راحت علی صدیقی قاسمی نے لکھا ہے کہ ”اُردو زبان وادب میں قصہ گوئی، داستان، ناول نگاری کی طویل تاریخ ہے، جو مختلف ادوار کو متضمن ہے، حالات واقعات سے مقابلہ آرائی، زمانے کے معیار و اقدار پر کھرے اترنا، وقت کی روانی اور تیز رفتاری کو مات دے کر آگے بڑھنا، ناول سے افسانچہ تک کا سفر اس روداد کا عملی بیان ہے۔
داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ، افسانچہ، ان تمام اصناف نثر کو بہت سے مصنفین نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا، ناقدین نے ان کے گیسو سنوارے، ان کی خوبیوں و خامیوں کو اجاگر کیا، ادب کے طلبہ کو ان سے واقف کردیا، ان اصنافِ سخن سے متعلق بہت سی تخلیقات سپردِ قرطاس ہوئیں.‘‘
اُردو کے افسانوی ادبی اصناف میں سب سے مقبول صنف افسانہ تصور کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا دائرہ اثر کافی بڑا ہے. شبیر احمد بھٹی ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو معاشرے میں بکھری مختلف کہانیاں اپنے مشاہدات، احساسات اور تخیلات کے بل بوتے پر وجود میں لاتے ہیں اور پڑھنے والے کو چونکا دیتے ہیں. ان کا افسانوی مجموعہ ”تیرہواں ستارہ‘‘ اُردو کے افسانوی ادب میں خوبصورت اضافہ ہے اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق وہ خود تحریر کرتے ہیں کہ:
”میں اپنی کتاب کا نام اگر آئینہ یا گریبان رکھتا تو یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ ضرور کہتے کہ مصنف نے واقعی معاشرے کو آئینہ دکھایا ہے اور معاشرے میں بسنے والے ایسے کرداروں کو گریبان میں جھانکنے پر مجبور کیا ہے، مگر میری کتاب کا نام ”تیرہواں ستارا‘‘ اپنی کہانیوں اور افسانوں کے اعتبار سے پورا پورا اترتا ہے.‘‘
ان کے اس بیان کے باوجود بھی جب قاری اس مجموعے کو پڑھے گا تو بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کتاب میں مصنف نے معاشرے کو آئنیہ دکھایا ہے. شبیر احمد بھٹی شستہ، رواں اور سادہ نثر تخلیق کرتے ہیں. ان کا اسلوبِ تحریر عام بول چال کی زبان سے مزین ہے. بلاوجہ تشبیہات و استعارات و تراکیب سے پہلو بچاتے ہوئے انہوں نے افسانوی رنگ کو مقدم رکھا ہے.
ان کے افسانوی مجموعے میں تیس افسانے شامل ہیں. انہیں معاشرے میں پنپتی سماجی برائیوں کا خوب ادراک ہے، جس کا ذکر جابجا ان کی کہانیوں اور افسانوں میں نظر آتا ہے. وہ اصلاحِ معاشرہ جیسے عظیم کام میں منہمک دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ ان کے افسانے مقصدیت کے حامل ہیں. وہ ”جذبات کی عدالت‘‘ میں ایک مدعی کے ”خول‘‘ میں ”بے اختیار‘‘ اپنا ”گریبان‘‘ چاک کیے اس معاشرتی بگاڑ کے ”ذمے دار‘‘ کی ”تلاش‘‘ میں ہیں جس نے ہمیں ”غلام‘‘ کا ”مائنڈ سیٹ‘‘ عطا کر رکھا ہے. (واوین میں شبیر احمد بھٹی کے افسانوں کے عنوانات ہیں.)
شبیر احمد بھٹی کی کہانیوں میں سماجی رویوں کی سچی عکاسی انہیں جدید افسانہ نگاروں میں بہ سہولت شامل کرتی محسوس ہوتی ہے. آپ کا پہلا افسانوں اور کہانیوں کا مجموعہ بلاشبہ ہمیں ایک ماہر نباض اور اعلٰی افسانہ نگار سے متعارف کرواتا ہے جو تنقید برائے اصلاح کا قائل ہے اور اپنے اس فرض کی انجام دہی میں تن دہی سے مصروف ہے.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق