سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں زوقِ جمال دیا۔ محسوسات بخشیں. ہمت دی، صحت دی تاکہ اس کی بنائی گئی دنیا کی خوب صورتی دیکھ سکیں اور محسوس کرسکیں اور یادوں میں سمیٹ کر اپنے ساتھ رکھ سکیں۔
سیاحت کے شوقین لوگ فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے کام کاج سے وقت نکال کر خود کو جاننے اور خدا کی کبریائی دیکھنے کے لیے پہاڑوں کا سفر کرتے ہیں۔ مگر سال 2020ء ٹیسٹ میچ سے بھی لمبا ہوتا ہوا، بےزار کرتا ہوا گزر رھا تھا اور ہمیں پہاڑوں سے دور کیے ہوئے تھا۔ ہمارے جسموں میں وٹامن سفر اور وٹامن پہاڑ کی کمی ہورہی تھی جسے پورا کرنا ضروری ہوتا جارہا تھا۔
سفر نہ ہو تو یہ لطف سفر ہے بے معنی
بدن نہ ہو تو بھلا کیا قبا میں رکھا ہے
میں اور میرے دوستوں جیسے کاروباری لوگ عموماً خودبخود مل جانی والی چھٹیاں استعمال کرتے ہیں مگر سال 2020ء میں ایسے سارے مواقع موئے کرونا کی نذر ہوئے۔ تئیس مارچ گئی، عید الفطر گئی اور پھر عید قربان آئی۔ وقت گزرتا گیا، گزرتا ہی گیا۔
وقت رہتا نہیں کہیں ٹِک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے
میٹنگز بلائی جاتی رہیں، وہ بھی کھانے پر تاکہ کھانا کھانے کے بعد جب دماغ چلنا شروع ہو تو کہیں جانے کی پلاننگ کی جاوے۔ خود پر پڑی گرد ختم کی جائے، پاؤں میں پڑی بیڑیاں توڑی جائیں، گھٹنوں کو لگے زنگ سے نجات حاصل کی جائے، ترسی ہوئی آنکھوں کو پہاڑوں کے مناظر کا اور جھیلوں کے نیلے پانیوں کا دیدار کروایا جائے، چشموں کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں سے گلوں کو تر کیا جائے. بہتے نالوں کے، ٹھنڈے پانیوں سے منہ دھو کر خود کو صاف کیا جائے۔ (نہانے کی بات اس لیے نہی کی کہ ہم پہاڑوں پر پانچ چھ دن سے پہلے نہانا معیوب سمجھتے ہیں.) مزید یہ کہ گھنے جنگلوں میں کھڑے ہوکر اس میں موجود چیڑ کے درختوں کی مہک سے ناک کو مہکاتے ہوئے دل و دماغ کو مہکایا جائے مگر۔۔۔ یہ کم بخت کرونا اور لاک ڈاؤن کہیں جانے نہی دیتے تھے۔ خیر پروگرام بنتے رہے. کبھی بائیک نکالی، کبھی کار نکالی اور کبھی پبلک ٹرانسپورٹ. کبھی کسی علاقے کو پرکھا جائے، کبھی کسی اور علاقے کی فزیبلٹی بنائی جائے مگر کوئی نا کوئی دقت آڑے آہی جائے تو اسے ختم کرکے نئے علاقے ڈسکس کیے جائیں۔
اسی دوران دن گزرتے گئے. منصوبے بنتے گئے مگر دل کہیں نہی مانتا تھا. جب کچھ سمجھ نا آیا تو یہ بھاری ذمہ داری اکیلے میرے ناتواں کندھوں پر ڈالی گئی کہ علاقہ اور انتظامات آپ نے کرنے ہیں، اور جانا ہی جانا ہے، جیسے مرضی لے کر جائیں. اور میں نے یہ سوچا کہ کہیں یہ والا معاملہ نا ہوجائے…
یہ سوچتے ہی رہے اور بہار ختم ہوئی
کہاں چمن میں نشیمن بنے کہاں نہ بنے
میں نے پھر آرام سے اپنے دوسرے گھر کوہستان کو فائنل کر دیا مگر کہانی تو ابھی بھی باقی ہے۔ یوں کہ کوہستان کے تین علاقے نظر میں تھے. اب ان میں سے کہاں جایا جائے؟
یہ پہلے سے بھی مشکل کام ہوگیا کیوں کہ کوہستان کی ساری وادیاں ہی خوبصورت اور پرسکون ہیں مگر کسی ایک طرف جایا جا سکتا تھا تو قرعہ فال پالس ویلی کا نکلا. آخر کار عید سے کچھ پہلے پالس ویلی کوہستان کو دیکھنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور تیاریاں شروع کردیں۔ راستوں کی بندش بھی ذہن میں تھی اس لیے کبھی ارادہ بدلتا کبھی، ارادہ پختہ کرتے آخرکار عید والے دن ہم نے گاڑی ڈھونڈ کر ٹکٹ کروالی. یہ تو طے ہوگیا کہ ہم پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی جارہے ہیں اور پالس ہی جارہے ہیں۔
عید کا دن آیا، قربانی کی اور گوشت بانٹنے کے بعد عید کی رات کو اپنے سفر پر نکل پڑے۔
ہم پانچ لوگوں کا گروپ تھا:
1. زین العابدین بقلم خود، بذات خود
2. محمد آفتاب احمد
3. فرحان طارق
4. فراز الحسنین
5. فاروق بھٹی
پہلا دن:
یہ دن شروع رات بارہ بجے کے بعد ہوتا ہے مگر میں اپنی سہولے کے لیے ایک گھنٹہ پہلے شروع کررہا ہوں اور امید ہے آپ کو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا. طے تھا کہ لاری اڈے پر عثمان گجر کی گاڑی سے نکلا جائے گا، جس کا آخری سٹاپ تھاکوٹ ہے اور اس کی بکنگ کے لیے دوپہر میں فرحان بھائی نے ذمہ داری اٹھائی۔ جو کہ انہوں نے بخوبی نبھاتے ہوئے دوپہر میں ہی نشستیں حاصل کرلیں۔ دن تو گوشت کے ساتھ ہی گزرنا ہوتا ہے، گوشت بنا کر، گوشت بنوا کر، گوشت بانٹ کر اور گوشت کھا کر گزارا جاتا ہے تو رات کو سفر شروع کرنے کے لیے ہم پانچ لوگ ٹھیک دس بجے اڈے پر پہنچ گئے۔ گاڑی ڈھونڈی اور اس میں سوار ہوکر جانبِ منزل چل دیے۔ مگر یہاں پر ایک مزے دار واقعہ ہوا۔
گاڑی اڈے سے نکل کرشاہدرہ کی طرف چل پڑی. ہمیں یہ پتا تھا کہ یہ گاڑی جی ٹی روڈ سے جائے گی مگر شاہدرہ سے جب وہ شیخوپورہ کی طرف چل دی تو کان کھڑے ہوئے. کنڈکٹر سے پوچھا کہ جناب یہ کیا معاملہ ہے تو انہوں نے کہا کہ گاڑی آج موٹروے سے جائے گی۔ مطلب موٹروے پر چڑھنے سے پہلے گاڑی میرے گھر کے بالکل پاس سے گزرے گی. میں نے بھاگم بھاگ میں کزن سے درخواست کرکے، اس کو مجھے اڈے پر چھوڑنے کیے لیے آمادہ کیا تھا اور اب میں لوکل گاڑی میں بیٹھا ہوا دوبارہ اپنے علاقے سے گزر رہا تھا اور میرے دوست اس بات پر مجھے کچھ کچھ چھیڑ بھی رہے تھے.
گزر رہے تھے وہیں سے ہم
روز گزرتے تھے جہاں سے
جانا تو تھا کچھ نیا دیکھنے ہم نے
مگر یہ وہی جا ہے جو دیکھتے تھے روز
مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔
سفر شروع ہوچکا تھا اور گاڑی جانبِ منزل رواں دواں تھی۔ ہم اپنی آنکھوں میں کوہستانی خواب لیے خود کو کسی جھیل کنارے محسوس کررہے تھے. ایسے میں کلرکہار کا قیام و طعام آتا ہے. ضروی حاجات کے لیے گاڑی روکی جاتی ہے. ہم پانچ بھی باہر کا ماحول دیکھنے گاڑی سے نکل آتے ہیں اور باہر واقعی بڑا ”ماحول‘‘ ملتا ہے. گرم ہوا کے تھپیڑے استقبال کرتے ہیں مگر جب ماحول گرم یا حبس زدہ ہو تو کچھ دیر بعد ٹھنڈی ہوا چل ہی جاتی ہے. اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا. ایک کوسٹر آکر رکی اور پھر ماحول ٹھنڈا، خوش گوار اور خوشبودار ہوگیا…
خیر کچھ دیر بعد سوچا کہ ”اللہ والیو! تُسی کیہڑے پاسے چل پئے او. پہاڑاں تے چلے او، خدا دا نام لوو، تے نظراں نیویاں کرکے اپنی گڈی وچ بیہ جاؤ۔‘‘
اور پھر ایسا ہی کیا گیا. اگلا سٹاپ مانسہرہ گزار کر نماز فجر کے لیے کیا گیا. نماز پڑھی اور طلوع آفتاب سی پیک روڈ پر دیکھتے ہوئے کچھ ہی دیر میں ٹھا کرکے تھا کوٹ پہنچ گئے۔ گاڑی سے نکل کر وقت دیکھا تو حیرت ہوئی. گھڑی کے مطابق چھ بج کر پچیس منٹ تھے. آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا. آنکھیں مل کر پھر وقت دیکھا، وقت وہی تھا. تو موبائل نکال دیکھا تو بھی وہی تھا۔ ںتیجہ یہ نکالا کہ اب فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ ایک دو سال پہلے مانسہرہ سے یہاں پہنچنے میں چار گھنٹے لگ جاتے تھے مگر اب ہم لاہور سے سات گھنٹے میں تھاکوٹ پہنچ گئے۔ پہلے لاہور سے مانسہرہ چھ سے سات گھنٹے لگ جاتے تھے اور بیٹھ بیٹھ کر کمر میں درد ہوجاتا تھا۔ شکریہ چائنہ شریف
صبح سویرے کا وقت تھا اور شہر ابھی سورہا تھا مگر ہم تو جاگ رہے تھے اور بھاگ بھی رہے تھے (مطلب تیز تیز چلتے ہوئے دوسرے اڈے کی طرف رواں دواں تھے.) سواری ڈھونڈنے میں کافی دقت ہوئی کیوں کہ کوئی گاڑی دستیاب نہی تھی۔ چھوٹی گاڑیاں ملتی تھی مگر اس میں ہم پانچ لوگ پورے نہی آسکتے تھے تو خدا نے ایک CNG رکشہ بھیجوا دیا جس نے ہمیں بیشام چھوڑنے کی حامی بھری۔ اس طرح قراقرم ہائی وے پر رکشے کے سفر کا مزہ بھی لے لیا اور تھوڑی بائک والی فیلنگ مطلب ”ہوا خوری‘‘ بھی ہوگئی.
بیشام سے کچھ پہلے قراقرم ہائے وے بناتے ہوئے جن مزدوروں نے اپنی جان قربان کیں، اُن کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک یادگار بنائی گئی ہے، وہاں چند لمحات کا قیام کیا اور مرحومین کو خراج تحسین پیش کیا. پھر کچھ یادگاری تصاویر کھینچ کر آگے بیشام کی جانب چل دیے۔ کہتے ہیں بیشام میں شام ہوجاتی ہے. جب کبھی بائک کا سفر کیا تو یہاں شام ہو ہی جاتی تھی مگر اب کی بار ہم صبح کے وقت ہی بیشام میں تھے.
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
بیشام سے اگے:
بیشام، دریائے سندھ کنارے آباد ایک بڑا شہر ہے. لاہور یا آس پاس سے چلنے والے بہت سے لوگ جو گلگت کا رخ کیے ہوتے ہیں، اکثر یہیں آکر رکتے ہیں۔
یہاں بہت سے ہوٹلز ہیں. PTDC کی ایک شاخ یہاں بھی ہے۔ کافی بڑا بازار ہے۔ خشک میوہ جات کی بھی بہت سی دکانیں ہیں۔ ہم اگے جاتے ہوئے اکثر یہاں سے ڈرائی فروٹس وغیرہ لیتے ہیں جو آپ بھی لے سکتے ہیں اور اگر اپ مجھے بطورِ تحفہ بھی دینا چاہیں تو میں انکار نہی کروں گا۔ یہاں پہنچ کر ناشتہ کی طلب ہورہی تھی اور ناشتہ ہم لاہور سے بنوا کر لائے تھے۔ ناشتے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ہم نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ہم عید والے دن گھر سے نکل رہے ہیں اور عید کے دن ہمارے گھروں میں پکوان پک رہے ہوتے ہیں۔ ہم تو ان کو کھانے رک نہیں سکتے تو کیوں نا ہمیں اپنے لیے کچھ پکا کر ساتھ رکھنا چاہیے، جسے اگلے دن کھایا جاسکے اور عید قربان والی فیلنگ لی جا سکے۔ اس لیے ہم نے عید کی دوپہر میں ہی سالن پکوا کر اسے فریز کروا لیا تھا. ارادہ یہ تھا کہ اسے گاڑی میں اےسی کے بالکل پاس رکھیں گے تاکہ وہ خراب نا ہو۔ ہم نے اس ڈبے کو اے سی کے پاس رکھا تو کنڈکٹر نے پوچھا: ”یہ یہاں کیوں رکھا ہے؟‘‘
جب اُسے اپنی خواہش کے متعلق بتایا تو اُس نے کھانا فریزر میں رکھ کر ہمیں اطمینان دلا دیا۔ گاڑیوں میں اتنے سفر کیے ہیں مگر منصوبہ بناتے وقت یہ یاد نہی آیا کہ گاڑی میں ایک فریزر بھی ہوتا ہے، وہاں کھانے کی چیزیں رکھی جاسکتی ہیں۔ یوں وہ سالن صحح سلامت تھاکوٹ پہنچ گیا۔
مگر تھاکوٹ سے لے کر بیشام تک ٹیم کے ایک بندے نے اس ڈبے پر نیت خراب رہی، کہ ہمیں اس کے ہاتھ سے بڑی مشکل سے بچا کر رکھنا پڑا. اس کا بس چلتا تو وہ تھاکوٹ میں ہی کھالیتا۔ وہ تو میں نے اسے بتایا کہ میں نے بوٹیاں گِن کر ڈالی ہیں، اگر ایک بھی کم ہوئی تو خیر نہیں. بیشام پہنچ کر سب سے پہلے گاڑی کا بندوست کیا اور پھر پیٹ بھرنے کا. شہر میں ایک ہوٹل کھلا ملا تو وہیں تازہ دم ہوئے اور ناشتے کا آرڈر دیا۔ ناشتے میں وہی سالن گرم کروایا اور روٹیاں پکوائیں. جب سالن گرم ہوکر آیا تو بوٹیاں کم یا گنی چنی نہیں تھیں. دراصل میری چاہت اور منصوبہ بندی یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ سفر گزار کر ناشتہ کیا جائے اور الحمدللہ ابھی تک ہم اپنے سوچے گئے وقت سے پہلے ہر جگہ پہنچ رہے تھے۔ تھاکوٹ میں رک کر ناشتہ کرتے تو دوپہر کا کھانا ہمارا پٹن میں ہوجانا تھا اس لیے ناشتہ کے لیے بیشام پہنچے۔
سالن میں نے ہی پکوایا تھا اور جس جانور کا گوشت تھا، وہ بھی میں نے خود ہی پالا تھا۔ اب یہاں ہوٹل میں بیٹھے سب مجھے جذباتی کررہے تھے کہ ذین نے بکرے کو بچوں کی طرح پالا تھا، اب یہ گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ اس کا بکرا اوپر سے دیکھ رہا ہوگا کہ جو بندہ مجھے روز کھانا کھلاتا تھا، اب وہ مجھے ہی کھائے گا. بکرے کو برا لگے گا، اس لیے اب زین سالن نہی کھا سکتا۔ مگر میں نے ان کا یہ خیال غلط کرتے ہوئے سمجھایا کہ اگر میں نے گوشت نا کھایا تو بکرا بے چارہ اوپر بیٹھا برا مان جائے گا کہ مجھے پال کر باقی سب کو تو کھلا دیا خود نہیں کھایا اس لیے میں تو ڈٹ کر کھاؤں گا۔ (بھلا گوشت بھی چھوڑے جانے والی چیز ہے.)
ناشتہ کرکے سفر پھرسے شروع ہوا. اب کی بار ایک کار ملی جس میں ہم بہت مشکل سے پورے آئے مگر وہی دستیاب تھی تو گزارا کرنا مجبوری تھی۔
قراقرم ہائے وے آج خالی خالی تھی، خال خال ہی کوئی گاڑی نظر آتی۔ ہم تھے، بل کھاتی سڑک پر چلتی ہوئی ہماری گاڑی تھی. کار کی ٹیپ پر پرانے گانے چل رہے تھے جو فاروق بھٹی صاحب گا رہے تھے۔
یہ حسین وادیاں یہ کھلا آسمان:
اور ہم کبھی دائیں طرف ڈولتے، کبھی بائیں طرف ڈولتے ہوئے پٹن کی طرف بڑھتے جارہے تھے۔ کچھ دیر گانے سننے کے بعد میں نے نصرت فتح علی خان کو سننے کی فرمائش کر ڈالی اور اب سپیکر پر نصرت صاحب کی آواز گونج اٹھی۔
کملی والے محمدﷺ توں صدقے میں جاں
جنہیں آ کے غریباں دی بانہہ پھڑ لئی
میری بخشش وسیلہ محمدﷺ دا ناں
جنہیں آ کے غریباں دی بانہہ پھڑ لئی
خاں صاحب کو سنتے ہوئے پہاڑوں کے سفر کا مزہ تم کیا جانو اے hip-hop سنتے ہوئے پہاڑوں میں گھومنے والو! یہ ایک انتہائی خوب صورت نشے جیسا ہوتا ہے۔ پہاڑ سنگلاخ ہوتے جارہے تھے اور موسم گرم ہوتا ہوا دوپہر کے نزدیک ہونے کی نوید سنا رہا تھا۔ آخرکار کچھ دیر بعد پٹن بازار آگیا۔ پٹن شاہراہِ ریشم پر قائم چھوٹا سا شہر ہے جس میں چند ایک ہوٹل اور دکانیں موجود ہیں۔ وہاں سے دریا پار پالس ہے۔ ایک دو چڑھائی اترائی کرتے، سندھ دریا پر بنا پل پار کرتے ہوئے منٹوں میں ہم پالس پہنچ گئے۔ پالس پہنچ کر سُکھ کا سانس لیا کہ گاڑیوں کے سفر کا بڑا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ اب ایک جیپ سے سیدھا برپارو گاؤں تک جائیں گے اور رات آرام کریں گے مگر۔۔۔
ہوا کچھ ایسا کہ جیسے ہمارا منصوبہ الٹ پلٹ ہو گیا ہو۔ پالس پل پار کر ہم جس علاقے پہنچتے ہیں، اسے سیر غازی آباد کہتے ہیں۔ اس جگہ سے جیپ مل جاتی ہے، چاہے برپارو سے اوپر جانا چاہیں یا بر شریال سے (یہاں اوپر سے مراد مورو میڈوز کو ہی لیا جائے.)
دن میں کچھ ہی گاڑیاں ہوتی ہیں جس میں سامان اور بندے دونوں سفر کرتے ہیں (اس سفر میں آپ تھوڑا سا انگلش والا suffer بھی شامل کرسکتے ہیں.) مگر آج جانے والی کوئی گاڑی نہی تھی اور صبح سے کوئی گاڑی نیچے آئی بھی نہیں تھی. مطلب کہ آج کی رات وہیں گزارانا پڑ سکتی تھی۔ بازار میں ایک دکاندار نے ہمیں دیکھتے ہی فوری طور پر چائے منگوا لی اور ہمارے بیٹھنے کا انتظام بھی کردیا۔ حالاں کہ میں اسے یا وہ مجھے نہیں جانتا تھا مگر اس نے مہمان کو دیکھتے ہی اپنا پیار دکھلایا جو کہ کوہستان کا خاصہ ہے۔ اسی دوران شاہین بھائی کو فون کرکے صورتِ حال سے آگاہ کردیا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی شخص کو ہمارے پاس بھیجتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اپنے تب تک اپنے حجرے میں ٹھہرا لے، جب تک جیپ ملے یا اگلے دن صبح تک جب جیپ اوپر سے نیچے آئے۔ اتنی سی دیر میں ایک شخص آیا اور اس نے بتایا کہ جیپ آرہی ہے مگر وقت لگے گا. یہ شخص مجھے اتنا اچھا لگا، اتنا اچھا لگا کہ کیا بتاؤں (یہ بندہ ویسے بھی بہت اچھا ہے جو کہ بعد میں پتا چلا.)
یہ بندہ مبین پالس تھا. میں نے شاہین بھائی کی بات مبین پالس سے کروائی، تو انہوں نے بتایا کہ یہ میرا کزن ہے جو کہ مجھے پہلے کبھی ملا تو نہی تھا مگر کتاب چہرہ (facebook) کی مہربانی سے جانتا ضرور تھا۔ میں نے مبین بھائی کو نہیں پہچانا تھا. وہ تو بعد میں جب گپ شپ ہوئی تو پتا لگا۔ شاہین بھائ نے جو بندہ ہمارے لیے بھیجا وہ بھی ہمیں لینے آگیا۔ بازار میں رُک کر جیپ کا انتظار کرنے سے اس بندے کے ساتھ حجرے جا کر کچھ وقت گزارانا بہتر لگا۔ ہم حجرے کی طرف چل دیے جو کہ پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ حجرے میں رُک کر کچھ دیر آرام کرنا ایک بہتر فیصلہ رہا کیوں کہ سارے نہا دھو کر، پپو بچے بن کر، ایک بار پھر سے دیکھنے لائق ہوگئے تھے.
جیپ نے آتے آتے بہت وقت لگایا مگر فکر نہی تھی کیوں کہ جیپ آرہی تھی یہ یقین تھا. دوسرا آرام کرنے کی جگہ پاس تھی۔ جیپ آئی اور سفر ود انگلش والا suffer شروع ہوا۔ کچھ سفر کے بعد نماز کا وقت ہوگیا تو جیپ کو روک کر پتھروں پر نماز ادا کی گئی اور ابھی سفر شروع ہی ہوا تھا کہ مبین بھائی کو کسی کا فون آیا!
کچھ لوگ تھے۔ جو برپارو جانا چاہ رہے تھے مگر ان کی گاڑی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہوگیا تھا تو انہیں ساتھ لیجانے کے لیے جیپ واپس موڑی گئی مگر ہم نے آگے جانے کی ٹھانی ہوئی تھی. تو واپس جانا معیوب سمجھا اور ہم پیدل ہی آگے کی طرف چل دیے. نیچے بہت دور دریا بہتا تھا مگر اس کی آواز ہمیں دور کھڑے بھی سنائی دے رہی تھی. دریا پار قراقرم ہائی وے بالکل چھوٹی سی لکیر جیسی لگتی تھی۔ موسم گرم تھا مگر راستہ ہموار راستہ ہونے کی وجہ سے چلنے میں کچھ خاص دقت نہی ہورہی تھی مگر یہ سیدھی پڑنے والی دھوپ تنگ کررہی تھی. ایک جگہ چھاؤں دیکھ کر ہم بیٹھ گئے۔ یہاں موبائل سگنل ہمارا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور تھکاوٹ بھی کچھ کچھ حاوی ہورہی تھی۔ کافی وقت گزر گیا، جیپ نے منہ نا دکھایا تو کسی ایک شخص کو گیم سوجھی۔ اُس نے ایک پتھر اٹھا کر سامنے پڑے پتھر کا نشانہ لگایا جو کامیاب ہوگیا. بس پھر کیا تھا سب ہی اس کام پر لگ گئے. چھوٹا پتھر ڈھونڈھتے اور سامنے پڑے بڑے پتھر پر نشانہ لگانے کی کوشش کرتے۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ اس کام کا میچ کروایا جائے۔ سب کو پانچ پانچ پتھر دیے گئے اور نشانہ لگانے کو کہا گیا. اور یہ میچ فراز الحسنین نے بھاری مارجن سے جیتا اور جیت کی خوشی میں ڈانس بھی کیا گیا۔ اتنے سینئر اور سیریس لوگ پہاڑوں میں جاکر بچوں جیسی حرکات کرتے ہوئے کیا لگتے ہوں گے، یہ خود سوچ لیں. (میرے پاس ان سارے مناظر کی ویڈیوز ہیں جو کہ ہارڈ ڈسک کی خرابی کہ وجہ سے ابھی نہیں دکھائی جاسکتیں. امید ہے ڈیٹا جلد ہی ریکور کرلیا جائے گا.)
بیابان جگہ پر بیٹھے جیپ کا انتظار کرتے ہماری حالت کچھ یوں تھی:
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
آہٹ بہت دیر سے آئی. جیپ نے آتے آتے خوب وقت لیا مگر آہی گئی اور سفر ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ جیپ دریا کے ساتھ والا کچا روڈ چھوڑ کر پہاڑوں کے اندر پالس نالے کے ساتھ ساتھ پکے روڈ پر چل رہی تھی۔ یہاں موسم قدرے ٹھنڈا تھا۔ کیوں کہ دونوں طرف پہاڑ چھاؤں کیے ہوئے تھے اور ایک طرف سے نالے کا ٹھنڈا پانی ماحول کو ٹھنڈک دے رہا تھا۔ اچانک سے ایک موڑ آیا. جہاں سے جیپ جو ہماری چیخیں نکلوا رہی تھی، اب خود چیختی چنگھاڑتی چاروں پہیوں کا زور لگاتے ہوئے شدید کچے روڈ پر اوپر کو اٹھتی جارہی تھی۔ پیچھے بیٹھے (سوری کھڑے ہوئے) پیچھے کو گرتے جارہے تھے۔ اپنا توازن برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ آخر کار جیپ کے سفر(suffer) کے بعد ہم شام کے قریب قریب برپارو پہنچ گئے۔ سُکھ کا سانس لیا۔ سموکرز نے سگریٹ سلگا لیے. باقیوں نے پانی کی بوتلیں بھریں اور سکون سے پتھروں پر بیٹھ گئے کہ اب یہی پڑاؤ ہوگا اور کچھ کھانا پینا بھی مگر۔۔۔
برپارو پہنچ کر پتا چلا کہ جہاں ہم نے ٹھہرنا تھا، وہ جگہ اوپر مورو میں ہیں تو ہمیں اب تھوڑا آگے اگلے گاؤں تک جانا پڑے گا جو کہ آدھا گھنٹہ پیدل مسافت پر ہے۔ آدھا گھنٹہ مقامی آدمی کہے تو سمجھ لیں کتنا دور ہوگا.
ہم اب تھکے بھی ہوئے تھے اور دوسرا چلنے کی نیت بالکل بھی نہیں تھی۔ ہم تو اپنی طرف سے سفر ختم کرچکے تھے مگر بھلا ہو مبین کا جو اس نے آگے جانے کا کہہ کر جو ہمت بچی تھی، وہ بھی ختم کردی. چارو ناچار چلنا ہی پڑا اور زبردستی اپنے آپ کو گھسیٹنا پڑا. ایک ایک قدم مشکل سے اٹھ رہا تھا مگر ہم کو تو جانا تھا. چلتے ہی جانا تھا. سر جھکایا، کمر کسی، دھیان بدلنے کے لیے کانوں میں ہینڈز فری لگا کر نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک غزل لگا لی۔
ان کے انداز کرم، ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت، وہ باتیں، وہ زمانہ دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
زندگی گزری، مگر درد نہ جانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا
وہ محبت کی شروعات، وہ بے تحاشہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا
دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب! نہ لگانا دل کا
ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے
اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا
میرے پہلو میں نہیں، آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانا ہے بہت دن سے، ٹھکانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے۔۔۔
غزل ختم ہوئی، پھر لگائی، پھر سے لگائی. بدل کر قوالی لگا لی مگر یہ دھیان، یہ کم بخت دھیان بس اوپر کو اٹھتے راستے سے اور تھک کر چور ہوئے جسم سے ہٹتا ہی نا تھا۔ راستہ دشوار تو ہرگز نا تھا بس جسمانی اور دلی کیفیت ایسی نا تھی کہ ہم اس راستے کو آرام سے گزار لیتے۔ جس جگہ ہمیں رات کے لیے رکنا تھا، وہ جگہ ابھی نظر بھی نہی آئی تھی کہ بادل گرجنے کی آواز آئی. اوپر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ گھیرا بندی ہوچکی ہے. اب فاسٹ موڈ آن کرنا ضروری تھا تاکہ بھیگنے سے بچا جائے۔ بارش تو جیسے برسنے کو تیار ہی تھی. ایک منٹ بعد ہی بارش برس پڑی مگر…
آج تو بادلوں کا ہم پر کرم خاص ہوا
برستے رہے کچھ دیر پھر مطلع صاف ہوا
بارش کے بعد سورج نکل آیا اور ہم پرسکون طریقے سے، دھیمے دھیمے سے، رمکے رمکے سے، آرام آرام سے، ہولے ہولے سے چل پڑے۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد پھر سے گھیرا بندی ہوگئی اور اب کی بار تیور خطرناک لگ رہے تھے۔ اب جو گرج چمک کے ساتھ تیز بارش ہوئی تو ہماری دوڑیں بھی لگ گئیں۔ فاروق بھٹی اور فراز میرے سے پیچھے تھے. فرحان میرے ساتھ تھا اور ہمیشہ کی طرح آفتاب ہم سے آگے۔ اسی وقت ایک جوان بھاگا بھاگا آیا. آتے ہی سلام کیا. یہ نورالہادی تھا۔ مجھ سے بیگ پکڑنے لگا مگر میں نے ان کو نیچے بھٹی صاحب اور فراز کی طرف بھیجا تاکہ یہ اُن کی مدد کریں اور اُن کو جلد اوپر لے آئیں۔ ایک چھوٹی سی چڑھائی چڑھتے ہی ہماری آج کی قیام گاہ نظر آئی تو یقین مانیے ایسے خوشی ہوئی جیسے کسی پیاسے کو میٹھے پانی کا کنواں مل گیا ہوا۔ جیسے عرصے سے بھوکے آدمی کو پیٹ بھر کر کھانا مل گیا ہو۔ جیسے کسی روتے بچے کو ماں کی گود مل گئی ہو. قیام گاہ پہنچے تو ڈاکٹر صادق ود ہز کمپینیئن، پہلے ہی تشریف فرما تھے۔ بیگ اتارے گئے، کپڑے خشک کیے. چائے دی گئی تاکہ ہوش پکڑ سکیں. کچھ دیر بعد دسترخوان لگا جسے روایتی ڈشز کے ساتھ سجایا گیا تھا. کھانے کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اسے جلد ہی اجاڑ (ختم ) دیا گیا.
چاندنی رات:
کھانا کھا کر تھکاوٹ ختم ہوگئی تھی. اب تقریباً فیلنگ فریش والی حالت تھی۔ مگر باہر ہونے والی بارش ابھی بھی جاری تھی جو کہ سر کے پاس کھڑکی سے محسوس ہوتی تھی۔ لیٹے لیٹے کب آنکھ لگی پتا نہی چلا۔ کب سوئے کب جاگے… اٹھ کر کمرے سے باہر آگیا. بارش تھم چکی تھی اور چاند اپنی چاندنی سے علاقے کو روشن کیے ہوئے تھا۔ میں سمجھا کہ شاید میں اکیلا ہی جاگا ہوں، اور باہر آیا ہوں، مگر یہاں سب مجھ سے پہلے موجود تھے. کوئی سگریٹ کا نشہ پورا کررہا تھا اور کوئی بیٹھا چاند کی چاندنی میں بہادر سر پہاڑ کا نظارہ کر رہا تھا. اب کے میں ان کی محفل میں شامل ہوگیا۔ چاند کی چاندنی میں نہائی ہوئی مکئی کی فصل جب ہوا کے چلنے سے لہراتی تو منظر رومانوی سا ہوجاتا۔ نظر اوپر اٹھاتے تو بہادر سر پہاڑ سینہ تانے وادی پالس کے محافظ کی طرح نظر آتا۔ بہت سا وقت باہر گزار کر کمرے میں آئے۔ مورو مالی کے خوابوں کو انکھوں میں لیے نیند کی وادی میں چلے گئے۔
(جاری ہے)
“داستان سفرِ کوہستان (پہلا حصہ) – زین العابدین شیخ” ایک تبصرہ
تبصرے بند ہیں