خالد یوسفی کی کتاب ”یادیں پاگل کر دیتی ہیں‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

خالد یوسفی دنیائے سخن کے ان درخشندہ ستاروں میں سے ہیں جنہیں ابتداء ہی سے ادبی ماحول میسر آیا اور اپنے والد محترم کو شاعری کے میدان میں شہسواری کرتے دیکھا. ان کا پہلا مجموعہ کلام ”یادیں پاگل کر دیتی ہیں‘‘ خالد یوسفی کے فنی رسوخ، کلام کی پختگی اور ندرت خیال کا اعلٰی نمونہ ہے.
ان کی شاعری کا اولین نقش اس قدر جاندار اور عمدہ شاعری سے بھر پور ہے کے بے ساختہ داد کا دریا بہہ نکلتا ہے. یوسفی کی شاعری غنائیت، ایمائیت، رمزیت، رجائیت اور یاسیت کے رنگوں سے معمور ہے. سخن دانی کے یہ تمام رنگ جب اکھٹے ہوتے ہیں تو ایک قوس قزح کا روپ دھار لیتے ہیں جو دیکھنے والوں کو جلد ہی اپنے حلقہ اثر میں کھینچ لیتی ہے.
محترم شاعر ابنِ شاعر اپنے مجموعہ کی ابتدا حمد باری تعالیٰ، مناجات اور نعت سے کرتے ہیں کہ یہ اصناف ہر شاعر کے لیے توشہ آخرت ہوا کرتا ہے. وہ عقیدت و احترام میں ڈوب کر ایسے عمدہ اشعار پیش کرتے ہیں کہ ایمان تازہ ہو جاتا ہے. دیکھیے کس عمدگی سے وہ شان ربوبیت بیان کرتے ہیں:

اگرچہ آدمی اپنی خطائیں کم نہیں کرتا
مگر وہ خالقِ اکبر عطائیں کم نہیں کرتا

یوسفی کی شاعری میں رنج و الم، حسرت و یاس کے موضوعات جابجا ملتے ہیں:

بس ٹوٹنے والی مرے سانسوں کی لڑی ہے
لے جانے کو ہمراہ اجل در پہ کھڑی ہے
تشنہ ہے نظر جان بھی ہونٹوں پہ اڑی ہے
ایسے میں تمہیں چھوڑ کے جانے کی پڑی ہے

وہ مشکل وقت میں خود کو سنبھالنے کے فن سے آشنا ہیں اور رجائیت کا دامن پکڑے دکھائی دیتے ہیں:

تیری آواز پا کا منتظر ہوں
وفا کی انتہا ہے اور میں ہوں

خالد صاحب کی شاعری ان کی تشنہ آرزوؤں کی عکاس ہے جو حسرتوں کی شکل میں ان کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں. وہ کہتے ہیں کہ:

نہ یہ ہوتی ہیں پوری اور نہ سینے سے نکلتی ہیں
تمنائیں بڑی مدت سے جو سینے میں پلتی ہیں
پشیماں ہیں یقیناً میری کشتی کو ڈبو کر یہ
وگرنہ کس لیے ساحل پہ موجیں سر پٹختی ہیں

وہ خوابوں کے بجائے حقیقت کو ترجیح دیتے ہیں اور زندگی کے تلخ و شیریں حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں:

خوابوں کی بات چھوڑ حقیقت کے رنگ دیکھ
ہے پیرہن حیات کا اب کتنا تنگ دیکھ
بدلے ہوئے ہیں کیسے زمانے کے رنگ دیکھ
ذہنوں پہ لگ چکا ہے یہاں کتنا زنگ دیکھ

خالد یوسفی کی غزلیات موضوعات و مضامین کے تنوع کی حامل ہیں. ان کی شاعری سچے اور کھرے جذبات کی منفرد عکاسی ہے وہ کہتے ہیں:

ویسے تو میرے دل میں شکیبائی بہت ہے
پر کیا کروں یہ تیرا تمنائی بہت ہے

شاعر داخلی و خارجی کیفیات کی زود اثری کا استعمال خوب جانتے ہیں:

جو رات تیری یاد میں رو رو کے گزاری
اس رات کی آنکھوں میں شناسائی بہت ہے

ان کے ہاں منفرد ردائف کا خاصا ذخیرہ ہے. یوں تو ان کا اولین مجموعہ کلام غزلیات سے لبریز ہے البتہ کہیں کہیں لاجواب نظمیں بھی ان کے شعری محاسن سے آشنا کرواتی اور ان کی سخن سرائی کو منواتی نظر آتی ہیں. یہ بجا ہے کہ ان کا اصل میدان غزل ہے مگر ان کی نظم بھی بے مثل موسیقیت و غنائیت سے پر ہے. مشتے از خروارے کے طور پر ان کی نظم ”روگ‘‘ کے چند اشعار:

میں دل سے پوچھتا ہوں جب
جسے تم جان کہتے ہو
اگر وہ چھوڑ دے تنہا
اگر منہ پھیر لے تم سے
اگر وہ راستہ بدلے

ان کی شاعری کا ایک اور حوالہ ان کا جذبہ حب الوطنی ہے جو ان کی وطن عزیز سے محبت کی بہترین مثال پیش کرتا ہے. ان کی نظم ”یومِ آزادی‘‘ کے اشعار ملاحظ کیجیے:

ظلمت کی پگھلی زنجیریں آج کے دن
ختم ہوئی تھیں سب تعزیریں آج کے دن
آگ کے دریا سے گزرے کتنے انساں
کتنی جلیں اس میں تصویریں آج کے دن

حب الوطنی کا یہی گہرا رنگ ان کی نظم ”یوم تکبر‘‘ میں کچھ یوں نکھر کر سامنے آتا ہے:

جب کہا نعرہ تکبیر یہاں آج کے دن
ہل گئے کفر کے ایواں آج کے دن

خالد یوسفی اپنے شاعرانہ سفر میں مسلسل بلندی کی طرف محو پرواز ہیں جو ان کی اس فن میں سعی بلیغ کا سب سے واضح ثبوت ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں