سیما پیروز کا سفرنامہ سپین – محمد اکبر خان اکبر

ہسپانیہ! تو خونِ مسلماں کا امیں ہے…
سفر کے حالات بچپن ہی سے میرے لیے دلچسپی کے حامل رہے ہیں. طفلِ مکتب تھے تو سندباد جہازی اور پرستان کے سفرنامے پڑھے. شعور کی آنکھ کھلی تو تخیلاتی سفرناموں کہ بجائے حقیقی سفرناموں سے لطف اندوز ہونے کا آغاز ہوا.
اتنے سفرنامے پڑھ ڈالے کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں. کالج کے کتب خانے سے لے کر یونیورسٹی کی لائیبریری اور صوبائی لائبریریاں سبھی کھنگال ڈالیں. پھر بھی تشفی نہ ہو سکی تو کتب فروشوں سے بے شمار سفرنامے خریدے، جس کے نتیجے میں ان کی تعداد تقریباً چار سو تک جا پہنچی.
سفرنامہ ابنِ بطوطہ اور مستنصر حسین تارڑ، حکیم محمد سعید، محمد اختر ممونکا، قمر علی عباسی، ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب، حسنین نازش، کتنے ہی نام ہیں جن کے سفرنامے پڑھ پڑھ کر سفرِ شوق بڑھتا رہا. سوئے اتفاق بیس سال قبل پہلا غیر ملکی سفر کیا تو خود بھی ایک سفرنامہ تحریر کر ڈالا مگر سفرنامے کی دلچسپی روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے. حال ہی میں سیما پیروز کا سفرنامہ ”میڈرڈ سے ادھوری ملاقات‘‘ پڑھا تو اَندلس کی تاریخ و طرزِ معاشرت نے جکڑ کر رکھ دیا. تقریباً بیس سال قبل ”اندلس میں اجنبی‘‘ پڑھ کر وہاں جانے کی جو خواہش بیدار ہوکر رفتہ رفتہ خوابیدہ ہو چکی تھی، ایک بار پھر بیدار ہو گئی ہے. سیما پیروز معروف فکشن رائٹر ہیں. ان کے افسانوی مجموعے پہلے ہی قارئین کی توجہ کا مرکز ہیں. سفرنامہ نگاری میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا ہے. ان کا یہ سفرنامہ ”میڈرڈ سے ادھوری ملاقات‘‘، اندلس کا خوب صورت سفرنامہ ہی نہیں دل میں اتر جانے والی دلچسپ روداد ہے. غرناطہ، مجریط، اشبیلہ، قرمونہ، بارجلونا کے گلی کوچوں کا ایک طلسم ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتا محسوس ہوتا ہے. الحمرا سے واپس آکر جس اداسی کی کیفیت مصنفہ پر طاری ہوتی ہے وہ قاری کو بھی اداس کر دیتی ہے. مسجد قرطبہ کا تذکرہ تو اشکبار کر دیتا ہے وہ لکھتی ہیں:
”چشم نم سے میں نے چاروں اور نظر دوڑائی اور میرے دل سے ایک ہوک اٹھی، آج ہم اسے مسجد بھی نہیں کہہ سکتے.‘‘
مصنفہ نے اس کتاب میں ہندوستان سے مسلمانوں سے ملاقات کا بھی بہت خوب انداز میں تذکرہ رقم کیا ہے. ان کا اسلوب نگارش رواں اور جاندار ہے. روزمرہ بول چال کی زبان میں لکھنا ان کی تحریر کا خاص وصف ہے. یہ درد کے رشتے پڑھنے والوں کے لیے توشہ خاص ہے جو بہاری مسلمانوں کے حالات سے کچھ آگاہی فراہم کرتا ہے.
کتاب کا ایک حصہ سکردو کے حالاتِ سفر پر مبنی ہے. شاید میڈرڈ سے ادھوری ملاقات کے باعث اس کتاب میں ایک اور سفرنامہ شامل کرنا پڑا. ویسے بہتر ہوتا اگر پورا سفرنامہ صرف سپین کے سفرنامے پر مشتمل ہوتا. بہرحال اُردو کے بے شمار سفرناموں میں یہ ایک عمدہ اضافہ ہے.