میرے محترم بزرگ دوست ظفر گورکھپوری کے صاحبزادے امتیاز گورکھپوری کی دعوت پر ایک عرصہ کے بعد ایک ادبی تقریب میں شرکت کرنے ممبئی گیا تو اس بار ممبئی بہت ویران سی لگی۔ بہر حال اس تقریب میں امتیاز نے مجھے برلن جرمنی کی شاعرہ محترمہ عشرت معین سیما کا نیا شعری مجموعہ ”آئینہ مشکل میں ہے‘‘ عنایت کیا تو اس کو دیکھتے ہی مجھے بے ساختہ 2007ء کے وہ دن یاد آگئے جب میں بزم اُردو کے سربراہ ممتاز شاعر ادیب اور ہمارے بزرگ دوست عارف نقوی کی دعوت پر ایک مزاکرے میں شرکت کرنے کے لیے برلن گیا تھا۔ دس دنوں کے قیام میں عارف نقوی کی فیملی کے علاوہ جس دوسری فیملی سے قربت اور محبت پیدا ہوئی وہ انور ظہیر رہبر اور عشرت معین سیما کی فیملی تھی۔ اِن لوگوں کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزرا، اُن کے گھر بھی گئے اور ان کی دو پیاری پیاری، چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی گھُل مل گئی تھیں۔ یہ دونوں میاں بیوی ہمیں یعنی عارف صاحب کو اور مجھے برلن سے ذرا دُور تاریخی مقام پوٹسڈام بھی لے گئے۔ جہاں ہم دن بھر گھومے پھرے، ان دونوں میاں بیوی نے بے حد محبت اور ضیافت سے نوازا، جس کا ذکر میں نے اپنے سفر نامہ ”جرمنی میں دس روز‘‘ میں بھی کیا ہے۔
اُن ملاقاتوں، مزاکروں اور مشاعروں میں یہ اندازہ تو ہو ہی چکا تھا کہ انور اور سیما دونوں ہی شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ انور تو باقائدہ ”رہبرؔ‘‘ تخلص رکھتے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ جب برلن میں اصل مزا کرے کے بعد مشاعرہ ہوا تھا اور سیما اور انور نے جو کلام پیش کیے تھے، اُن کے دو دو اشعار میں نے نوٹ کر لیے تھے۔ انہیں پھر سے یہاں پیش کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا:
دریا ہے اپنا نہ ہی اپنا ہے سمندر
ہر شب کو جو چھُوتا ہے سپنا ہے سمندر
غربت کے کسی گھر میں جاتا نہیں سورج
آنکھوں کے سیلاب سے ادنیٰ ہے سمندر
(انور ظہیر رہبرؔ)
کچھ افتخارِ دین تھے شامل فساد میں
قاتل بنارہے تھے درسِ جہاد میں
طاقت کایہ گھمنڈ دکھایا ہے آپ نے
اسلام بے مقام ہے اسلام آباد میں
(عشرت معین سیما)
سیما کے ان اشعار میں جو طنز اور تیور ہے، اُس نے مجھے اس وقت بہت متاثر کیا تھا۔ پھر اُن کے طور طریقے میں جو سنجیدگی اور بردباری محسوس کی تھی اس سے بھی بہت متاثر ہوا تھا۔ چند عرصہ قبل (2017ء میں) برادرِ عزیز صفدر امام قادری کے رسالہ میں سیما سے متعلق گوشہ شائع ہوا تھا۔ یہ پڑھ کر مسرت ہوئی کہ سیما ایک دو نہیں بلکہ چھ سات کتابوں کی مصنفہ ہیں، جن میں شعری مجموعہ ”جنگل میں قندیل‘‘، افسانوی مجموعے ”گرداب اور کنارے‘‘ اور ”دیوارِ ہجر کے سائے‘‘، سفر نامہ ”اٹلی کی جانب گامزن‘‘، تحقیق و تنقید ”جرمنی میں اُردو‘‘ اور سب سے بڑھ کر یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے عصمت چغتائی کے شہرہ آفاق ناول ”ٹیڑھی لکیر‘‘ کا جرمن زبان میں جزوی ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ کرنا یوں بھی ایک مشکل عمل ہے، پھر عصمت چغتائی کے منفرد و مخصوص محاوراتی اسلوب اور تخصیصی اشارات اور نسائی لب و لہجے کا ترجمہ کس قدر مشکل رہا ہوگا۔ یہ سب جان کر میرے دل میں سیما کے لیے مذید قدر و منزلت پیدا ہوگئی۔ اب جب کہ کسی بھی حوالے سے بھی اُن کا تازہ شعری مجموعہ ”آئینہ مشکل میں ہے‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے تو یادوں سے متعلق یہ تحریریں ازخود نوک قلم پر آتی چلی گئیں۔
میں عموماً نئی شاعری اور بالخصوص تانیثی شاعری پر لکھتے ہوئے تکلف کرتا ہوں۔ فکشن و تنقید پر زیادہ لکھتا ہوں۔ کبھی وقت ملا تو سیما کے افسانوں پر بھی لکھوں گا، لیکن شاعری اور مقصدِ شاعری سے متعلق سیما کی جرات و جسارت اور ترقی پسند فکر و شعور سے متاثر ہوکر یہ چند تحریر لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کیوں نہ ہو جس گھر میں اُردو خادمہ کے بجائے ملکہ کا درجہ رکھتی ہو، والد شاعر و ادیب ہوں، دادا صوفی شاعر، میر غالب اور اقبال کے تذکرے ہوں وہاں اُن کی اخلاقی قدریں اور تخلیقی بصیرتیں سر اُٹھا کر اپنے وجود کا اعلان و اظہار کریں گی ہی، بالخصوص اس وقت جب وہ بے توجہی کا شکار ہوں۔ اسی لیے سیما کی شاعری روشنی کی طاقت اور جینے کی حرارت عطا کرتی ہے نیز شعبہ شعر و ادب میں مہذب آوارگی بھی سکھاتی ہے۔ جب یہ سارے اجزاء ظہور و ترتیب میں آتے ہیں، پھر ایسے پُر اعتماد جملے تخلیق ہوتے ہیں.
”زندگی چاہے کتنی کٹھن، کتنی بے درد اور کتنی ظالم کیوں نہ ہو، وہ انسان کے خوابوں کی دنیا پر اجارہ کبھی نہیں پاسکتی اور نہ ہی اسے مسمار کر سکتی ہے۔ یہی وہ یقین ہے جو اُن کو زندگی کے ہر نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے خوابوں اور خیالوں کی دنیا تک لے جاتا ہے.‘‘
اچھی بات یہ ہے کہ سیما شاعری صرف روح کی آسودگی کے لیے نہیں کرتی ہیں بلکہ زندگی کی جدو جہد، تازگی و شگفتگی پیدا کرنے کے لیے بھی کرتی ہیں۔ یہ وہ نرم و نازک حقیقت ہے جو راست طور پر خواب سے رشتہ استوار کرتی ہے۔ ایک بار ایک ملاقات میں ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری سے اُن کے مجموعے ”ایک خواب اور‘‘ کے حوالے سے خواب اور حقیقت کے رشتے پر راقم نے سوال کیا تھا، جس پر انہوں نے لمبی گفتگو کی اور آخر میں کہا تھا:
”فاطمی! خواب دیکھنا بند نہ کرنا، خواب دیکھنا ایک فطری عمل ہوتا ہے اور خواب کا ٹوٹنا ‘سماجی عمل‘ لیکن آرزو مند اور ترقی پسند انسان پھر بھی خواب دیکھتا ہے ایک دو نہیں کئی اورخواب۔“
”ایک خواب اور‘‘ کے دیباچے میں انہوں نے لکھا تھا: خواب اور شکستِ خواب اس دور کا مقدر ہے اور نئے خواب دیکھنا انسان کا ایسا حق ہے جسے کوئی طاقت، کوئی اقتدار اسے محروم نہیں کر سکتا۔ شاید یہی انسانیت اور انسانوں کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہیں سے ایک اور خیال جنم لیتا ہے کہ شاعری کیا ہے؟ کیا یہ سوال زیادہ اہم یہ ہے کہ شاعری کیوں ہے۔ فیض سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی شاعری کا سرمایہ اس قدر کم کیوں ہے تو وہ خفیف سی مسکراہٹ کے بعد بولے ”کم شاعری کرنا اتنا بڑا گناہ نہیں کہ جتنا بلا وجہ شاعری کرتے رہنا۔‘‘ اکثر شعراء کو اس بات کا علم نہیں رہتا کہ وہ کیوں شاعری کر رہے ہیں۔ بس کرتے جارہے ہیں۔ ایک تنکے کی طرح بہتے ہی چلے جارہے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ سیما کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ شاعری کیوں کرتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو جوڑے رکھنے کے لیے بھی شاعری نہیں کرتیں بلکہ شاعری کی دیوی یا اس سے بڑھ کر زندگی کی حسینہ کو بھی تازہ دم رکھنے کے لیے شاعری کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر مقصدِ شاعری کا سراغ لگ جائے تو مقصدِ زندگی کے سراغ لگنے میں بھی دیر نہیں لگتی۔ بہ الفاظ دیگر کہ جس کے پاس مقصدِ زندگی ہوگا اسی کے پاس مقصد شاعری بھی ہوگا۔
”آئینہ مشکل میں ہے‘‘ یوں تو اُن کے مصرعہ کا ایک ٹکڑا ہے، پورا شعر اسی طرح کا ہے کہ:
ایک چہرے پر ہے چہرا، آئینہ مشکل میں ہے
گم شدہ ہے عکس میرا، آئینہ مشکل میں ہے
لیکن اسی غزل کا ایک اور شعر زیادہ معنی خیز ہے:
آنکھ میں کچھ خواب رکھ کر آئینے کے سامنے
خون میں ڈوبا ہے چہرہ، آئینہ مشکل میں ہے
اپنے پیش لفظ میں تو وہ اپنی اس مشکل کا اشارہ تبدیلیء زمانہ اور انسان کی بے قرار جبلت اور آج کی غیر انسانی سیاست، روپ بدلتے چہرے وغیرہ کو ہی گردانتی ہیں، اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے کہ نئی شاعری اور نئی غزل ان بدلتے چہروں کی ہی شکیں یا سلوٹیں ہیں جسے اکثر شاعر انفرادی طور پر قبول کرتا ہے اور باطن میں ایک انجان بلکہ بے نام سی دنیا بکھیر کر اسے جدیدیت بلکہ تجریدیت کے حوالے کر دیتا ہے۔ سیما کا کھلا ذہن اور روشن تصور اس انفرادیت کو اجتماعیت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ وہ ایک جگہ اعتراف کرتی ہیں کہ:
”میرا ماننا ہے کہ شاعری میں انسان کی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تجربات و مشاہدات اگر اکتسابی عمل سے گزرے ہوں تو وہ فن کے تجربات کو پختہ بنا دیتے ہیں.‘‘
اس سے زیادہ قیمتی جملے یہ ہیں کہ:
”شاعر کی عصری و سماجی آگہی ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے تو وہ شاعری و احساسات کے ایسے در کھولتی ہے جہاں شاعر کے خیالات و احساسات کی تہذیب فنِ شاعری کی بلند سطح پر ہوتی ہے، اس سطح پر جہاں انسانی شعور کی ترقی اور انسانیت کی معراج کا آئینہ بن کر جمالیاتی تسکین اور انسانی نظریہ حیات کا ایسا عکس دکھائی دیتا ہے جو بیک وقت کمال ہنر اور عشق کی کیفیات کے مناظر اپنے قارئین کے ذہن پر نقش کرتا چلا جاتا ہے.‘‘
تسلیم کہ شاعری نزاکتوں و علامتوں سے بھرا اشارتی عمل ہے، لیکن یہ عمل بھی مکمل وابستگی، سپردگی اور گہرے احساس و شعور کے بغیر تخلیقی صلاحیتوں میں وہاں جذب و پیوست نہیں ہوتا جہاں تہذیب عاشقی اور تہذیب شاعری باہم مد غم ہوجاتے ہیں اور پھر انفرادیت از خود اجتماعیت کا روپ لے لیتی ہے۔ فراق گورکھپوری نے ایک جگہ بڑے کام کی بات کہی ہے:
”انفرادیت پر اگر ہم غور کریں تو سراسر مانگنے کی چیز ہے، ہر شاعر کا ‘میں‘ ہزاروں ‘ہموں‘ سے بنا ہے۔ اس کی شخصیت و انفرادیت حقیقتاً ایک کمپوزٹ فوٹوگرافی ہے، بلکہ شاعری کا نہیں ہم سب کے جسم تک اپنے مخصوص خط و خال کے باوجود نسل، ملک، زمانہ اور آباء و اجداد کی دین ہے۔‘‘
اس طرح سیما کا آئینہ صرف آئینہ نہیں رہ جاتا اس کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ جس طرف سینئر شاعر عارف نقوی نے اچھے اشارے کیے ہیں۔ جنہوں نے آئینہ کو ذہن سے تعبیر کیا ہے اور ذہن کی نیرنگیاں، کرشمہ سازیاں، دکھ کو سکھ میں اور ہجر کو وصل میں بدل دیتی ہیں۔ یہ دونوں شعر دیکھیے:
کبھی یادیں مہکتی ہیں، ستارے رقص کرتے ہیں
شبِ ہجراں ہمیشہ ہی دلیلِ غم نہیں ہوتی
یہ دل اب رکھ دیا ہےوقت کی ٹھوکر پہ اے سیما
کہ اس کمبخت دل کی آرزو ہی کم نہیں ہوتی
اسی غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ فرمائیے:
اگر روؤں تو میری آنکھ اکثر نم نہیں ہوتی
اگر ہنسنے لگوں پھر بھی اداسی کم نہیں ہوتی
میں دیکھوں گی ذرا فرصت سے اپنے عکسِ خاکی کو
ابھی تیری ضیاء ہی آنکھ میں مدھم نہیں ہوتی
بڑی لمبی مسافت ہے، حدیثِ دل ہے اک مصرع
عزیزو! شاعری ہرگز کبھی یک دم نہیں ہوتی
بھلا کیسے سمجھتی عشق میں جاں سے گزرنے کو
تری چاہت میں جو درپیش راہِ خم نہیں ہوتی
پوری غزل کا آہنگِ نشاطیہ لب و لہجہ لیے ہوئے ہے بلکہ اس سے آگے عزم و حوصلہ بھی جو کہ اکثر خواتین کی شاعری میں نظر نہیں آتا۔ ان میں سے اکثر کے یہاں مظلومیت، معصومیت، درد و داغ اتنے ہوتے ہیں کہ بس پوری شاعری اسی کا حزنیہ اظہار بن رہ جاتی ہے جسے ہم تانیثی یا نسائی شاعری کا نام دینے لگتے ہیں۔ میں نے یہ کمزوری سیما کے یہاں کم دیکھی ہے۔ ان کی شاعری میں ”میں دیکھوں گی‘‘ ضرور جھلکتا ہے۔ لیکن اس کے دیکھنے میں جو تیور ہے وہ سمجھنے کے لائق ہے۔ اس میں روایتی جذبہ ء عشق کم ہے، کائنات کا شعور زیادہ ہے۔ غزل بہت عمیق تو نہیں لیکن اپنی سادگی میں وہ اپنا فکری اسلوب و آہنگ پیش کر دیتی ہے اور مقطع میں جو شانِ بے نیازی نظر آتی ہے وہ دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔
یہ دل اب رکھ دیا ہے وقت کی ٹھوکر پہ اے سیما
کہ اس کمبخت دل کی آرزو ہی کم نہیں ہوتی
اس شعر میں وقت کی ٹھوکر کا تیور عجیب دلکشی پیدا کرتا ہے۔ وہ ٹھوکر کی جگہ دہلیز یا کوئی دوسرا لفظ بھی استعمال کر سکتی تھیں لیکن انہیں اس بات کا شعور و علم ہے کہ اُن کی اس غزل کا رنگ و آہنگ کیا ہے۔ اسی لیے مقطع بھی اسی میعار اور تیور کا ہوگیا۔ ورنہ اکثر مقطع بھرتی کے ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مصرعہ میں ”کمبخت‘‘ جو غیر فصاحت ہے اسے سیما کے غیر معمولی تخلیقی برتاؤ نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ کیا آپ کو اس شعر کے ذریعے غالب کی یاد نہیں آتی؟ جب وہ کہتے ہیں کہ:
”بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘
سوچتا ہوا فنکار اور زبان پر قدرت رکھنے والا شاعر، الفاظ کی تراکیب کی ایک نئی دنیا آباد کرتا ہے۔ وہ بنے بنائے سانچوں کو توڑتا ہے اور نئے سانچوں کو ڈھالتا بھی ہے۔ اکثر شعراء کے یہاں یہ میکانیکی عمل غیر فطری سا ہوجاتا ہے چناں چہ اسے غیر تخلیقی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سیما کا یہ غیر شعوری عمل دراصل ان کے لاشعور میں رچےبسے اس نفسیاتی جرات کا اظہاریہ ہے جو انہوں نے گھر میں بچپن میں دیکھا اور پھر ملک پاکستان میں دیکھا اب وہ مدت سے جرمنی میں ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ شاعری گرامر سے نہیں آتی بلکہ کائنات کے مشاہدہ سے آتی ہے۔ تجربات کی بھٹی میں دمکتی ہے اور پھر مجاہدہ بن جاتی ہے۔ فیض یہ فقط یونہی تو نہیں کہا تھا کہ ”شاعر کا کام صرف مشاہدہ ہی نہیں بلکہ مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے۔گرد پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے، اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر، اس کے بہاؤ میں داخل ہونا اس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر ہے.‘‘
اب ذرا کچھ الگ قسم کے دو تین اشعار ملاحظہ فرمائیے:
یہ بدن خاکِ کیمیا ہی تو ہے
زندگی موت کی قبا ہی تو ہے
آندھی اُڑا کے لے گئی گھر بھی چراغ بھی
دستک کی راہ تکتا ہوا در نہیں رہا
رقصِ مستانہ کی جھنکار لیے پاؤں میں
تال پہ ٹوٹے ہوئے گھنگھرو کا ڈر بولے گا
عکسِ جمال دام میں آنے کے اور تھے
اب کے مزاج آئینہ خانے کے اور تھے
فصیل رنجش کی آسماں تک کھڑی ہوئی ہے
سو اس کے سینے میں خشتِ گریہ گھڑی ہوئی ہے
ایک چھوٹی بحر کی غزل کے دو تین اشعار اور دیکھیے:
مری آنکھوں میں اپنے خواب رکھ کر
محبت کیا ہے وہ سمجھا رہا ہے
زمیں پر وحشتیں بڑھنے لگی ہیں
فلک پر چاند گھٹتا جارہا ہے
جبینِ شوق پر سجدے سجائے
وہ صحرا میں بھٹکتا جا رہا ہے
ان اشعار کی سادگی جنہیں عرفِ عام میں سہل ممتنع کہتے ہیں، غور کرنے کے لائق ہیں۔ بعض مصرعے تو محاورے سے لگتے ہیں۔ مشاہدہ و تجربہ جب فکر اور فلسفہ کے در پر دستک دیتا ہے تو مصرعے ہمارے ہی نہیں زندگی کے آئینے بن جاتے ہیں۔ ایک مشکل آئینہ جسے آسانی سے سیما نے سجا دیا ہے۔ شاعری کی زبان یوں بھی رومانی و جوانی ہوا کرتی ہے جو اکثر الہامی ہوجایا کرتی ہے، اُن کا ایک مصرعہ ہے:
”دستک کی راہ تکتا ہوا در نہیں رہا‘‘
کیا ڈھلا ہوا مصرعہ ہے۔ سیما کی غزلوں کو بغور ملاحظہ کیجیے تو اکثر ایک ہی سجے ہوئے مصرعہ میں بات مکمل ہوتی نظر آتی ہے۔ لیکن دوسرا مصرعہ بھی بھرتی کا معلوم نہیں ہوتا۔ شاعری کی ایک منہاج یہ بھی ہوا کرتی ہے۔ ذیل کا شعر دیکھیے، دونوں مصرعے محاورے سے معلوم ہوتے ہیں:
روز مرتے ہیں روز جیتے ہیں
یہ محبت کی ابتدا ہی تو ہے
اُردو شاعری میں زندگی کو عام طور پر محبت کا نام نہیں دیا گیا۔ دیکھا جائے تو ہماری شاعری فلسفہء غم، رنج و الم اور ہجر و فراق میں رچی بسی ہے۔ آخر کوئی بات ہے کہ میر نے غم کو نشاطِ غم میں تبدیل کیا، غالب نے غم کو ایک فلسفے کا روپ دیا اور جگر جیسے رومانی شاعر کو بھی کہنا پڑا کہ:
دل گیا، رونقِ حیات گئی
غم گیا، ساری کائنات گئی
یہ فکر و خیال رومان و وجدان کی آخری منزل ہوتی ہے جہاں شاعر کا اضطراب سکون میں اور اذیت مسرت میں تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔ سیما کی خوبی یہی ہے کہ اُن کے یہاں شاعری محض شاعری نہیں بلکہ ایک مقصد ہے، ایک نظریہ ہے جو اُن کے ذاتی محسوسات اور انتشارِ کائنات کا معنی خیز امتزاج اور فکر انگیز تخلیق کے اظہار کا حوالہ بنتی ہے۔جس میں فکری برجستگی ہے اور فکری معنی خیزی اور سب سے بڑھ کر میری نظر میں ترقی پسندی۔۔۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عورت کم انسان زیادہ سمجھتی ہیں۔ کہیں بھی اپنے آپ کو کمزور و کمتر نہیں سمجھتی ہیں ۔ اُن کا ایک شعر ہے:
خدا نے ہے مجھے انساں بنایا
کھلونا ہوں نہ ہوں دستار تیری
دوسرے شعر میں کہتی ہیں:
مری آدھی گواہی چھین لے گی
کسی دن قوتِ گفتار تیری
دراصل یہ نظم ”آدھی گواہی‘‘ کے اشعار ہیں۔ شاید یہی وہ نظم ہے جس میں راست طور پر اُن کے اندر کی عورت جاگتی ہے۔ ہر چند کہ اس میں مردانہ نوعیت کی للکار ہے جس کا استقبال کیا جانا چاہیے، تاہم میرا یہ بھی معروضہ ہے کہ عورت خود بھی اپنے آپ کو آدھا یا آدھی گواہی کیوں سمجھے؟ یہ پوری دنیا انسانوں کی ہے جس پر مرد و عورت کا برابر حق ہے اور برابر کی حصہ داری۔ یہ آدھا ادھورے کا کھیل مردوں کا کھیلا ہوا ہے۔ جسے عورت نے قبول کر لیا ہے، جو کہ غلط ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں جلال زیادہ ہے جمال کم۔
سیما کی نظمیں بھی متوجہ کرتی ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے ان کی غزلوں نے زیادہ متاثر کیا ہے۔ تاہم جو نظمیں لائقِ مطالعہ ہیں اُن میں ”مجازی خدا‘‘، ”امن کی سوالی‘‘، ”ایک فسانہ‘‘، ”میں چاہوں گر‘‘ وغیرہ اہم تو ہیں لیکن اُن میں خارجیت زیادہ ہے۔ یہ صنف کی مجبوری ہے، سیما کی نہیں لیکن پھر بھی یہ عام خیال ہے کہ شاعری داخلیت سے جنم لیتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خارج کا دباؤ، احساس و شعور کی لہریں ہی داخلیت کو جنم دیتی ہیں۔ بہر حال نظموں کی دنیا اور ہے اور غزلوں کی دنیا اور. جیسے جوش نے نقاد کو للکارتے ہوئے کہا تھا:
”تیری دنیا اور ہے شاعر کی دنیا اور‘‘
اتنی عمدہ اور با معنی شاعری کے لیے میں سیما کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان ہی کی نظم پہ اپنی گفتگو کو تمام کرتا ہوں کہ:
سیما اٹھو جلاؤ سرِ شام اک چراغ
تم اپنی روشنائی سے دھو ڈالو اس کے داغ
اہلِ قلم کا یہ بھی فسانہ رقم کرو
تم اگلی نسل کے لیے باقی رکھو فراغ