حسنین نازشؔ (اصل نام حسنین اصغر قریشی) کے اس سفرنامے کے فلیپس پروفیسر صبا جاوید (اسلام آباد) اور خورشید ربانی (نوائے وقت، اسلام آباد) نے لکھے ہیں۔ کتاب کا انتساب ہے ”ان تمام افراد کے نام جنہیں میں چاہنے کے باوجود اس سفرنامے کا حصہ نہ بنا سکا.‘‘
سادہ اور عام فہم اسلوب اپنا کر حسنین نازشؔ نے اس کتاب میں کولمبس کا طرز اختیار کرکے قارئین کو امریکہ کے متعلق بہت ساری معلومات دی ہیں جس کی بنا پر پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد امتیاز نے انہیں کولمبسِ ثانی کہا ہے۔ سفر نامہ نگار نے ناول کے پلاٹ کی طرح اس سفرنامے میں ترتیب وار واقعات پیش کیے ہیں۔ انہوں نے امریکیت اور بے باکیت کا خوب صورت امتزاج پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے امریکیوں کی محنت اور وقت کی پابندی کی تعریف کی ہے اور مصروف ترین زندگی کے باوجود اپنے لیے وقت نکالنے والے کہا ہے۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکی معاشرے میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا ذکر یہاں موجود ہے۔ کتاب کا ہر صفحہ معلومات پر مبنی ہے۔ چاہے وہ امریکی یوم آزادی کی تقریب کا ذکر ہو، عجائب گھروں، بلند و بالا عمارتوں، مصروف بازاروں، شاپنگ مالوں، پارکوں، عریاں ساحلوں کا یا کاروباری ذہنوں کا ۔ مصنف نے ساری جگہوں کو قریب سے دیکھ کر ان کے متعلق اپنے خیالات و مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ حسنین نے مدر پدر آزاد امریکی معاشرے کا ذکر کرتے ہوئے ایک پروفیسر، اس کی بیوی عابی اور بیٹی ایملی پر مشتمل ایک خاندان کی کتھا بیان کی ہے۔ میاں بیوی میں علاحدگی ہونے کے باوجود، دونوں بغیر تعلق قائم کیے، اپنی بیٹی کی خاطر ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ پروفیسر اپنی ایک شاگرد کی وجہ سے بیوی کو چھوڑتا ہے اور اسی گھر میں شاگرد گرل فرینڈ کے ساتھ شب بسری کرتا ہے۔ اسی طرح اولڈ ہوم کا ذکر کرتے ہوئے وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ بوڑھے ماں باپ اور معاشی طور پر ناکارہ بزرگوں کو اولڈ ہوم میں داخل کروایا جاتا ہے جس کا ہمارے معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مصنف نے وائٹ ہاؤس کی سیر کا ذکر بھی کیا ہے۔ ایک کمی جو مجھے اس سفرنامے میں لگی وہ امریکی کتب دوستی کا ذکر نہ کرنا ہے۔ امریکی لائبریریوں اور مختلف یونیورسٹیوں کے متعلق موصوف نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ بہرحال معلومات پر مبنی ایک دل چسپ سفرنامہ ہے جو یقیناً امریکہ کے متعلق جاننے والوں کو پسند آئے گا۔ آخر میں ڈاکٹر اسحاق وردگ کا بے حد شکریہ جنہوں نے ہمیشہ مجھے اچھی کتابوں کی ترسیل میں یاد رکھا۔
سن 2020 میں، 160 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ”مثال پبلشرز، فیصل آباد‘‘ نے شائع کیا اور اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی.
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد