قلم کہانی کی کہانی – حسنین نازشؔ

میں پیشہ وارانہ سلسلے میں ہر سال کم از کم ایک بار ضرور کوئٹہ جایا کرتا تھا۔ ایک سال جانے کیا سوجھی کہ اپنے ادبی دوست ڈاکٹر اسحاق وردگ سے پوچھا کہ کوئٹہ کی کسی ادبی شخصیت کا پتا دیں تاکہ کوئٹہ گردی کا کچھ وقت اس ادبی شخصیت کی نذر کر سکوں۔ ڈاکٹر اسحاق وردگ نے مجھے شیخ فرید کا نمبر دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ آپ کوئٹہ کی بات کرتے ہیں، اگر آپ پورے بلوچستان سے ایک ادبی شخصیت کا پوچھتے تو بھی میں شیخ فرید کا ہی نام لیتا۔ میرے لیے یہ نام اس وقت نیا تھا۔ نہ تو کوئی تخلص اور نہ ہی کوئی ادبی سا نام۔ یہ نام تو کسی کاروباری شیخ صاحب کا ہونا چاہیے تھا۔ خیر میں جب کوئٹہ پہنچا اور شیخ فرید کا نمبر ملایا تو دوسری طرف ایک جواں کھنکھتی ہوئی آواز نے سلام دعا کی۔ علیک سلیک کے بعد میں نے اپنا مختصر ادبی تعارف کرایا اور ڈاکٹر اسحاق وردگ کا سلام پہنچایا۔ شیخ صاحب نے کمال محبت اور شفقت سے سب سنا اور مجھے اگلی شام اپنے اخبار ساحل کے دفتر میں مدعو کیا۔ اگلے روز وقت مقررہ پر شیخ صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔

مجھے خوش گوار حیرت بھی ہوئی کہ شیخ صاحب نے میرے اعزاز میں ایک ادبی نشست اور مشاعرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس نشست میں کوئٹہ اور اس کے مضافات سے اہل قلم اور شعرا کو بلا کر میری عزت افزائی کی گئی۔ میں اس محبت کے کہاں قابل تھا مگر شیخ صاحب کی وسعت قلبی اس نشست سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یوں ادبی نشستوں کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑا جو ہر سال کبھی تو شیخ صاحب کے گھر، کبھی کسی ادارے کے دفتر اورکبھی اکادمی ادبیات کوئٹہ کی ادبی روایتوں کا حصہ بنتا چلا گیا۔ ان سال ہا سال کی ملاقاتوں میں شیخ فرید کی ادبی، صحافتی اورذاتی زندگی کے در مجھ پر وا ہوئے۔

شیخ فرید کوئٹہ کے بالخصوص اور بلوچستان کے بالعموم جانے پہچانے قلم کار، شاعر، کہانی نویس، افسانہ نویس اور معلّم ہیں۔ آپ کئی کتب کے مصنف ہیں۔ اگرچہ شیخ فرید کی ادبی اور صحافتی زندگی کا احاطہ کرنا نہایت کھٹن کام ہے تاہم یہاں میں صرف ان کی صحافتی اور کالم نگاری کی دنیا پر ایک طائرانہ نظر ہی ڈالوں گا کیوں کہ میرا موضوعِ سخن ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ ’’قلم کہانی‘‘ ہے۔ کالموں کے اس مجموعے کی اشاعت پر سب سے پہلے میں شیخ فرید کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
شروع شروع میں حسن نثار اور بعد میں جاوید چوہدری کے کالموں سے متاثر ہونے والے شیخ فرید نے اسّی کی دھائی سے اخباری دنیا میں کالم نگاری سے اپنا صحافتی سفر شروع کیا۔ خوش بختی نے ساتھ دیا جو انہیں وادیِ کوئٹہ کی قد آور صحافتی شخصیت سید فصیح اقبال کی شاگردی میّسر آئی۔ انہی کی حوصلہ افزائی کے سبب کالم نگاری کا آغاز روزنامہ ’’زمانہ‘‘ میں زمانے کی خیر کے عنوان سے کیا۔ یوں قلم کی روانی کا سلسلہ چل نکلا۔ روزنامہ تعمیربلوچستان، روزنامہ مشرق کوئٹہ، روزنامہ ’’شال‘‘، ’’حرب بقا‘‘، ’’پاکستان‘‘، ’’سرزمین‘‘، ’’نوائے خیر‘‘، ’’پاکستان پوائنٹ‘‘، ”نوائے انصاف‘‘، ”نئی دنیا‘‘، ”بروقت‘‘، ”پاکستانی نیوز شنگھائی‘‘ جیسے اخبارات میں مسلسل چھپتے رہے۔ ان کے کالم نہ صرف کوئٹہ اور بلوچستان بلکہ اسلام آباد اور لاہور کے بھی اخبارات کی زینت بھی بنتے رہے۔
ان کے کالموں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ ادبی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور فکری نوعیت کے رہے ہیں۔ شیخ فرید نے اپنے کالموں میں سماجی مسائل کو خاص قرینے سے موضوعِ سخن بنایا۔ عورت کی بے بسی کی داستانیں ہوں یا ظلم کی چکی میں پستی ہوئی خاموش آہیں، معاشی ناہمواریوں کی طویل داستانیں ہوں یا سماج کے منہ پر لگے کالے کلنک کے ٹیکے ہوں، طبقاتی کشمکش کی اذیتیں ہوں یا رؤساء کی عیاشیاں ہوں، تعلیمی زبوں حالی کا رونا ہو یا سماج کی سسکیاں ہوں… ہر ہر محاذ پر شیخ فرید کے اندر چھپے قلم کار نے سچی داستانوں کو عمدگی سے قلم کا پہناوا اس انداز سے پہنایا کہ قاری اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ ان کا کالم ان کے ہم عصر قلم کاروں کی تحریروں سے کسی طور لگا نہیں کھاتے کیوں کہ جو اسالیب اور ادبی و صحافتی تکنیک شیخ فرید کے ہاں ہمیں ملتی ہے وہ کسی دوسرے کالم نویس کے ہاں کم ہی ہو گی۔ میں ان کے کالموں کا مجموعہ ’’قلم کہانی‘‘ جب ہاتھ میں لے کر پڑھنے لگا تو پڑھتا ہی چلا گیا. ان کے کالموں میں جو مدو جزر، تجسّس اور تحّیر کی بلند گہری اور تیز لہریں تھیں کہ میں کہیں رک ہی نہ سکا۔ دم لینے کی بھی مجال نہ ہوئی۔ معاملاتِ زندگی ہوں، سیاسی و سماجی اتار چڑھاؤ ہو یا معاشی و سماجی مسائل، شیخ فرید کا قلم ایسی ایسی موشگافیاں کھول کھول کربیان کرتا ہے کہ قاری کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ کوئی کالم نویس اتنی آسانی سے اس قدر گراں موضوعات، اس سہل پسندی کے ساتھ کیسے بیان کرسکتا ہے؟ ایسے ہی چند ایک کالم ’’ہم سب جھوٹے ہیں‘‘، ”آؤ خود کشی کر لیں‘‘، ”آرنجی کی بھوک‘‘، ”بھوک اُگلتا پہاڑ‘‘ اور ”بچھو‘‘ وغیرہ قابلِ توجہ ہیں۔
شیخ فرید کے کالموں کی ایک اور خاص بات ان کے کالموں کے عنوانات ہیں۔ ان کے عنوانات میں وہ جاذبیت ہے کہ قاری ان عنوانات کی جانب کھنچتا چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ ان عنوانات پر غور کیجیے: ”عورت کہانی۔۔۔۔وہ ہار گئی‘‘، ”ماں بچہ اور بارش‘‘، ”سماں کا مقدمہ‘‘، ”خدا کرونا اور اسلام‘‘، ”اگر یہ سچ ہے تو۔۔۔‘‘، ”پسماندہ صوبے کی لگثرری گاڑیاں‘‘ وغیرہ ان عنوانات پر ایک نظر ڈالتے ہی قاری بھلا کیوں کر ان کالموں سے منہ موڑ سکتا ہے؟ ان کالموں کر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ فرید نے بڑی ہمت، جرات، نیک نیتی اور صدق دل سے سچائیاں اور حقائق عوام الناس کے سامنے رکھے ہیں۔ ان کے ایک ایک کالم پر انہیں شاباشیاں دینی چاہیں۔
چوں کہ شخ صاحب معلمی کے پیغمبرانہ پیشے سے بھی وابستہ ہیں اس لیے انہیں حرف و قلم کی حرمت کا خوب ادراک ہے۔ ان کا قلم مفلس کی آواز ہے، دہقان کے ماتھے کا پسینہ ہے، کوہ کن کے چہرے پر لگی سیاہی کی رنگت کا آئینہ دار ہے، مظلوم کی آہ ہے۔ ان کے جملوں میں کاٹ ہے۔ طنز کے نشتر ہیں، جن کی چبھن ظالم سماج اور مقدور حلقوں کی گردنوں تک ضرور محسوس کی جاتی ہے۔

آخر میں مَیں یہی کہوں گا کہ اس دور پُر شکوہ میں جہاں حق بات کہنے پر زبان بندی کے نت نئے اصول وضع کیے گئے ہیں، صحافیوں کے قلم کی سیاہیاں نایاب کر دی گئیں ہیں، صحافیوں کو سرِعام زدوکوپ کیا جا رہا ہے، ان پر سرِ راہ گولیاں چلا ئی جا رہی ہیں، انہیں دن دھاڑے عوامی مقامات سے اٹھایا جارہا ہے، اس زبوں حالی اور دستورِ زباں بندی میں شیخ فرید کی جرات کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے آبروئے قلم کا نہ تو سودا کیا اور نہ قلم کی نوک کو حالات کے قدموں میں جھکنے دیا۔ امید واثق ہے کہ شیخ فرید کے قلم سے پھوٹنے والے حروف و نقاط کی خوشبو سے ایک نہ ایک دن ضرور اس سماج کے آنگن میں بہار آئے گی۔ ہر ہر گل مہکے گا، ہر ہر کلی مسکائے گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ.