شوکت کمال رانا کا مجموعہ نظم ”امکان‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

شوکت کمال رانا کا مجموعہ نظم ”امکان‘‘ عصرِ حاضر میں جدید اُردو نظم کی ایک توانا صدا ہے. تنگنائے غزل ہو یا پھر نظم کی وسعت کسی شاعر کے شاعرانہ اوصاف ظاہر ہونے میں دیر نہیں لگتی. شوکت کمال رانا کا مجموعہ اُردو نظم میں ایک کمال سے کم نہیں. آپ کی نظموں میں قدرتی نظاروں، پھولوں، موسموں کا ایسا دل نشین بیان ہے ہے کہ روح سرشار ہو جاتی ہے. اپنی نظم ایک نظم میں وہ لکھتے ہیں کہ:

سوسن گل
ترے شکووں میں حقیقت کیا ہے
تیرے ہونٹوں کے شگوفوں نے ہی زردانوں سے
تخم پاشی میرے زرخیز جزیرے میں کی

ان کے کلام میں قلبی واردات کی ترجمانی اور احساس و جذبات کی فراوانی بھی دکھائی دیتی ہے. وہ اپنے بچپن کو کچھ اس انداز سے یاد کرتے ہیں:

یہ جتنی بھی شرارت
تیرے بچپن کے خرابوں سے نکلتی ہے
مری یادوں کے گلشن میں پرانے موسموں کی آبیاری ہے
ترے معصوم ہونٹوں سے
سوالوں کی پٹاری جب بھی کھلتی ہے
مجھے گم گشتہ حیرت کے خزانے
رفتہ رفتہ ملنے لگتے ہیں.

شوکت کمال رانا کی نظموں میں غنائیت اور ترنم، اُن کی ایک امتیازی خوبی ہے. آپ کا لہجہ خوب صورت اور حیسن آہنگ سے مزین ہے:

یہ بات تو کوئی بات نہیں
کیا اتنا بھی یاد نہیں
بن تیرے گھر آباد نہیں
میں تنہا بھوکی پیاسی تھی
رگ رگ میں یار اداسی تھی

شوکت صاحب کی نظموں میں موضوعات کی ہماہمی اور رنگارنگی ملتی ہے. وہ معاشرتی حقائق، تہوار، اور مناظر فطرت کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں. اپنی نظم ”عید کیسے منائیں‘‘ میں لکھتے ہیں:

عید نے آنا تھا
عید تو آگئی
عید کیسے منائیں
بڑی فکر ہے

ایک اور نظم ملاحظہ کیجیے:

بیٹی تیرے فرض کی خاطر
میں نے اپنے فرض نبھائے
مجھ سے پھر بھی قرض نہ اترا

شوکت کمال کی نظمیں امروز و فردا کی دل آویز عکاسی کرتی ہیں. آپ کی شاعری میں انسانی زندگی کے کئی زاویے نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں.
ان کی نظم پر اثر اور کثیر المعانی ہے جو پڑھنے والوں کو جکڑ لیتی ہے. شوکت کمال ایک ایسا شاعر ہے جو سخن دانی کے رموز سے خوب آگاہ ہے کہ جس کا فنِ نظم نگاری اور منفرد اسلوب ”امکان‘‘ میں جابجا دکھائی دیتا ہے.
شوکت کمال کی شاعری میں مضمون آفرینی، دنیا کی رنگینی، جدت طرازی اور ندرت خیالی کے علاوہ جدت سخن بھی دکھائی دیتی ہے. ان کا شعری شعور معاشرے کی بے لاگ عکاسی کا حامل ہے. ”امکان‘‘ یقیناً ایک قابلِ مطالعہ مجموعہ نظم ہے.