داستان سفرِ کوہستان (تیسرا اور آخری حصہ) – زین العابدین شیخ

معصوم خان نے کہا: ”زین بھائی اب چلنا چاہیے، شام سے پہلے ہر صورت واپس پہنچنا ہے اور ابھی ایک جھیل بھی دیکھنی ہے۔‘‘
یہ وقت ظہر اور عصر کے درمیان کا تھا اور شام ابھی دور تھی مگر ہماری کیمپ سائٹ بھی دور تھی. جتنا سفر طے کرکے آئے تھے، اتنا سفر واپسی پر بھی تو کرنا ہے اور ابھی ایک اور جھیل دیکھنا باقی تھی۔
جھیل کنارے ایک گروپ فوٹو بنا کر سب نے نعرہ لگایا اور اگلی جھیل کی طرف چل پڑے۔
اگلی جھیل کچھ ہی فاصلے پر تھی. دیکھتے دیکھتے، چلتے چلتے چند منٹوں میں اگلی جھیل تک پہنچ گئے. ایک دوست نے کہا:
”ساری جھیلوں تک ایسے ہی ہنستے کھیلتے پہنچ جاتے تو کتنا آرام دہ کام ہوتا.‘‘
مگر جھیلیں آسانی سے اپنے پاس آنے نہی دیتیں. پہلے پرکشا دینا پڑتی ہے اور پرکشا میں پاس ہونے والے ہی ان تک پہنچ پاتے ہیں، ان کے پانیوں کو چھو پاتے ہیں اور جھیلیں ہی اتنی آسانی سے مل جاتیں تو چھپڑ ہوتے، جھیل تو نا ہوتی.
یہ جھیل لمبائی کی شکل میں تھی. اسی لیے اس کا مقامی نام رگی سر (لمبی جھیل) تھا. اس جھیل کا پانی کہاں سے آتا اور کہاں جاتا ہے، مجھے پتا نہیں لگ سکا. اس جگہ سے تینوں جھیلوں کو دیکھا جا سکتا تھا. بڑی جھیل مکمل واضح تو نہیں لیکن کافی حد تک دیکھی جا سکتی تھی. مگر باقی دونوں جھیلیں آرام سے دیکھی جاسکتی تھیں اور بہادر سر پہاڑ یہاں بھی پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا اور سینہ تانے سامنے کھڑا تھا.
وقت کی کمی اور تھکاوٹ نے اس جھیل پر زیادہ رکنے سے روکے رکھا۔ واپسی کا بگل بجا اور سب نے واپسی شروع کر دی۔ راستے میں معصوم خان نے ہمیں لوک داستان سنائی جو کہ جِنوں کے بارے میں تھی اور کچھ حد تک ڈراؤنی بھی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کوئی ٹیم سے دور نہیں گیا. سب ساتھ ساتھ رہے. اب واپسی تھی، اترائی تھی اور اترائی میں آپ کا بھائی بہت تیز ہے.
کچھ دیر کی اترائی، چڑھائی کے بعد ایک جگہ ایسی آئی جہاں کچھ پانی جمع ہورہا تھا۔ ایک جھیل تیار ہونے کو تھی. شاید کچھ سالوں یہاں پانی بڑھے اور ایک خوب صورت جھیل بن جائے. میرے خیال میں بڑی جھیلیں بھی ایسے ہی وجود میں آئی ہوں گی. اور پھر جب یہ ایک بڑی جھیل بن جائے تو اسے دیکھنے واسطے کچھ ”خراب دماغ‘‘ یہاں تک لمبی مسافت کاٹ کر پہنچیں یا پھر ہوسکتا ہے شاید یہاں جھیل کا وجود ہی نا بچے. ترقی زمانہ راستے آسان کردے، مسافت کم ہو جائے اور یہاں ایک چھپڑ بچ جائے، جس کے کنارے کوڑے کے ڈھیر ہوں، پلاسٹک کی بوتلیں اور شاپر ہی شاپر ہوں. تقریباً ایک گھنٹے کا سفر کرنے بعد ہم اس جگہ کے سامنے آ گئے تھے جہاں سے میدان ختم ہوا اور یہ جھیل کی آخری چڑھایاں تھیں. ہم ابھی میدان کے سامنے تھے اور ایک عمودی اُترائی تھی. ایک نوجوان سا لڑکا ہمارا کچھ سامان لیے ہمارے ساتھ چل رہا تھا کہ اسے اعظم نے کہا کہ وہ آگے جائے اور ہمارے لیے چائے تیار کروا کر راستے میں انتظار کرے۔
ہمارے اترائی اُترتے اترتے ہی وہ لڑکا ہم سے پہلے اترا اور پھر دور تک جاتا نظر آیا۔ ہم بھی چلتے جارہے تھے اور اترائی اُترتے جارہے تھے۔ سوچتے جارہے تھے کہ اترائی جتنی آرام سے ہورہی ہے، چڑھائی بھی ایسے ہی ہوتی تو…

ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔

اچانک میرا جوتے کا نچلا حصہ (سول) الگ ہونے لگ گیا جو کہ کچھ دیر بعد جوتے کو چھوڑ کے الگ ہو ہی گیا. منزل دور، راستہ خراب، جگہ سنسان، کلی جان… سیاپہ پے گیا۔ میں نے ایک جھاڑی کی چھال کھینچی اور اسے رسی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بُوٹ کے گرد باندھ لیا. یہ وقتی ٹوٹکہ کچھ دیر ہی چلا اور پھر وہ رسی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ میں نے اپنے آگے چلنے والے فراز کو صورتِ حال سے آگاہ کیا تو فراز بھائی میرے ساتھ ہولیے اور ہم اب آرام آرام سے چلتے جارہے تھے۔ میں پاؤں پورا اٹھا کر نیچے رکھتا تا کہ وہ گھسٹ کر اور زیادہ نا خراب ہو اور ہم منزل تک پہنچ ہی جائیں۔
میں نے خواہش ظاہر کی کہ فراز یار اگر ہمارے پاس ایک رسی ہوتی تو اسے باندھ کر ہی چل لیتا مگر وہ رسی ہم جلکھن خیل گلی میں ہی چھوڑ آئے۔
فراز بھائی رُکے اور کہا کہ یار لگتا ہے کہ رسی میرے پاس ہے۔ بیگ کو کھولا تو رسی نکل آئی. اسے دو حصوں میں کاٹ دیا. ایک حصہ سنبھال لیا اور دوسرا حصہ فراز بھائی نے ہی میرے بوٹ پر باندھ دیا۔ پندرہ بیس منٹ کی بعد اس رسی نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تو بچا ہوا آخری حصہ باندھ لیا جس نے پندرہ منٹ بعد کہا: ”یہ مجھ سے نا ہو پائے گا‘‘ اور ٹوٹ کر بُوٹ کو کھولتے ہوئے مجھے پھر سے پریشان کردیا۔ اب کی بار بھٹی صاحب پاس تھے اور پھر بھٹی صاحب نے اپنے خجل خواری کے وسیع تجربے سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے مجھے کہا کہ اسے جراب کے ساتھ ایڑھی سے باندھ لو اور اگے سے رسی باندھ لو اس طرح یہ کافی دیر تک گزارا کرے گا۔ اور ان کی یہ بات بالکل ٹھیک تھی اور ایسا ہی ہوا اور کچھ سفر آرام سے گزر گیا۔
نیچے مورو میڈوز میں ہر جمعرات کو گھوڑوں کی ریس لگائی جاتی ہے جس میں مورو پر موجود اور آس پاس آباد گاؤں کے لڑکے شرکت کرتے ہیں۔ یہ ایک میلے کا سماں ہوتا ہے. یہی ان کا کھیل ہے جسے یہ بہت اہتمام سے ہر جمعرات کو کھیلتے ہیں۔ آج بدھ تھا اور اگلا دن جمعرات تھا مطلب کہ میں یہ دوڑ دیکھ سکتا تھا اگر مورو جاؤں تو۔۔۔
گھوڑے پالنا ان کا شوق ہے. یہ اس کھیل کو اپنے لہو کو گرم رکھنے کا بہانہ بنائے ہوئے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ اس میں ہار جیت نہیں ہوتی، بس دوڑ ہوتی ہے۔

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہُو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

ہمارے ساتھ جانے والے اعظم بھائی ایک گھڑ سوار تھے اور کل انہوں نے بھی اس میلہ میں حصہ لینا تھا اور میری گھڑ دوڑ دیکھنے کی خواہش جو عرصے سے دبی ہوئی تھی، اب کی بار پورا ہونے کو تھی۔ میں اور فراز ایک ساتھ آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے اور شوز ابھی تک گزارا کررہا تھا۔
ایک جگہ پر اعظم بھائی نے ہمارے لیے چائے کا اہتمام کررکھا تھا۔ جنگل بیابان میں چائے ہمارے لیے اشرف المشروبات سے بھی زیادہ ہوچکی تھی۔ جس جگہ پر چائے کا اہتمام کیا گیا تھا وہ جگہ بہت ہی پیاری تھی۔ نیچے گھر تھا. گھر کے سامنے پہاڑ پر ایک درہ تھا جس کو کراس کر کے وادی چوڑ جایا جاسکتا تھا. چائے لے کر جو لڑکا آیا اس نے اعظم خان کو بتایا کہ اس کے جانور ابھی تک نہیں لوٹے۔ یہ بات اعظم کو پریشان کرگئی اور اس نے آگے ہمارے ساتھ جانے سے معذرت کی اور خود جانوروں کی تلاش میں نکل گیا مگر جاتے جاتے کل ملنے کا وعدہ بھی کیا۔ دراصل ہہاں پالتو جانوروں کو جنگلی جانوروں سے خطرہ رہتا ہے اور کئی بار بہت احتیاط کے باوجود پالتو جانور جنگلی جانوروں کا شکار بن جاتے ہیں۔
یہاں سے اب ہمارا سفر جلکھن خیل گلی کی طرف شروع ہوا۔ آثار نظر آرہے تھے، آسمان پر شام کے وقت رنگوں کی برسات ہوگی اور ہمیں اس برسات سے بھیگنے کے لیے تھوڑا سا سفر کرنا ہوگا۔ سفر شروع ہوا تو ہم سے آگے ایک شخص بکری کے ایک بچے کو لے جارہا تھا۔ وہ چلنے سے انکار کرتا اور اکڑ کر کھڑا ہوجاتا مگر وہ اسے کان یا رسی سے کھینچتا تو بکری کا بچہ پھر چلنا شروع ہوجاتا۔ ان کی اسی کھینچا تانی کو دیکھتے ہوئے ہم نے کافی سفر طے کرلیا۔

میں میں میں میں۔۔۔
پیچھے سے بکری کی آواز آئی۔ یہاں میں اور فراز ہی تھے، باقی سب ہم سے آگے چل رہے تھے اور ان تک اس کی آواز گئی بھی نہیں ہوگی۔ اتنے ویرانے میں یہ بکری ہمیں مشکوک ہی لگی اور کچھ دیر پہلے معصوم خان کی سنائی گئی کہانیاں اب ہمیں اس بکری کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کررہی تھیں۔ ہم چلتے تو یہ چلتی، ہم رکتے تو یہ رک جاتی۔ اب ایک تو چڑھائی اور دوسرا مشکوک بکری۔۔۔ دِلوں کی دھڑکن تب تک تیز چلی جب تک معصوم خان نہیں دِکھا اور ہم نے سکون کا سانس لیا. پہاڑ دیواروں کی مانند ہمیں تین طرف سے محصور کیے ہوئے تھے. یہاں روشنی کم ہو رہی تھی مگر سامنے کی طرف موجود دروازہ سے پار روشنی نظر آتی. روشنی ایسے محسوس ہورہی تھی جیسے کمرے میں مکمل اندھیرا ہو مگر کھڑکی سے روشنی نظر آ رہی ہو۔ کچھ ہی دیر میں ہم دروازہ تک پہنچ گئے. یہاں سے ہماری کیمپ سائٹ سامنے نظر آرہی تھی۔ یہ دروازہ اچھی بلندی پر تھا. یہاں سے نظر آنے والی شام کی رنگینیاں ہمارے حواس پر چھا رہی تھیں۔ دُور دُور تک کے پہاڑ صاف نظر آرہے تھے. نیچے موجود گاؤں کے چند ایک گھروں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ شام کے کھانے کی تیاریاں ہورہی ہوں گی۔ بکری کا قصہ بھی یہاں مکمل ہوا. جو شخص ایک میمنے کو کھینچ رہا تھا وہ بھی ٹاپ پر تھا۔ دراصل بکری اپنے میمنے کے پیچھے آرہی تھی. وہ ہم سے ڈر رہی تھی اور ہمیں کراس نہیں کررہی تھی اور ہم اس سے ڈر رہے تھے۔
ٹاپ پر بیٹھے شخص کا نام اشرف تھا جو کہ دور نزدیک سے معصوم خان کا رشتہ دار تھا اور بکری لیے نیچے جارہا تھا۔ اس سے پوچھا یہ چوٹیاں کس علاقے کی ہیں؟
اُس نے بتایا کہ یہ مانسہرہ شہر کے پہاڑ ہیں اور یہاں سے صرف مانسہرہ ہی نظر آتا ہے۔ مطب کہ مغرب کی طرف کے پہاڑ پالس کے ہیں اور باقی ہر طرف مانسہرہ کے پہاڑ ہیں۔
مجھے اس وقت تارڑ صاحب کی بات یاد آگئی، جب انہیں ایک چرواہے نے بتایا کہ ٹلہ سے پورا پنجاب نظر آتا ہے۔
مجھے ہر طرف مانسہرہ بتانے والا بھی ایک چرواہا ہی تھا۔
شام ڈھل رہی تھی اور پہاڑوں میں جب شام ڈھلتی ہے، سورج کی مدھم پڑتی کرنیں وادیوں کو اداس کررہی ہوتی ہیں، دور کہیں تو اونچے پہاڑوں پر یہ کرنیں ایسا منظر تخلیق کرتی ہیں گویا کہیں افق کے دہانے پر آگ لگی ہو جس کا عکس ان چوٹیوں پر ہو اور ان کی تمازت آپ کو اپنے وجود پر محسوس ہوتی ہے کہ وہ رنگ آپ کو اپنے اوپر محسوس ہوتے ہیں۔ ان رنگوں میں رنگا ہوا فلک اور چوٹیاں منظر کو سحر انگیز بنا دیتی ہیں۔ پھر بے اختیاری کا رنگ آپ کو اس حسین ترین شام کی شفق رنگ پینٹنگ کے تخلیق کار کی ثناء پر بے اختیار کر دیتا ہے۔

جس کے رنگ سے حسین رنگ کس کا؟
صبغۃ اللہ
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

سورج ڈوبنے کے بعد بھی فلک پر بہت دیر اتنی روشنی باقی رہتی ہے کہ آپ اپنے اپنے گھروں کو، اپنی اپنی حفاظت گاہوں کو آرام سے پہنچ سکتے ہیں۔
انہی روشنیوں کا فائدہ لیتے ہوئے تھکے ہارے جلکھن خیل گلی تک جارہے تھے۔ ہماری قیام گاہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھی. رات طاری ہورہی تھی. ہمارے قدم قیام گاہ کی طرف بڑھتے جارہے تھے۔

رات کو جی بھر کر سوئے تو صبح فجر کے بعد اٹھے۔ آج سے ہماری واپسی شروع تھی۔ اٹھتے ہی جنگل پانی کو گئے. ہاتھ منہ دھویا. اتنی دیر میں گاؤں سے زین العابدین پانی ناشتہ اور چائے لیے آگیا۔ زین العابدین حصولِ تعلیم کے لیے اٹک میں رہتا ہے اور چھٹیوں میں اپنے گھر لوٹتا ہے. بہت سے بچے ہمارے پاس ہماری مہمان نوازی کے لیے کھڑے تھے۔ کوئی چیز کم نا ہونے دیتے، فوراً سے پیشتر وہ اسے پیش کر دیتے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ساتھ بچوں کی ڈیوٹی تھی. صرف ایک بڑا شخص مسجد میں بیٹھا قرآن پڑھ رہا تھا۔ بچوں کو مہمان نوازی کی تربیت دی جارہی تھی۔ مہمان نوازی کوہستان کا خاصہ ہے. یہ لوگ مہمان کو بہت عزت اور چاہت دیتے ہیں۔ اپنے محدود سے بھی محدود وسائل میں مہمان کو خوش کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جو کہ ایک بار میرے ساتھ کوہستان گئے، وہ ان کی مہمان نوازی بارے کہتے ہیں کہ ”اے تے گل ہی پئے جاندے نیں‘‘ مطلب کہ آپ کو چائے کھانے کے بغیر جانے ہی نہیں دیتے۔ آپ کو کوئی تکلیف نا پہنچے، اس کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں۔ اللہ ان کو ڈھیروں اجر دے۔
جلکھن خیل گلی سے ہمارے پاس دو راستے تھے، ایک نیچے کھلیار گاؤں کی طرف جاتا ہے اور وہاں سے جیپ لے کر آپ سیر غازی آباد یا پٹن تک جا سکتے ہیں۔ دوسرا مورو میڈوز والا راستہ ہے جس کو استعمال کرکے ہم آئے تھے۔ ہم نے مورو میڈوز والا راستہ استعمال کرنا تھا تاکہ مورو میدان میں ہونے والی گھوڑوں کی دوڑ کو دیکھا جائے۔ بیک پیک تیار کیے اور بیاک میں آکر بیٹھ گئے۔ آج میرے بُوٹ بلکل جواب دے چکے تھے اور میں نے سینڈل پہن کر واپسی شروع کرنا تھی۔ گاؤں کے لوگ ہمیں الوداع کہنے کے لیے جمع ہورہے تھے۔ لوگوں نے ہمارے بیگ اپنے کندھوں پر لٹکائے اور ہمیں الوداع کرنے مورو کی طرف جاتی پگڈنڈی تک چھوڑنے آئے۔ سب کو فرداً فرداً الوداع کہا. معصوم خان کو زور سے گلے لگایا. معصوم خان کے ساتھ گزرا وقت بہت خوب صورت تھا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے ہم نیچے موڑو کی طرف چل دیے۔ ہمارے ساتھ دلبر خان تھا جس نے ہمیں مورو سے برپارو کی راہ پر ڈالنا تھا۔ چند منٹ کے سفر کے بعد گلی ہم سے دور ہوگئی اور مورو کا میدان سامنے آگیا. گو کہ یہ ابھی بھی بہت دور تھا۔ اترائی تیزی سے اترتے ہوئے پتا بھی نہیں لگا کہ ہم مورو کے اتنے پاس آ گئے کہ میدان میں ہوتے کرکٹ میچ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جب میدان اتنا نزدیک دیکھا تو ریسٹ تو بنتا تھا۔ یہاں کچھ دیر سکون کیا اور پھر مورو میدان میں جاری رہے کرکٹ میچ تک پہنچ گئے۔

جسے منزل سمجھ کر رک گئے ہم
وہیں سے اپنا آغازِ سفر تھا

خوب صورت میدان میں ہونے والا کرکٹ میچ بہت شاندار تھا۔ پرسکون میدان جس میں سوائے جانوروں اور پانی کی آواز کے کوئی اور آواز کم کم ہی سننے کو ملتی تھی. آج شائقین کے شور سے گونج رہا تھا۔ ہر شاٹ پر شور اٹھتا اور اگر کبھی شاٹ مِس ہوجاتی تو ہلکی سی آواز میں غم کا اظہار ہوتا۔ رنز کے لیے جب بھاگا جاتا تو میدان میں شور ہوتا اور رن کے مکمل ہوتے ہی تالیاں گونج اٹھتیں۔ میچ دیکھنے کا بہت مزہ آرہا تھا مگر مسافر زیادہ دیر کے لیے رُک نہیں سکتا. دلبر خان نے اپنے بھتیجے کو ساتھ بھیجا تاکہ وہ ہمیں برشریال کا راستہ دکھائے اور اس سے پہلے گھڑ دوڑ بھی دکھائے۔ دلبر خان نے رخصت لی اور وہ واپس چل پڑا۔
ٹن ٹن ٹن۔
گھوڑوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی جلترنگ بتا رہی تھی کہ ہم گھڑ سواروں کے پاس آگئے ہیں۔ اور کچھ ہی دیر میں ہم گھڑسواروں کے ساتھ کھڑے تھے جو کہ ریس کے لیے تیار تھے۔
بگل بجا…
گھنٹیوں کے شور میں گھوڑوں کے دوڑنے کا شور، میدان میں بھونچال آگیا۔ اتنے سارے گھوڑے جب ایک ساتھ آپ کے پاس سے گزریں تو زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
دگڑ دگڑ دگڑ۔۔۔
ٹن ٹن ٹن۔۔۔
دگڑ ٹن دگڑ ٹن دگڑ ٹن۔۔۔
آوازیں کم ہوگئیں اور گھوڑے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
اب یہ گھوڑے وہ اُس جگہ سے آئیں گے!!!
آپ وہاں جاکر اس پتھر کے پاس بیٹھیں، ایک شخص نے مجھے ٹرائی پوڈ لگاتے ہوئے دیکھا تو مجھے ایک پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
میں نے اس کی بات مانی. ٹھیک دس منٹ بعد اس کی بات ٹھیک نکلی، گھوڑے واپس آنا شروع ہوئے اور وہاں سے گزر کر ٹھیک اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے دوڑ شروع ہوئی تھی اور اگلی دوڑ کے لیے تیار ہوگئے۔ لوگوں کا ہجوم تھا جو گھڑ سواروں کو گھوڑا دوڑانے پر اکسا رہا تھا۔ کچھ دیر اس دوڑ سے محفوظ ہوئے۔ جاتے جاتے اعظم خان کو ڈھونڈ کر ملے. جپھی دی، اگلی بار ملنے کا وعدہ کرکے بر شریال کی طرف چل دیے۔ لڑکے ہمیں راستہ پر چھوڑ کر اور سمجھا کر واپس چلے گئے. اس راستے پر چلتے ہوئے نیچے کی طرف چل دیے۔ پگڈنڈی سی بنی ہوئی تھی جس پر چلتے جارہے تھے جو کبھی اوپر کی طرف جاتی اور کبھی نیچے کو ہو جاتی۔ چیڑ کے درختوں سے ڈھکی ہوئی پگڈنڈی پر چلتے جارہے تھے۔

چلتے ہوئے اس پگڈنڈی پر
جب سامنے پیڑ آ جاتے تھے
ہوتا ہے گماں حد آ پہنچی
کہتے تھے قدم اب لوٹ چلو
اب لوٹ چلو اس راہ پہ جس سے آئے تھے
کچھ دور پہ جا کر لیکن یہ مڑ جاتی تھی
پیڑوں کی صفوں میں تیزی سے گھس جاتی تھی
بکھرے ہوئے پتے اوس میں تر
چھنتی ہوئی کرنوں کا سونا
چپ چاپ فضاؤں کی خوشبو
ناگاہ کسی طائر کے پروں کی گھبراہٹ
ہم آ گئے ان میدانوں میں
پھیلے ہوئے میداں اور افق کی پہنائی
اب آؤ یہاں سے گھر لوٹیں

چالیس منٹ کے بعد پگڈنڈی ختم ہوگئی اور ایک چھوٹا سا میدان آگیا۔ یہاں سے راستہ کھو گیا۔ اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرف جانا ہے. ایک طرف راستہ جارہا تھا مگر اترنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔ یہاں سے بالا جیم صاحب کو فون کیا۔ اوہ ہاں اپ کو بالا جیم کا تو بتایا ہی نہیں۔۔۔ بالا جیم صاحب بر شریال میں رہتے ہیں اور ان کو ہماری آمد کا دلںر خان نے بتا دیا تھا تو وہ فون کرکے کچھ کچھ دیر بعد پتا کرتے رہتے تھے مگر یہاں سے ان سے بات نہیں ہورہی تھی۔ یہاں کچھ دیر بیٹھے رہے. کچھ دور لکڑی سے بنے ہوئے چند بوسیدہ گھر نظر آرہے تھے مگر وہاں کوئی بندہ نظر نہیں آرہا تھا اور لگتا تھا کہ جیسے یہ جگہ بھوت بنگلہ ٹائپ ہو۔ بہت سی آوازیں دیں مگر وہاں جیسے کوئی تھا نہیں، کوئی جواب نہیں۔
اتنے ویرانے میں ہمارے علاوہ کوئی نا تھا اور جانے کتنی دیر ہم کسی کے انتظار میں بیٹھے رہے. تب اچانک ایک پگڈنڈی جو نیچے جارہی تھی اس پر دو لوگ بیٹھے نظر آئے۔ ڈرتے ڈرتے انہیں آواز دی کہ پتا نہی یہ انسان ہیں کہ۔۔۔ مگر نظر آرہے تھے تو ان کو ہی آواز دی۔
بھیا!!!
برشریال جانا ہے کون سا راستہ ہے؟
یہیں سے نیچے آجاؤ، انہوں نے کہا۔
یہ جگہ کافی سٹیپ تھی. کافی سٹیپ سے مراد کافی سٹیپ۔۔۔ اتنی کہ جس پر اترتے ہوئے گھٹنوں پر اتنا زور پڑے اور وہ بلبلا اٹھے۔ ان کا برا وقت تو ابھی شروع ہوا چاہتا تھا۔ تھوڑا نیچے ایک درخت کا تنا کاٹ کر اس میں پانی بھرنے کے لیے پانی کے نالہ کے آگے رکھا ہوا تھا۔ اس دیسی سے بڑے سارے جگ میں پانی آتا اور نکلتا رہتا۔ کسی مسافر نے ایک بوتل کاٹ کر اس کو گلاس کی شکل میں ڈھال کر پاس رکھا ہوا تھا۔ پانی پیا اور ان صاحبان سے، جنہوں نے راستہ کا بتایا، گپ شپ ہوئی۔ اتنی دیر میں تین سے چار لوگ اور آ گئے. وہ بھی نیچے جارہے تھے۔ ہمیں کچھ تسلی ہوئی کہ مقامی لوگ ساتھ ہیں اور ہم آرام سے پہنچ جائیں گے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کی رفتار سے چلنا ہمارے لیے مشکل تھا. ہم بڑی مشکل سے پورا زور لگا کر ان کے پاس پہنچتے تو چند منٹ کے وقفے سے وہ پھر دُور ہوجاتے۔

یہ برشریال کتنا دور ہے؟
وہاں کیا کیا ملتا ہے؟
کیسا گاؤں ہے؟
جیپ مل جائے گی؟
آپ کیا کرتے ہیں؟
کہاں جارہے ہیں؟
ان کو باتوں میں لگا کر ان کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی مگر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ ان کو بہت جلدی تھی. ان کے جانور گم ہوگئے تھے، وہ ان کو ڈھونڈنے کے لیے جارہے تھے۔ ایک مقام پر آکر انہوں نے بتایا کہ یہ سامنے برشریال ہے اور یہاں سے وہ رخصت لے الگ طرف چلے گئے۔
برشریال، بر شریال، برشریال، جس تک پہنچنے کے لیے ہمارے پیچ پرزے ڈھیلے ہوگئے تھے، کمر سامان اٹھا اٹھا کر ٹوٹنے کے قریب اور ٹانگیں چل چل کر گھس چکی تھیں۔ مگر جیسے تیسے کرکے ہم ایک ایسی جگہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوپائے جہاں سے برشریال کو دور سے دیکھا جا سکتا تھا. اور اب اس تک پہنچنا، یہاں سے نہایت آسان لگتا تھا اور ہم اسے آسان اور نزدیک سمجھتے ہوئے چل بھی پڑے۔

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں

بیگ کمر پر باندھے، زوردار نعرہ بلند کیا مگر نعرے کا جواب بڑا ڈھیلا ملا. ٹھیک پندرہ منٹ بعد بہت سے لوگ ہمارے پاس سے گزرے جو کہ بہت ہی تیزی سے، پاس سے گزرے. یہ لوگ میچ کھیل کر لوٹ رہے تھے اور ہماری طرح اپنے گھروں کو جارہے تھے۔ ان سے پوچھا اے مہربان بتاؤ کتنا سفر ہوا، کتنا باقی ہے؟
کیا سفر ہے ہونے کو مکمل یا ابھی کوئی امتحان باقی ہے؟
مجھے گھر بلاتا ہے، کیا میں جاؤں یا ابھی بھی کوئی بات باقی ہے؟
وہ بولا:
بہت سا سفر گزر چکا، اب بس تھوڑا سا باقی ہے۔۔۔
سفر میں ہوتے ہیں کئی امتحان، ابھی تو سفر باقی ہے۔۔۔
یہ پہاڑ تم سے محبت کرتے ہیں، اسی لیے تو تم میں حرارت باقی ہے۔۔۔

اب اترائی اتنا امتحان لے رہی تھی کہ ہر قدم پر گھٹنا بلبلا اٹھتا۔ باقاعدہ اس میں درد کی ایسی ٹیس اٹھتی کہ دل کرتا کہ سفر ختم کردوں اور یہیں بیٹھ جاؤں۔
اب کچھ اور لوگ آئے. یہ بھی میچ دیکھ کر اور کھیل کر واپس آرہے تھے. ان میں کئی نوجوان تھے جو مل کر بہت خوش ہوئے اور ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگے. اب ہمیں یہ حوصلہ تھا کہ کچھ مقامی لوگ ساتھ ہیں کیوں کہ یہ بہت ہی زیادہ سنسان اور گھنا جنگل تھا۔ درد سے بلبلاتے گھٹنوں کے ساتھ چلتے چلتے چیڑ کے درختوں والا جنگل ختم ہوا اور اب راستہ پتھریلا اور جھاڑیوں بھرا شروع ہو گیا۔ باریک کنکر پاؤں کو ٹکنے نہیں دیتے تھے. پاؤں بار بار پھسلتا تھا. اپنی بریکیں لگانی مشکل ہورہی تھیں۔ قدم اٹھا کر رکھتے، ایسا لگتا کہ جیسے گھٹنوں میں ہڈی آپس میں ٹکرا رہی ہو اور گھٹنوں میں لیس دار مادہ ختم ہوگیا ہو۔۔۔ ہر قدم پر درد بڑھتا جا رہا تھا اور برشریال نہیں آیا تھا۔

اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے
اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے

میری، فراز اور فرحان کی حالت کافی نازک ہوچکی تھی. فاروق بھٹی اور آفتاب ہم سے بہتر حالت میں تھے مگر اتنی اچھی حالت میں بھی نہیں۔ اب کہ جھاڑیوں سے اٹا، چھوٹے جنگلی درختوں کا جنگل راہ میں حائل تھا جس میں داخل ہونے کے لیے خود کو جھکانا پڑا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد یہ اندر جا کر کچھ کھلا ہوا تو سیدھے ہوکر چلنے کی گنجائش بنی ورنہ تو جھک کر چلنے سے حالت اور خراب ہورہی تھی۔ یہاں رک نہی سکتے، یہاں جنگلی جانوروں کا خطرہ ہوتا ہے۔۔۔ مجھے رک کر سانس لیتا دیکھ کر ایک لڑکے کہا.
اب جنگلی جانور کا سن کر درد بھول گیا اور فراٹے بھرتے ہوئے تیز تیز چلنے لگے۔ یہ جنگل اتنا گھنا تھا کہ روشنی بہت کم پہنچتی تھی. جنگلی کیکر اور شہتوت کے درخت تھے جن سے بچتے، پھنستے اور جنگلی جانوروں سے ڈرتے، ہم چلتے جارہے تھے۔ ایک جگہ جنگل ختم ہوا اور ٹپ ٹاپ پوائنٹ آگیا۔ یہ رک کر پانی پینے کا چشمہ تھا. اوپر چٹان سے نیچے ٹپ ٹپ کی آواز… پانی نیچے گرتا تھا اس لیے اسے ٹپ ٹاپ پوائنٹ کہتے تھے۔ یہاں پانی پیا تو اوپر سے آنے والے کچھ نوجوانوں نے مجھ سے بیگ پکڑ لیا اور مجھے وزن سے آزاد کر دیا۔ یقین کیجیے صبح سے بیگ پہنا ہوا تھا اور بہت وزنی بیگ تھا. جب انہوں نے مجھ سے لیا تو کمر اور گھٹنوں کو آرام مل گیا اور میں ہمت جمع کرکے پھر سے چلنے لگ گیا۔
شعر تھوڑی ترمیم کے ساتھ…

بس اتنا یاد تھا مجھے چلنا ہے بے تھکن
ہمت مری بحال تھی اور میں سفر میں تھا

یہ نوجوان ہمارے ساتھ ہی تھے اور ہمیں ساتھ لیے جا رہے تھے. ہم نے برشریال رکنا تھا مگر یہ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے کے لیے ہمیں منا رہے تھے۔ یہ ان کی مہمان سے محبت تھی جس کی وجہ سے وہ برشریال سے مہمان کو اپنے گھر لیجانا چاہتے تھے مگر ہم برشریال میں رکنے کا بندوبست کر چکے تھے اور جن کے ہاں رکنا تھا ان کے دس سے بارہ فون آچکے تھے۔ اس لیے ان کو معزرت کرکے بڑی مشکل سے ٹالا۔
ٹپ ٹاپ پوائنٹ کے بعد راستہ پھر نیچے ہی جارہا تھا کہ ایک لڑکے نے ہمیں شارٹ کٹ میں ڈال دیا اور خدا کی پناہ اس شار کٹ سے۔۔۔ گھنے درخت اور اتنے زیادہ کہ ہوا کا گزر بھی کم ہی ہوتا تھا۔ موسم ایسا ہوگیا تھا جیسے لاہور میں برسات کے دنوں میں بارش کے بعد دھوپ نکل آئے اور ہوا بند ہو جائے۔ دم گھٹ رہا تھا اور چلنا بھی مجبوری تھی. تب تک چلنا تھا جب تک تازہ ہوا نہ مل جائے ورنہ یہاں تو دم ہی گھٹ جائے گا۔ آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد شارٹ کٹ والا راستہ ختم ہوا اور باہر کی تازہ فضا میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیا ۔ شارٹ کٹ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ برشریال سامنے تھا، بس ایک پُل پار کرنا تھا اور پہنچ گئے برشریال۔۔۔ مگر ابھی نہیں۔۔۔ ابھی تو سفر کا امتحان باقی تھا۔ ہمارے ایک ٹیم ممبر فراز صاحب لڑکھڑا کر تقریباً گر پڑے اور ہمیں ان کے لیے رکنا پڑا۔ صبح سے بغیر رکے اور بغیر کھائے چل رہے تھے یہ تو ہونا ہی تھا۔ یہاں دو غلطیاں تھی۔ ان حالات کے لیے جو کچھ رکھا ہوتا ہے، وہ سب ہم کھا چکے یا بانٹ چکے تھے اور دوسری غلطی یہ تھی کہ جناب نے ناشتہ کرتے وقت تکلف کا مظاہرہ کیا اور اب اس کا نتیجہ بھگت رہے تھے۔ پاس موجود لڑکوں نے ایک گھر سے روٹی اور چینی لا کر دی، جس کو کھا کر کچھ ہوش میں آئے۔ پاس کھڑے بچے نے امرود کینڈی دی۔ایک امرود کینڈی نے وہ کر دکھایا جو روٹی، چینی، چشمے کا پانی اور ہماری جگتیں بھی نہ کر سکیں۔ جناب اُٹھے اور چل پڑے۔
ایک جگہ فینسنگ کی گئی تھی. لکڑی کی تختوں سے بارڈر بنا ہوا تھا۔ ایک لکڑی کا گیٹ تھا جس کے پار برشریال تھا. یہ ایک پرائیویٹ پراپرٹی ٹائپ گیٹ تھا مگر کوئی پرائیو یسی نہیں تھی. جس کا دل کرتا اِدھر اُدھر ہوتا رہتا، کوئی روک ٹوک نہیں۔ میں نے گیٹ کراس کیا تو میرے سینڈل نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ سینڈل کے سول کی ایک ایک لیئر نکل کر لٹک گئی اور دونوں پاؤں کے سینڈل ایک ساتھ ہی ٹوٹ گئے۔ یہ میرا آخری جوتا تھا جو گھر پہنچنے سے پہلے ہی ان پہاڑوں میں قربان ہوا چاہتا تھا۔ سینڈل کے سول نکال دیے اور اب ہر پتھر پاؤں پر ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے میں ننگے پیر چل رہا ہوں۔ نالہ جو پہاڑوں سے نکلتا ہوا، شور مچاتا ہوا، اباسین کی طرف جارہا تھا، اس کے پانیوں کو عبور کرنے کے لیے ایک لکڑی کا پل تھا، جس پل پر میزبان انتظار کررہے تھے۔ ہوا میں خنکی کا احساس ہورہا تھا. یہاں دونوں طرف اونچے پہاڑ تھے اور درمیان میں کہیں یہ برشریال تھا۔ برشریال ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کے کھلیانوں میں مکئی اگتی تھی. سیب، اخروٹ اور آلوبخارا کے درخت تھے۔ ایک جیپ روڈ سے یہ گاؤں شہر سے ملتا تھا۔ یہاں سکون تھا. منظر جاندار تھے اور موسم شاندار! شام برپا ہونے والی تھی. رنگینیاں بڑھ رہی تھیں مگر اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس منظر کو سرایت کرنے کے لیے کچھ دیر رکا جائے۔ امیز ٹھاکر ہمیں لینے کے لیے پُل تک آیا اور ہمارے انکار کے باوجود ہمارے بیگ ہم سے لے کر چل پڑا۔ اکیلا بندہ تین بیگ اٹھائے ہم سے آگے چل رہا تھا اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چلتے جارہے تھے۔

ہم تو منزل کے طلب گار تھے لیکن منزل
آگے بڑھتی ہے گئی راہ گزر کی صورت

کے مصداق امیز ٹھاکر کا گھر، جو کہ اب ہماری منزل تھا، برشریال سے بھی آگے ہوگا. اسی لیے تو آ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ مکئی کے کھیت، سیب اور اخروٹ کے درخت، نالے کا شور، ڈھلتی شام، جھینگر کی آواز اور تھکے ہارے ہارے مسافر، آگے چلتا گائیڈ، پیچھے پیچھے چلتے ہم۔۔۔
یار یہاں کوئی ڈاکٹر ہے؟ میں نے امیز ٹھاکر سے پوچھا۔
جی ایک ڈاکٹر ہے. اگر وہ شہر نہ گیا ہوا تو یہیں ہوگا۔ پتا کروایا تو ڈاکٹر صاحب موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب مولانا طارق جمیل سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ فراز صاحب کو بڑے ماہرانہ انداز سے مکمل تسلی سے چیک کیا اور دوائی دی۔ کچھ دوائی اگلے دن کے لیے بھی دی۔ جب فیس کی باری آئی تو کہنے لگے، آپ تو مہمان ہیں، آپ سے پیسے کیسے لے سکتے ہیں۔ ایسے لوگ ابھی بھی ہوتے ہیں یا کہہ لیں ایسے ڈاکٹر ابھی بھی ہوتے ہیں۔
بالاجیم اور امیز ٹھاکر کے گھر میں تھکے ماندے پڑے تھے کہ چائے آگئی۔ چائے نے کچھ توانائی تو دی مگر اتنی نہیں. یہاں رحیم اللہ سے ملاقات ہوئی جو کہ لاہور جا کر کام کرتا تھا۔ ایک خوش اخلاق نوجوان. کچھ دیر میں کھانا آگیا جوکہ بہت ہی لذیز تھا. محبت کے مسالوں سے پکا کھانا مزے دار ہی ہوتا ہے۔ یہ آلو گوشت تھا. ایسا سالن کھانے کی کتنی تمنا تھی، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ فراز بھائی کھانا کھا لو، میں نے کہا۔ پھر میزبان نے بھی کہا. مگر فراز بھائی نے کہا۔ یار دل نہی کررہا، بھوک نہیں ہے، طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
فراز آلو گوشت پکیا ای اوئے۔ فرحان نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
اور پھر فراز بھائی یہ سن کر ایسے دسترخوان کی طرف آئے جیسے رونالڈو بال لے کر گول کی طرف جاتا ہے… جیسے دفتر جانے والا لیٹ ہورہا ہوتا ہے تو گاڑی پوری سپیڈ سے بھگاتا ہوا دفتر کی طرف جاتا ہے۔۔۔ جیسے فیلڈر ایک چوکے کو روکنے کے لیے بال کی طرف بھاگتا ہے۔۔۔ جیسے یوسین بولٹ ریس جیتنے کے لیے تیزی دکھاتا ہے۔۔۔ اندر کا لاہوریا جاگ چکا تھا اور سالن روٹی کی آج تباہی پھیر دی گئی۔
کھانے کے بعد گھر کی چھت پر محفل جمی. جس کی خاص بات بالکل تازہ بلکہ خستہ سیب تھے اور یہ وہی سیب تھے جن پر ہماری نظر تب سے تھی جب سے برشریال پہنچے تھے۔
رات کو گاڑی والے کو کہہ دیا گیا تھا کہ صبح ہمیں سیر غازی آباد تک چھوڑ دے، جہاں سے مانسہرہ اور پھر لاہور کی گاڑی مل جانی تھی۔

پالس ویلی میں آخری دن:

رات کو سوئے تو صبح ہی آنکھ کھلی اور ناشتہ کرتے ہی ہم جیپ کے انتظار میں سڑک پر پہنچ گئے۔ جیپ آئی تو دیکھا کہ جیپ تو فل لوڈ سے بھی زیادہ لوڈڈ تھی. سواریاں لٹک رہی ہیں تو ہمیں کہاں جگہ ملنی تھی؟
امیز ٹھاکر نے جیپ والے سے لڑائی شروع کردی۔ جیپ والا کہتا رہا کہ عورتیں بیٹھ گئی ہیں، میں انہیں کیسے اتار سکتا تھا. آپ اگلی جیپ پکڑ لینا مگر امیز تو اس کو مارنے پر اتر آیا تھا جسے بڑی مشکل سے روکا۔ دراصل اسے اس بات پر ہتک محسوس ہوئی کہ اس کے مہمان انتظار کریں اور رات سے بُک کی گئی گاڑی والا اس کے مہمان لے کر نہ جائے۔
جیپ والے نے خود آ کر معذرت کی اور کہا کہ آپ اگلی جیپ سے چلیں جائیں۔ ہم نے اسے کہا کہ آپ جاؤ ہم کوئی بندوبست کرلیتے ہیں۔ اگلی جیپ والے کو فون کیا گیا تو پتا لگا وہ جیپ خراب ہے۔ کوئی نہیٰ ایک تیسری جیپ ہے، وہ آ جائے گی۔ رحیم اللہ نے کہا۔
تیسری اور گاؤں کی آخری جیپ والے کو فون کیا گیا کہ وہ ہمیں سیر غازی آباد اتار آئے تو پتا لگا کہ وہ گاؤں میں موجود ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ تو مورو گیا ہوا ہے۔

گاؤں میں کوئی گاڑی نہیں ہے۔ اب یا تو پیدل جائیں یا اگلے دن جائیں اور دونوں آپشنز ہی ناقابلِ قبول تھے. ہمیں اب یہاں سے نکلنا تھا۔ اب ایک ہی راستہ تھا کہ پیدل جایا جائے اور تین گھنٹے کی دوری پر جو گاؤں ہے وہاں سے جیپ لی جائے۔ ایک آپشن یہ بھی تھی کہ گاؤں میں ایک فوتگی ہوئی تھی، تو جو گاڑی میت لے کر آئے، اس سے ڈیل کرکے واپس جایا جائے۔ ریموٹ ایریاز میں یہ سب چلتا ہے. کبھی گاڑی نہیں ہوتی یا کبھی گاڑی خراب ہوتی ہے یا کبھی کبھی سڑکیں بند ہوجاتی ہیں۔ خیر پیدل چلنا شروع کیا. شروعات تو آسان لگیں مگر جیسے جیسے آگے گئے، حالات خراب ہوتے گئے۔ موسم گرم ہوتا گیا ۔ یہاں سے کچھ لڑکے، جو ٹورنامنٹ کھیل کر آرہے تھے، وہ مل گئے. اب ہمارا گروپ کافی بڑا ہوگیا تھا۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد میت والی جیپ راستے میں مل گئی اور اس کے ڈرائیور سے واپسی کی ڈیل کی اور پھر آگے کی طرف چل پڑے۔ راستہ تھا تو مزے دار مگر گرمی اور ٹوٹی ہوئی جوتی کی وجہ سے تقریباً ذلیل کررہا تھا۔ کچھ راستے کے بعد وہ لوگ جو ساتھ چل رہے تھے، کھسک لیے اور ہم اب پانچ (اکیلے) تن تہنا رہ گئے.
جیپ آرہی ہے، جیپ نہیں آرہی، جیپ کی آواز آرہی ہے، نہیں آرہی ہے.
انہی مکالمات سے ہمارا سفر چل رہا تھا کہ اچانک سے جیپ آ ہی گئی اور ہمیں بٹھا کر چل پڑی۔ جیپ ٹریک اور سڑک انتہائی خطرناک حالت میں بلکہ ڈراؤنی حالت میں تھی اور ڈرا بھی رہی تھی۔ شراکوٹ آگیا. یہ ایک بڑا قصبہ تھا جہاں بہت کچھ میسر تھا. بازار تھا، دکانیں تھیں اور کافی آبادی بھی تھی۔
پیروں کے بجائے اب جیپ پر تھے تو سفر کی رفتار بہت تیز ہو چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے، ایک دوسرے پر گرتے پڑتے سیر غازی آباد پہنچ گئے اور جیپ والے کو کہہ کر پٹن تک لے گئے۔ پٹن سے گاڑی ملی جس نے تھا کوٹ اتارا اور تھاکوٹ سے لاہور کی گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی اے سی والی تھی مگر اس کا اے سی کام نہی کررہا تھا۔ بٹگرام تک صبر کیا مگر بٹگرام تک پہنچتے پہنچتے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ گاڑی والوں سے بحث کرکے سامان نکالا اور بٹگرام سے مانسہرہ گئے اور پھر مانسہرہ سے لاہور کی گاڑی میں بیٹھے۔ آنکھیں موندی، آنکھ کھلی تو لاہور پہنچ گئے۔

آوارگی ہی میرے ہونے کی علامت ہے
مجھے پھر اس سفر کے بعد بھی کوئی سفر دینا

(ختم شُد)

+ اس سفرنامہ کا پہلا حصہ

+ اس سفرنامہ کا دوسرا حصہ