجربات کی گرمی اور مغرب کی زندگی میں سب باہم شیر و شکر ہوکر زندگی کے جبر یہ تقاضوں کے دائرے میں سمٹ آتے ہیں اور کرداروں کے بہانے زندگی کا کردار زیادہ ابھرتا ہے۔ دیگر کہانیوں میں بھی مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات، رشتوں کے نرم و نازک معاملات معنی خیز تصورات کا گلابی لبادہ اوڑھے دعوتِ فکر دیتی ہے۔ عشرت ایک سنجیدہ شاعرہ ہیں اور کم و بیش وہی سنجیدگی، گہرائی اور فکر و فن سے مناسب و معتدل وابستگی ان کی کہانیوں میں نظر آتی ہے، مثلاً ”ہم سایہ‘‘، ”شاعرہ‘‘، ”وحشت‘‘، ”کفارہ‘‘ اور ”وہ کون تھی‘‘ وہ ہزار شاعرہ ہوں لیکن یہ کہانیاں ہیں اور سو فیصدی کہانیاں۔۔۔ عمدہ سنجیدہ اور لائقِ مطالعہ اور کہیں کہیں مغرب کی معاشرت کا معنی خیز حوالہ جو آگے بڑھ کر مشرق و مغرب کی حدیں ختم کرتا ہوا انسانی وسعت میں ڈھل جاتا ہے۔ عشرت کی شاعری کی طرح اُن کی افسانہ نگاری میں بھی ایک کیفیت، ایک حقیقت اور ایک بصیرت ہے، ایک عمدہ کہانی کے لیے اور کیا سوغات چاہیے۔ افسانے کے مجموعے کی اشاعت کے لیے میری نیک خواہشات عشرت معین سیما کے ساتھ ہیں۔