شہرِ تکمیل – محمد اکبر خان اکبر

شاعری کی ماہیت و ہیت کا اصل منبع زیستِ انسانی کے تجربات وحوادث میں تلاش کیا جاتا ہے. دنیا دارالحوادث ہے اور ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف النوع کیفیات اور حوادث سے گزرتا ہے لیکن ہر ایک شاعر نہیں ہوتا. شاعری کا جوہر انتہائی حساس طبعیت کے حامل افراد میں ہی ہوا کرتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ شاعر کا تعلق معاشرے کے سب سے حساس طبقے سے جوڑا جاتا ہے اقبال نے کہا تھا کہ:

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ

شہزاد احمد شیخ کی شاعری انسانی جذبات کی بوقلمون کیفیات سے عبارت ہے. ان کا تازہ مجموعہ کلام ”شہرِ تکمیل‘‘ اسم بامسمیٰ معلوم ہوتا ہے. وہ بسلسلہ روزگار شہر شہر پھرے اور پہلے مجموعہ ہائے کلام ”شہر در شہر‘‘ کے نام سے سامنے آیا. سبکدوشی کے بعد اپنی جنم بھومی لوٹے تو لاہور شہر تکمیل قرار پایا.
میری خوش طالعی ہے کہ ان کی نیاز مندی کا شرف پایا جس وقت وہ پیشہ ورانہ خدمات کے لے کوئٹہ میں مقیم تھے. گاہے بگاہے ان کی خدمت میں حاضری کا موقعہ ملتا رہتا. ان کا عارضی مستقر وادی کوئٹہ کے شاعروں اور ادیبوں کا ایک ٹھکانہ سا بن گیا تھا، جہاں زندگی کے کئی بہترین لمحات گزرے. پھر وہ لاہور جا پہنچے مگر رابطہ استوار اور برقرار رہا.
شہزاد احمد شیخ کا مجموعہ کلام ان کی غزل گوئی کا مرصع نمونہ ہے جس میں ان کی تقریباً ستر سے زائد غزلیات موجود ہیں. ان کی شاعری داخلی و خارجی کیفیات کا پر اثر گلدستہ ہے. جس کا واضح عکس کئی مقامات پر دکھائی دیتا ہے:

ان کی آنکھوں میں جب نمی دیکھی
اپنی ہستی میں ہی کمی دیکھی

ان کی سخن دانی معاشرے کی درست عکاسی کرتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہے. شیخ صاحب اپنی پیرانہ سالی کا اعتراف کرنے کہ باوجود قلب جواں کے جذبات رکھتے ہیں:

عمر کی سیڑھی پہ مانا آگیا ہوں دور میں
دل میں جو موجود ہیں تو آ مرے چاؤ بھی دیکھ

ان کی شاعری میں اگر کہیں کہیں نا امیدی حسرت و یاس کی جھلک ملتی تو رجائیت بھرے اشعار بھی دلوں کو توانائی بخشتے دکھائی دیتے ہیں، ایک غزل میں فرماتے ہیں کہ:

تارے گن گن تھک گیا ہوں رات ہے لیکن طویل
شب بتانے کے لیے اب داستان درکار ہے

جب کہ ایک اور غزل میں کہتے ہیں:

یقیناً بہاروں کو آنا ہے شہزاد
ابھی تو خزاں ہے، خزاں کون بدلے

وہ لمحات زیست کے مختلف النوع حالات سے واقف ہی نہیں بلکہ ان کا سامنا کرنا بھی جانتے ہیں. شہزاد احمد شیخ رنج و آلام سے مقابلہ کرنے کے فن سے آگاہ ہیں، گو کہ وہ لمحات غم پر شکوہ کناں ہیں:

رنج آتے ہیں کیوں پناہ لینے
دل کوئی آشرم نہیں ہوتا

انہیں ہر قسم کے حالات میں گزر بسر کرنے کا سلیقہ خوب آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:

ہم تو اپنا خیال رکھیں گے
آگئے ہیں گذر بسر کے اصول

ان کا کلام تشبیہات و استعارات اور صنائع بدائع سے مزین ہے. کوئٹہ سے انہیں ایک خاص نسبت ہے کیوں کہ انہوں نے زندگی کا پہلا مشاعرہ انجمن ادب بلوچستان کی وساطت سے پڑھا. بلوچستان میں ان کی بے شمار ادبی سرگرمیاں بھی سب کے سامنے ہیں. شہزاد احمد شیخ کا مجموعہ کلام بلاشبہ خوبصورت اشعار کا دل آویز و دل نشیں مرقع ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں